حضرت الاستاذ مفتی خالد حسین نیموی قاسمی بحیثیت ایک کامیاب مربی
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
ابتدائیہ
دنیا میں ہر دن انسان کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ہزاروں آتے ہیں اور ہزاروں چلے جاتے ہیں؛ ان آنے جانے والوں میں اکثر گمنامی کی زندگی گذار کر دنیا کو الوداع کہہ جاتے ہیں، نہ وہ کوئی کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں، نہ ان کا کوئی کارنامہ منظر عام پر آتا ہے، نہ ان کی شخصیت محدود دائرہ سے باہر نکل پاتی ہے اور نہ ہی ان کی انسانیت کے لئے کوئی قابلِ ذکر خدمت ہوتی ہے جو ان کے لیے مرنے کے بعد ذکرِ خیر کا سبب بن سکے یا ان کی ذات کو حیات جاودانی عطاء کر سکے مگر انسانوں کی بھیڑ میں بعض شخصیت ایسی بھی ہوتی ہے جن کا شہرہ ملک و ملت اور انسانیت کی عظیم خدمت کے صلہ میں چہار دانگِ عالم میں گونجتا ہے؛ وہ اپنی غیر معمولی کارکردگی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے، ان کی ذات عام لوگوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہوتی ہے کہ وہ شعبئہ حیات کے کسی نہ کسی شعبہ میں انسانیت کے لئے ایسا نفع بخش کام انجام دیتا ہے، جس سے اپنے پرائے،عام و خواص، متعارف غیر متعارف، سبھی کسی نہ کسی جہت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا نیک نام و کام، زندگی میں بھی اور بعد از زندگی بھی زبان زد عام و خاص رہتا ہے، اور عرصہ دراز تک نسل در نسل ان کی خدمات کا چرچا رہتا ہے؛ انہیں باکمال و قابلِ رشک شخصیات میں سے حضرت الاستاذ مفتی خالد حسین نیموی قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی ذات گرامی ہے۔
تعلیم و تربیت
آپ صوبہ “بہار” سے تعلق رکھتے ہیں، ضلع بیگو سرائے میں” نیما” آپ کا وطن مالوف ہے؛ گھریلو ماحول اور تربیت نے پڑھنے لکھنے ، کچھ بننے اور کچھ کرنے کا ذوق و شوق بیدار کردیا تھا؛ چنانچہ گاؤں سے مکتب کی تعلیم کا آغاز کیا، پھر جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگو سرائے پہنچے، یہاں سے دارالعلوم پٹکا پور کانپور تشریف لے گئےاور وہاں سے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا؛ یہیں سے ١٩٩٨ء-١٩٩٩ء میں آپ نے فضیلت اور افتاء کی تعلیم مکمل کی، دارالعلوم میں آپ نے اپنی ساری توانائی علم کے حصول میں صرف کیا، غیر علمی مشاغل سے خود کو بالکل الگ رکھا، محنت کشی و جفاکشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا؛ اپنے آپ کو کتاب واستاذ کے حوالہ کیا، “من طلب العلي سهر الليالي” کا عملی مظاہرہ کیا، وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے تعلیمی زندگی کا سارا وقت مطالعہ و مذاکرہ میں لگایا؛ درس میں اور درس سے باہر اساتذہ سے استفادہ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، بریں بناء ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب رہے ، درسیات کے ساتھ تقریر وتحریر (عربی و اردو دونوں ) میں بھی کمال حاصل کیا، مدام مسابقہ میں ممتاز رہے اور قابلیت کے ساتھ اساتذہ کی نگاہ میں مقبولیت بھی حاصل کی؛ پھر دارالعلوم دیوبند ہی میں معین مدرسی کے عہدہ پر فائز