صاحبان ِعلم ومعرفت آؤ …… حقِ علم ومعرفت ادا کریں

صاحبان ِعلم ومعرفت آؤ …… حقِ علم ومعرفت ادا کریں

_امراء و حکمران کی سربازار بولی لگانے والے تاریخ کے واحد عالمِ دین کی داستان_

*✍️امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی*

_تاریخ کے صفحات پرجرأت  و ہمت، بے خوفی و بیباکی اور جابر و ظالم اربابِ حکومت کے سامنے حق گوئی و صاف گوئی کا ایک سے بڑھ کر ایک واقعات مندرج ہیں مگر ان میں ایک واقعہ ایسا انوکھا اور ناقابل یقین ہے جس کی مثال آج تک پیش نہیں کی جا سکی؛یہ مثال قائم کرنے والے تیرہویں صدی کے ایک عالم دین ابو محمد عزالدین عبد العزیز ابن عبد السلام ابن ابی القاسم ابن حسن السلمی الشافعی(٥٧٧ھ- ٦٦٠ھ مطابق ١١٨١ء-١٢٦٢ء)ہیں؛ جنہیں “سلطان العلماء ،بائع الملوك اور شيخ الإسلام” کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ؛ آپ تفسیر، حدیث ،فقہ ،عربی زبان اور دیگر علوم آلیہ میں زبردست قابلیت کے ساتھ تقویٰ و طہارت، عبادت و ریاضت اور صلاحیت وصالحیت کے امام تھے؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں کسی حکمت و مصلحت کے روادار نہ تھے، بالخصوص اعیان حکومت و سلطنت کے بے راہ رو امراء و حکام کی برسرعام نکیر و اصلاح کے سلسلے میں مشہور تھے اور اس معاملہ میں آپ کسی خوف و اندیشہ یا مفاد دنیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے._

_آپ کے امراء و حکام کے سامنے اظہارِ حق کے بے شمار واقعات ہیں مگر ایک خاص واقعہ جس کی نظیر تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی اور بقول امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ “ایسا واقعہ کبھی نہیں سنا گیا” وہ واقعہ ہم سب صاحبان علم ومعرفت کے لیے قابلِ تقلید ہے؛ آئیے پہلے یہ داستانِ شجاعت امام سبکی ہی کی زبانی سنتے ہیں،  طبقات الشافعیۃ الکبری جلد آٹھ میں آپ فرماتے ہیں:_

_الملک الصالح نجم الدین ایوب کے دور حکومت میں امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ مصر کے قاضی القضاۃ تھے؛ ایوب کی حکومت میں اونچے اونچے عہدوں پر غلام فائز تھے جبکہ ان میں سے اکثر کی بابت یہ تک پتہ نہ تھا کہ ان کا مالک ہے کون؟ امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے دور تک آتے آتے یہ اقتدار میں بہت اوپر تک پہنچ چکے تھے بلکہ حقیقی اقتدار تو تھا ہی غلاموں کے پاس؛ خود نائب سلطان ایک غلام تھا، ملٹری کمانڈر سب کے سب غلام تھے، بیورو کریسی غلاموں سے بھری ہوئی تھی کچھ تو ایسے تھے جنہیں ان کے اصل مالکوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر آزاد کر دیا تھا مگر کئی ایک ایسے تھے جن کا آزاد ہونا پایہء ثبوت ہی کو نہ پہنچتا تھا۔_

_امام عزالدین بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس غیر آزاد شدہ غلام افسروں کی جانب سے کوئی پروانہ آتا، خرید وفروخت یا نکاح یا جائیداد سے متعلق احکامات آتے توآپ انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ یہ ایک غلام کے احکامات ہیں اور غلام اس کے شرعاً اہل نہیں ہیں؛  کوئی بڑے سے بڑا امیر کبیر عہدیدار اور وزیر کیوں نہ ہو آپ اس کے احکامات مسترد کردیتے؛ وجہ پوچھنے پر آپ فرماتے :”پہلے اس غلام کو بیچا جائے گا، پھر آزاد کیا جائے گا، اس کے بعد اس کے معاملات از قسم خرید وفروخت اور اس کے جاری کردہ احکامات وتصرفات معتبر ہوں گے، اس وقت چونکہ یہ غلام ہی ہیں جو آزادانہ خرید و فروخت نہیں کر سکتے ہیں”._

_غلام اقتدار کے نشے میں چور تھے، یہ سن کر بے حد سیخ پا ہوئے، ان کے ہرکارے امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور کہنے گے: یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ہم نے تمہارے تصرفات کالعدم قرار دیے ہیں؛ اس پر وہ اور بھی سخت برہم ہو گئے اور مسئلہ سلطان ایوب کے پاس لے گئے؛  سلطان نے یہ حکم جاری کیا کہ یہ مسئلہ امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق نہیں ہے  اور آپ نہ اس سے متعلق کوئی فتویٰ دیں گے؛ جب آپ تک سلطان کی یہ بات پہنچی تو آپ نے اعلان کیا کہ : “میں آج سے اپنے آپ کو عہدہء قضاء سے معزول کرتا ہوں”۔_

*اس کے علاوہ آپ نے ایک اور قدم اٹھایا، وہ یہ کہ اپنا سب مال و اسباب جمع کیا، دو گدھے خریدے، ایک پر سب سامان لادا، دوسرے پر بیوی بچوں کو سوار کیا اور مصر چھوڑ کر اپنے وطن اصلی ملک شام کو چل پڑے؛     مگر ہوا یوں کہ جس جس کو پتہ چلتا گیا کہ امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ  مصر چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ سب آپ کے ساتھ ہو لیئے؛ آپ کی شخصیت مصر میں بہت محبوب و مقبول تھی، آپ کے کوچ کی خبر پھیلتے ہی پوری اُمت آپ کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوئی؛ مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے وہاں کے علماء، صلحاء، عبادت گزار، مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب کے سب چل پڑے یہاں تک کہ نچلے طبقے کے لوگ بھی پیچھے نہ رہے؛ روایت کے لفظ ہیں: مصر کے بڑھئی، رنگ ساز، خاکروب، سب امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہو لئے، ہر طبقے اور ہر پیشے کے لوگ قاہرہ سے کوچ کر جانے لگے؛ یوں امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ایک بڑی دُنیا مصر سے کوچ کر کے جا رہی تھی۔*

 

*تب کچھ لوگ سلطان کے پاس گئے اور اس سے کہا: یہاں آپ کی حکمرانی کیلئے بچے گا کون ؟ دیکھیے تو سہی سب دُنیا تو امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہی مصر کی مملکت چھوڑ کر جارہی ہے؛    تب مصر کا بادشاہ امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے آیا؛ خلق عظیم کی بھیڑ کو چیرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا اور آپ کو راضی کرنے لگا: ”حضرت قاہرہ واپس تشریف لے آئیے، آپ جیسا کہیں گے ویسا ہو جائے گا”؛ آپ نے فرمایا : “میں تب تک واپس نہیں آؤں گا جب تک تمہارے ان غلام حکمرانوں کی بولی نہیں لگتی”؛ بادشاہ کہنے لگا:” آپ جو فرمائیں گے ویسا ہی ہوگا”۔*

_امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ قاہرہ واپس آگئے؛ اب غلاموں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ کسی طرح حضرت کو راضی کرلیں اور وہ اپنے ارادے سے باز رہیں؛ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے بڑے بڑے امراء اور عہدیداروں کی سرعام بازار میں بولی لگائ جائے؛ نائب سلطان نے جو کہ خود ایک غیر آزاد غلام تھا آپ کو لالچ اور دھمکی کے ملے جلے پیغام بھجوایا مگر آپ اپنے ارادے پر قائم رہے؛ تب اسے ایک تدبیر سوجھی کہ حضرت کو قتل ہی کردیا جائے، چنانچہ نائب سلطان خود اپنے حاشیہ برداروں کے ساتھ آیا اور آپ کے دروازے پر دستک دلوائی، خدام ننگی تلواریں تھامے کھڑے تھے،دروازے پر امام عزالدین بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند آئے جن کا نام عبداللطیف تھا، اس نے یہ خوفناک منظر دیکھا تو الٹے پیروں واپس ہوا اور والد بزرگ وارسے کہنے لگا:” ابا جان موت ! نکلنے کی کوئی صورت ہو تو بچ نکلے”؛ اور پھر سارا ماجرا سنایا؛ آپ نے سارا حال سن کر اطمینان سے فرمایا :” بیٹا تمہارا باپ اس سے کہیں کمتر اور حقیر ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے”؛ یہ کہہ کر آپ باہر آئے اور نائب سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں؛ نائب سلطان پر کچھ ایسا رعب پڑا کہ وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا، ہاتھ پیر ساتھ نہ دے رہے تھے، خود اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی، چہرے کا رنگ فق ہو گیا، کچھ دیر وہ یونہی ساکت و جامد کھڑا رہا پھر بڑی لجاجت سے بولا:میرے آقا آخر آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا: میں تمہاری بولی لگواؤں گا اور تمہیں فروخت کروں گا، کہنے لگا: اس کی قیمت آپ وصول کریں گے ؟ فرمایا: ہاں، کہا اس کا کیا کریں گے ؟ فرمایا: بیت المال میں جمع کرائی جائے گی اور مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کیا جائے گا؛ نائب سلطان کی آنکھیں بھر آئیں، آپ سے دُعا کی درخواست کی اور رخصت ہو گیا۔_

