دینی تحریکوں کو سیاست سے بچائیے

دینی تحریکوں کو سیاست سے بچائیے

دینی تحریکوں کو سیاست سے بچائیے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

ملت اسلامیہ ہندیہ ایک نہایت نازک دور سے گزر رہی ہے، موجودہ حالات میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے؛ ہر اقدام سے قبل اس کے ممکنہ مثبت و منفی اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ کہیں لمحوں کی غلطی صدیوں کی سزا میں نہ بدل جائے؛ مگر افسوس کہ ہم اکثر ایسے نازک موقع پر نفسیات سے مغلوب ہو کر ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کا خمیازہ طویل مدت تک بھگتنا پڑتا ہے؛ ہماری سعی، جدوجہد اور قربانیاں جو ایک مقصد کے تحت کی جاتی ہیں، وہ وقتی کوتاہی کے سبب رائیگاں چلی جاتی ہیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایت کے مطابق امارت شرعیہ پٹنہ کے بینر تلے حالیہ منعقدہ ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ“ کانفرنس اس کی ایک تازہ مثال ہے؛ کس قدر محنت، اخلاص اور جانفشانی سے اس اجتماع کو سجایا گیا؛ عوام و خواص نے یکساں طور پر جان، مال اور وقت کی قربانی دی؛ شعلہ بیانی، جذبۂ ایمانی اور اتحادِ ملت کا شاندار مظاہرہ پیش کیا؛ بلاشبہ یہ اجتماع ملت کے شعور، حوصلے اور دینی غیرت کی علامت تھا؛ لیکن اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی شرکت سے تحریک کے جو اثرات مرتب ہونے چاہئیں، وہ سیاسی پروپیگنڈہ کی نذر ہو کر رہ گئے۔

اس اندیشہ کا اظہار حقیر نے پروگرام کے دن ہی ”علماء بہار“ واٹس اپ گروپ میں کیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی شرکت سے حکمران جماعت اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے، حقیر نے لکھا تھا کہ ”اجتماعی مظاہرہ میں پروگرام تو کامیاب ہے لیکن صرف اپوزیشن کو بلا کر حکمراں جماعت کو موقع دے دیا گیا کہ وہ سیاسی جلسہ اور اپوزیشن کے بہکاوے کا شکار، کہہ کر اس کے اثرات ختم کرنے کی کوشش کریں؛ سیاسی لوگوں کو بلائے بغیر اپنے اتحاد اور اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے اور اس سے بعد از انتخاب بیلنس بنانے کے بھی کام آتا ہے“۔

بہت سے لوگ انڈیا ٹی وی کے پروگرام سے متعلق گیارہ منٹ بائیس سیکنڈ کی رپورٹنگ کو یہ کہہ کر شیئر کر رہے ہیں کہ دیکھو! امارت شرعیہ کی طاقت؛ کتنے بھولے بھالے لوگ ہیں کہ چند جملے خوش کن لے لیے اور اس کے پیچھے چھپے نشتر کو نہیں سمجھ سکے؛ خیر، ویڈیو سے نہیں سمجھ میں آیا تو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سدھانشو ترویدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے، اس کا خلاصہ پڑھ لیجیے، شاید پھر بات سمجھ میں آ جائے؛ انہوں نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا

کہ ان سوشلسٹوں کو اقلیتوں کی بھی پروا نہیں ہے، ملاؤں اور مولویوں کے سامنے جھک کر وہ سماج واد کو نماز واد میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؛ یہ سب پکے نماز وادی ہے، آرجے ڈی ہو یا کانگریس، کتنی للچاہٹ ہے کٹھ ملا ووٹوں کی پیاس میں؛ میں بہار کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ دو ہی راستے ہیں، یا تو انڈی اتحاد جو اقتدار میں آنے کی صورت میں پچھلے دروازے سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کرے گااور دوسری طرف ہماری حکومت جو بابا صاحب کے آئین کی حفاظت کے لیے پر عزم رہے گی۔

دیکھئے! کس طرح حکمراں جماعت کے نمائندے اپنی پریس کانفرنسوں، ٹی وی مباحثوں اور عوامی بیانیہ میں تحریک کے پس منظر، مقاصد اور عوامی جذبات کو بالکل نظرانداز کر کے ایک نیا اور گمراہ کن بیانیہ کھڑا کر رہے ہیں اور ایک خالص مذہبی، آئینی اور قانونی مسئلے کو عوامی ردعمل کے طور پر اُجاگر کرنے کے بجائے اسے ”اپوزیشن کی سازش“ یا ”سیاسی ہنگامہ” قرار دے کر دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکمراں جماعت نے اپنے اس بیانیے کے ذریعہ آنے والے بہار اسمبلی انتخاب میں برادرانِ وطن کے ووٹ کو مذہبی بنیاد پر پولرائز کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا براہِ راست نقصان اپوزیشن کو ہی اٹھانا پڑے گا؛ بی جے پی اس بار پورے زور و شور کے ساتھ بہار میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کی مہم چلا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن سیاسی حکمتِ عملی، ہتھکنڈے اور ذرائع استعمال کرے گی؛ ایسے نازک سیاسی ماحول میں عین انتخابی موسم کے دوران حزبِ مخالف کی قیادت کو کسی عوامی یا مذہبی پروگرام میں مدعو کرنا، دانش مندی نہیں بلکہ نقصان دہ عمل ہے، اس میں نقصان ملت کا بھی ہے اور خود اپوزیشن کا بھی۔

حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، آج ایک جماعت اقتدار میں ہے، کل کوئی اور ہوگی؛ ایسے میں کسی بھی طویل مدتی تحریک کا کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستگی تحریک کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے؛ آپ نے جس سیاسی جماعت کو قریب کیا ہے، کل وہی برسرِ اقتدار آ گئی تو بظاہر کوئی مسئلہ نہ ہوگا؛ لیکن اگر آپ نے کسی مخصوص جماعت سے دوری اختیار کی ہے اور وہی اقتدار میں آ گئی، تو آپ کی پوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے بلکہ آپ کو مزید بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

لہٰذا دینی تحریکات اور اجتماعات کو ہر طرح کی سیاسی وابستگی سے آزاد رکھنا ہی دانش مندی ہے تاکہ نہ صرف ان کی ساکھ برقرار رہے بلکہ مستقبل میں کسی سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں تحریک کو نقصان نہ پہنچے؛ یاد رکھیں! دینی اور ملی تحریکیں حکمت، اخلاص، غیر جانب داری اور مسلسل جدوجہد سے کامیاب ہوتی ہیں؛ وقف بچاؤ دستور بچاؤ جیسی تحریک اگر سنجیدگی، اتحاد اور ایمانداری سے چلائی گئی تو اس کے ثمرات دور رس اور پائیدار ہوں گے؛ اور اگر اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا تو یہ ایک دن کا ہجوم بن کر رہ جائے گی یا سیاسی بازیگروں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جائے گی۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *