ملی اداروں سے وابستہ حضرات کی خدمت میں چند معروضات
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے دنیا بھر میں سرکاری اداروں کے علاوہ بہت سے غیر سرکاری ادارے، تنظیمیں، این جی اوز اور آرگنائزیشن و فاؤنڈیشن کام کرتے ہیں؛ یہ ادارے اور تنظیمیں اپنے کام کی بنیاد پر لوگوں میں متعارف ہوا کرتے ہیں اور جب تک اپنے اصول و ضوابط پر کار بند رہتے ہوئے انسانیت کی خدمت پر گامزن رہتے ہیں، اس کا وجود باقی رہتا ہے؛ ادارہ میں کام کرنے والوں کی پوری ٹیم ہوتی ہے، اس ٹیم میں ہرکوئ اپنی اپنی ذمہ داری کے حساب سے کسی نہ کسی منصب پر فائز ہوتا ہے لیکن سب کا مقصود ادارہ کے نظم و نسق کو صحیح ڈھنگ سے چلانا اور ادارہ کو اس کے مقاصد و عزائم پر گامزن رکھنے کی کوشش کرنا ہے؛ ادارہ میں کام کرنے والوں کی اخلاقی، دینی و شرعی فریضہ ہے کہ وہ ادارہ کے تئیں وفادار ہو، ادارہ میں کام کرنے والوں میں سے کسی خاص شخصیت سے اس حد تک وفاداری کہ ادارہ کے مفاد پر اس شخص کے مفاد کو ترجیح دے، یہ ادارہ کے حق میں نقصان دہ ہے اور خود اس کے لئے بھی۔
ہمارے ملک میں بہت سی قومی و ملی تنظیمیں ہیں، جو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے قائم کی گئیں ہیں؛ ان اداروں سے کچھ لوگ بحیثیت ملازم، کچھ بحیثیت کارکن، کچھ بحیثیت مشیر وغیرہ جڑے ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ اس کے فکریات و نظریات سے اتفاق رکھتے ہوئے اس کا دامے، درمے، سخنے تعاون کرتے ہیں؛ یہ ادارے عوام و خواص کی تائید و حمایت سے ترقی کی شاہ راہ پر گامزن رہتے ہیں اور اساسی مقاصد کے مطابق رواں دواں رہتے ہیں ۔
ان اداروں کے ذمہ داروں، کام کرنے والوں، تعاون کرنے والوں، حمایت کرنے والوں اور اس کی آواز بننے والوں میں ضروری ہے کہ وہ ادارہ کے تئیں مخلص ہوں اور جب کبھی خود کے مفاد اور ادارہ کے مفاد کا ٹکراؤ ہو تو ادارہ کے مفاد کو ترجیح دیں؛ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر نے اس کا عملی نمونہ پیش کرکے تاریخ کے صفحات پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں؛ لیکن موجودہ دور میں ان تنظیموں سے کسی بھی جہت سے جڑے افراد و اشخاص بجائے ادارہ و تنظیم کے ان اشخاص و افراد کے وفادار ہوتے ہیں جن سے یا تو ذاتی مفاد وابستہ ہو یا ان سے عقیدت و محبت میں انتہاء کو پہنچے ہوتے ہیں؛ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے محبوب کا ہر قدم، ہر فیصلہ، ہر رائے اور ہر حرکت و عمل صد فیصد درست ہے، غلط نہیں ہے، خواہ اس سے ادارہ کا کتنا بھی نقصان ہو جائے؛ بلکہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ اس کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے آسمان و زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں اور بے سر وپا کے دلائل دیئے جاتے ہیں؛ اسی فکری دیوالیہ پن نے جہاں ہمارے قومی و ملی اداروں کی عرفی حیثیت کو کمزور کیا ہے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، وہیں شخصیت کو بھی داغدار کیا ہے اور لوگوں میں ان کے تئیں بد اعتمادی بڑھی ہے؛ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دن بدن ادارے اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں۔
ان اداروں اور تنظیموں میں کام کرنے والوں اور ان کے حامیوں کو چاہیے کہ وہ شخصیت سے زیادہ ادارہ سے وفاداری نبھائیں؛ یقیناً آپ کو حق ہے کہ آپ کا دلی رجحان جن کے طرف ہو ان سے ٹوٹ کر عقیدت و محبت رکھیں لیکن اگر ادارہ اور آپ کی محبوب شخصیت کے مفادات کا ٹکراؤ ہو تو ادارہ کے مفاد کو ترجیح دیں؛ اگر واقعی آپ قوم و ملت کا درد رکھتے ہیں اور ان کا بھلا سوچتے ہیں تو ادارہ سے عہدِ وفا نبھائیں، ادارہ کی سالمیت و نافعیت جس میں ہو، اسے فوقیت دیں، اور یہ نہ صرف ادارہ کے تئیں آپ کا فریضہ ہے بلکہ عدل و انصاف کا بھی تقاضا ہے جس کا مطالبہ قرآن کریم نے ہم آپ سے بارہا کیا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شخصیت آج ہیں کل نہیں رہیں گی، کل ان کی جگہ کوئی اور لے لے گا جبکہ ادارہ جب تک خدمت خلق اور انسانیت کے لئے کام کرتا رہے گا، باقی رہے گا؛ ارشاد ربانی ہے وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ کہ وہ چیز جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے ، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے(سورہ رعد)؛ اس لئے ادارہ کے تئیں اگر آپ مخلص ہیں تو آپ کو ادارہ کا وفادار ہونا چاہیے، کسی خاص شخص اور عہدہ کا نہیں۔
آج کل ایک ٹرینڈ یہ بھی چل پڑا ہے کہ اداروں کے ذمہ داروں کے ہمنواؤں کی طرف سے بڑے زور و شور سے عوام و خواص کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں صاحب ہیں تو فلاں کام ہو رہا ہے، اگر وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہوگا؛ یہ ہماری غلط فہمی ہے، دین کا کام اور اللہ کا کام بندوں کا محتاج نہیں ہے، اللہ تو جس سے چاہے، لے لے؛ اس امت کے لیے سب سے بڑا حادثہ اللہ کے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کا رحلت فرمانا تھا، س حادثہ سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد مایوس ہو گئ اور یہ سمجھنے لگی کہ اب دین کا پھلنا پھولنا بند ہو جائے گا؛ مایوسی کے اس عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لائے، خطبہ دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی :”وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰی اَعۡقَابِکُمۡ کہ اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی کانوں میں یہ آیت پڑی تو سب کو تسلی ہو گئ۔
غور فرمائیں ! جب حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کے رحلت فرمانے سے دین کا کام نہیں رکا تو آج کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو؟ یا اس کے خدمات کتنے ہی زائد کیوں نہ ہو؟ ان کے آنے جانے سے اللہ اور دین کا کام نہ رکا ہے اور نہ رکے گا؛ اس لئے شخصیت کی عقیدت ومحبت میں غلو سے بچئے اور اللہ کے دین و قومی تنظیم کے وفادار بنئے؛شخصیت تو آتی جاتی رہے گی، آج کوئی اور، کل کوئی اور، اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کے اس امت پر بڑے احسان ہیں، انہوں نے قوم و ملت کے لئے بہت کچھ کیا ہے؛ لہذا ان کے ہر رطب و یابس رائے و فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے اور ماننا چاہیے؛ یہ نظریہ بھی بالکل غلط اور باطل ہے، ایسا اس لئے کہ جس کسی نے بھی دین کی جو خدمت کی ہے، وہ اپنے لیے کی ہے، اپنی آخرت بنانے کے لیے کی ہے؛ یہ کسی پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کا اس پر احسان ہے کہ اللہ نے اسے قوم و ملت کی خدمت کا موقع عنایت کیا؛ شیخ سعدی نے کتنی سچی بات کہی ہے… ع
منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی
منت ازو شناس کہ بخدمت بداشتت
کہ یہ احسان مت جتلاؤ کہ تم بادشاہ کی خدمت کرتے ہو بلکہ بادشاہ کا احسان مانو کہ اس نے تمہیں خدمت پر رکھا ہے؛ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اس طرح کے اداروں سے وابستہ افراد اور ان کی محبوب شخصیت اپنے حال و قال سے عوام کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہمارا کرم مانو کہ ہم نے یہ کر دیا، وہ کردیا ؛ خدارا! اس گھٹیا سوچ سے باہر نکلئے۔
اداروں میں کام کرنے والے نیچے درجے کے ارکان میں ایک بڑی بیماری اور پنپ رہی ہے کہ وہ اپنے سے بڑے ذمہ داروں کی ہر غلط، صحیح قدم کی تائید کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں بلکہ ان کی واضح غلطیوں کو بھی صحیح ثابت کرنے کے لیے خواہ مخواہ کی باتیں بناتے ہیں؛ یہ سوچ بھی غلط اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے؛ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے؛ حاجی صاحب حضرت گنگوہی کے پیر و مرشد تھے اور سماع کے قائل تھے جبکہ حضرت گنگوہی کا فتویٰ اس کے خلاف تھا؛ کسی نے پوچھا، حضرت! آپ حاجی صاحب سے بیعت بھی ہیں اور ان کے خلاف فتویٰ بھی دیتے ہیں؟ آپ نے تاریخی جواب دیا کہ” میں نے ان سے طریقت پر بیعت کی ہے، شریعت پر نہیں“؛ اسی طرح کی جرأت و بے باکی ہمارے اندر ہونا چاہیے کہ اگر شخص کی رائے ادارہ کے حق میں مفید ہے تو بالکل تائید کرنا چاہیے لیکن اگر ادارہ کے لیے غیر موزوں ہے تو پھر سلیقہ سے اس کے نقصانات سے آگاہ کر دینا چاہئے؛ یہ ہم سب کی ادارہ کے تئیں بڑی ذمہ داری ہے اور دینی و اخلاقی فریضہ بھی ہے۔
ہم سب میں یہ مرض بھی بڑھ رہا ہے کہ اگر کسی موقع پر آپ نے کسی ادارہ سے جڑی شخصیت کی آراء سے اختلاف کیا یا ادارہ سے جڑنے سے پہلے اس کی رائے سے اختلاف کیا، پھر اگر وہی شخص ادارہ میں کسی عہدہ پر فائز ہو جاتا ہے اور آپ بھی ادارہ کے پروگرام کا حصہ بنتے ہیں یا اس کے اچھے کاموں کی تائید کرتے ہیں تو اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات یہ کہنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص بدل گیا ہے یا منافق ہے کہ پہلے مخالفت کی اور اب موافقت کرتا ہے ؛ یہ سوچ بھی غلط ہے کیونکہ جو شخص کسی ادارہ کا وفادار اور اس کے تئیں مخلص ہوتا ہے تو وہ ہمہ وقت اس کی حمایت کرے گا، اس کے اچھے کاموں کا حصہ دار بھی بنے گا اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں رہے گا؛ محض اپنی پسند کے شخص کے نہ آنے اور ناپسند شخص کے آجانے کی وجہ سے ادارہ سے تعلق نہیں توڑے گا؛ اگر توڑتا ہے تو صاف ہے کہ وہ ادارہ کا مخلص نہیں تھا بلکہ اس کا ذاتی مفاد ادارہ سے وابستہ تھا، جس کے حصول کا اب امکان نہیں ہے تو الگ ہو گیا اور جب تک مفاد کے حصول کا امکان تھا، وابستہ تھا؛ اس لئے اس نظریے سے بھی باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہیے۔
یہ چند معروضات ہیں جو ہم سب کو سامنے رکھ کر اپنی فکری جہت کا رخ طے کرنا چاہیے؛ نہ ادارے کے اندروں کام کرنے والے کو ادارہ سے اوپر کسی کو ترجیح دینی چاہیے اور نہ بیرون ادارہ معاونیین و محسنین کو ادارہ اور اس کے مفاد پر کسی کو ترجیح دینی چاہیے، اللہ ہمیں فکرِ سلیم عطاء فرمائے۔