_پھر واقعتاً ایسا ہوا بھی کہ مملکت کے بڑے بڑے سرکش افسر اور وزیر اور کرّوفرّ کے مالک حکمران ایک ایک کرکے امام عز الدين بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لائے جا تے تھے، آپ ایک ایک کی بولی لگواتے اور آپ نے یہ محض رسماً نہیں کیا بلکہ حقیقت میں آپ بار بار منادی کراتے اور خوب خوب قیمت بڑھاتے؛ جب تک قیمت بہت اوپر نہ چلی جاتی بولی نہ رکواتے؛ یہ سب آپ اس لئے کر رہے تھے کہ ان کا گھمنڈ خاک میں مل جائے اور ان کی تنی ہوئی گردنیں ذرا تواضع سیکھ لیں اور شریعت کا بول بالا ہو ؛ یوں مصر کے بازار میں حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد نیلام کر دی گئی؛ علماء اور مؤرخین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ایسا واقعہ انسانی تاریخ میں کبھی ہوا ہی نہیں۔_

_امام عزالدین رحمۃ اللہ علیہ میں اس قدر جرأت و ہمت اور طاقت و قوت کا راز آپ کا اللہ پر ایمان کامل اور یقین صادق تھا،برسرِ عام امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا تھا، بے خوفی و بے باکی سے معاشرے کے اندر حق بیان کرنا تھا،مفاد دنیا پر مفاد آخرت کو ترجیح دینا تھا، حق گوئی و صاف گوئی میں حیل و حجت سے کام نہ لینا تھا، بڑے چھوٹے، امیر و غریب اور رعایا و حکمران کی تفریق کے بغیر برائ پر نکیر کرنا تھا، نیز آپ کی طاقت و قوت اور شجاعت و دلیری کا سب سے بڑا سبب عوام تھی جس کا اعتماد آپ کو حاصل ہو گیا تھا اور جو آپ کی حق گوئی کے عمل میں آپ کی مددگار بن جاتی تھی؛ ان خصوصیات نے آپ کو معاشرے کے اندر ایک منفرد ترین حیثیت دے ڈالی تھی،آپ لوگوں کے دِلوں میں رہتے تھے اور قلوب پر حکومت کرتے تھے اورلوگ آپ کے لئے فرشِ راہ بننے کو سعادت و خوش بختی سمجھتی تھی ؛ آپ اپنے دور میں عالم اسلام کے عظیم ترین داعی، امام اور عالم کے طور پر دیکھے جاتے تھے._

*ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ہم سب بھی اپنا شمار صف علماء کے خوشہ چینوں میں  کرتے ہیں مگر کیا ہم اس دعویٰ کے تقاضے پر پورے اترتے ہیں؟  یاد رکھیں ہماری وقعت و حیثیت اِس صورت میں کیارہ جاتی ہے کہ ہم نے قرآن و احادیث کے متون تو یاد کئے  ہوں، فقہ و حدیث کی کتابیں ازبر کئے ہوئے ہوں، مسائل و معارف حفظ کئے ہوئے ہوں مگر عمل سے عاری ہوں ،ہم میں حلال و حرام کا پاس و لحاظ نہ ہو، دین و اسلام کیلئے غیرت نام کو نہ ہو، نہ اللہ اور رسولؐ کیلئے کبھی غصہ  آیا ہو اور نہ باطل کو دیکھ کر  کبھی چہرہ بگڑا ہو جبکہ ہم اپنے علم کے بل بوتے پر صدیقین وشہدا کی  منزلیں پانے کے امیدوار ہیں۔*

_اس لئے آئیے! تقاضئہ علم و معرفت پورا کیجئے،عمل و تقویٰ کا لباس زیب تن کیجئے،  عزم وحوصلہ کو تیز کیجئے ، جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیجئے، إحقاق حق اور إبطال باطل کی سدا دیجئے، باد مخالف کی تندی و تیزی کے سامنے سینہ سپر ہو جائیے اور حالات کے دھارا کو بدلنے کے لئے سر بکف نکل پڑئیے اور علامہ اقبال کی زبانی یہ اعلان کر دیجئے…. ع_

*آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی*

*اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی*

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