ہو کر تدریسی سفر کا تاریخی آغاز کیا، اور تعلیم کے ساتھ تدریس کی بھی تربیت پائ؛ دارالعلوم دیوبند میں دوران تعلیم عملی میدان میں بھی کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا، قادیانیت کی سرکوبی کے لئے اساتذہ کے ساتھ اطراف دیوبند سے لے کر دہلی تک کا کامیاب سفر کیا اور ختمِ نبوت کا جھنڈا لہرایا؛ اس طرح علم و عمل کے شہسواروں اور “رهبان بالليل و فرسان بالنهار” کے سچے مصداقوں کے زیرِ تعلیم وتربیت رہ کر اپنی ذات کی ہمہ جہت تدریب کی، وقت کا صحیح استعمال کرکے اپنی شخصیت کو نکھارا، مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کیا اور قوم وملت کی علمی و عملی، دینی و فقہی، اصلاحی و فکری، سماجی و معاشی قیادت کے لیے عملی میدان میں قدم ڈال دیا۔
دارالعلوم الاسلامیہ پٹنہ میں صدر مدرس
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ سابق نائب امیر شریعت امارت شرعیہ پٹنہ و سابق صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ذات گرامی مردم شناس تھی، آپ لوگوں سے ان کی قابلیت و صلاحیت کے مطابق کام لینا جانتے تھے؛ آپ نے جب ٢٠٠١ء میں دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ کی بنیاد ڈالی تو حضرت الاستاذ کو پہلے صدر مدرس کی ذمہ داری سپرد کی اور یونہی سپرد نہیں کیا بلکہ تقریباً پندرہ روز پاس رکھ کر علمی پختگی کا جائزہ لیا اور جب مکمل اطمینان ہو گیا پھر بحال کیا؛ آپ کے لیے یہ بڑا امتحان تھا مگر آپ اس امتحان میں صد فیصد کامیاب ہوئے اور چند سالوں میں ہی اپنی ماہرانہ قیادت سے تعلیم و تربیت کے میدان میں ادارہ کو ممتاز بنا دیا؛ احقر حضرت الاستاذ سے وہیں تین سال تک استفادہ کیا، آپ کی محبت و عنایت بھی ملی، مشفقانہ و مربیانہ تادیب بھی ہوئ؛ آپ علم وفن میں کمال، تقرير و تحریر میں مہارت اور دیگر گوناگوں خوبیوں کے ساتھ بہترین “مربی” بھی ہیں؛ احقر کی حقیر نگاہ میں آپ کی “مربیانہ قابلیت” آپ کا خصوصی وصف ہے، اور یہ وصف آپ کو علماء کے صفوں میں امتیازی شان و مقام عطاء کرتا ہے۔
مدارس کا خصوصی امتیاز
مدارس تعليم گاہ کے ساتھ تربیت گاہ بھی ہے، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے قیام کی تاریخ میں “در مدرسہ خانقاہ دیدیم” کا جملہ مدارس کے تعلیم گاہ کے ساتھ تربیت گاہ ہونے کی وضاحت کے لیے کافی ہے؛ یہ اس لئے کہ تعلیم و تربیت دونوں ضروری ہے، دونوں ایک دوسرے کے بغیر ناقص و ناتمام ہےبلکہ علم بغیر عمل کے وبال اور عمل بغیر علم کے ضلال ہے؛ اگر علم نہ ہو اور عمل کرنا شروع کردے تو بھی ضلال و گمراہی ہے اور اگر علم ہو مگر اس پر عمل نہ ہو تو بھی وبال و بوجھ ہے؛ مدارس وہ درسگاہیں ہیں جہاں بے علم کو علم، بے عمل کو عمل اور بے ادب کو ادب سکھایا جاتا ہے؛ یہ علم و عمل کے وہ گہوارے ہیں جہاں طلبہ کو علمِ نبوی کے ساتھ عملِ نبوی کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے؛ یہ علم و عمل کا وہ حسین سنگم ہے جہاں الفاظ کے نقوش سینوں میں منتقل کرنے کے سوا عمل کی چاشنی سے بھی لذتِ آشنائی کرائ جاتی ہے؛ یہ وہ ٹریننگ سینٹر ہے جہاں طالبانِ علوم نبویہ کو علم سے آشنائی کے علاوہ عمل کا پیکر بھی بنایا جاتا ہے؛ اساتذہ کا کام صرف پڑھنا پڑھانا نہیں ہےبلکہ جو کچھ پڑھایا ہے اس پر طلبہ کو عمل کا پابند بھی بنانا ہے، کامیاب مدرس وہی ہے جو تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت پر نگاہ رکھے، ان کی خبر گیری و خیر خواہی کرے؛ اس لئے طلبہ کی جسمانی، اخلاقی، روحانی اور نفسیاتی تربیت اساتذہ کا شرعی و اخلاقی فریضہ ہے۔
بحیثیت کامیاب مربی
حضرت الاستاذ کو میں نے پایا کہ آپ میں علمی کمالات کے ساتھ “تربیت” کا خاص ملکہ ہے، آپ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر پینی نظر رکھتے تھے، خود بھی باسلیقہ رہتے اور اپنے عزیزوں کو بھی با سلیقہ دیکھنا چاہتے تھے؛ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، سونے جاگنے، بولنے چالنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور سبق سننے سنانے میں کسی بھی قسم کی بے ہنگمی آپ کو پسند نہیں تھی، تعلیمی اوقات ہو غیر تعلیمی ہمہ وقت طلبہ کی تربیت و تادیب پر توجہ دیتے تھے، جونہی کسی قسم کی کمی و کوتاہی دیکھتے، بر وقت تنبیہ فرماتے تھے ۔
دارالعلوم الاسلامیہ پٹنہ میں جس عمارت میں احقر تھا، اسی میں حضرت کا قیام تھا، عمارت میں آنے جانے کا ایک ہی راستہ تھا، راستہ کے اختتام پر مین گیٹ تھا، گیٹ سے متصل تھوڑے فاصلہ پر بیٹھک ٹائپ دروازہ تھا؛ جس میں بعد عصر اساتذہ تشریف رکھتے تھے، وہاں سے ہر وارد و صارد پر نگاہ رہتی تھی، بعد عصر اگر کبھی کبھار آپ وہاں بیٹھ جاتے تو ہمارے لیے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا تھا؛ اس لیے نہیں کہ آپ تفریح کے لیے نکلنے سے منع کرتے تھے یا تفریحی اوقات میں مفید و جائز تفریح کے قائل نہیں تھے بلکہ ہم اپنی بچکانہ سوچ میں اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپ کی باریک نگاہِ تربیت میں ہماری کوئی کمی کوتاہی نہ آجائے، پھر حضرت کا تادیبی افہام شروع ہو جائے اور ہمارا تفریح کا مزہ کرکرا ہوجائے۔
طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ
آپ طلبہ کی نقل و حرکت کے نقص پر بر محل نشاندہی فرماتے اور بغیر لائ لپٹائ کے اس کی درستگی کی طرف توجہ مبذول کرواتے، بر محل روک ٹوک کی وجہ سے آپ طلبہ میں بظاہر سخت گیر مشہور تھے حالانکہ آپ انتہائی شفیق و ہمدرد اور طلبہ سے بے حد محبت و مؤدت فرماتے تھے؛ نیز حکمت کے ساتھ غلطی پر بر محل تنبیہ خیر خواہی ہے اور فنی اعتبار سے اصلاح و تربیت کے باب میں نہایت مفید اور مؤثر بھی ہے، حدیث شریف میں بھی بہت سے واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بھول چوک پر فوری گرفت کرکے اصلاح فرمائی ہے ۔
اس قسم کا ایک واقعہ بخاری شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالتَّمْرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَيَجِيءُ هَذَا بِتَمْرِهِ وَهَذَا مِنْ تَمْرِهِ حَتَّى يَصِيرَ عِنْدَهُ كَوْمًا مِنْ تَمْرٍ ، فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَلْعَبَانِ بِذَلِكَ التَّمْرِ فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَهَا مِنْ فِيهِ فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور توڑنے کے وقت زکوٰۃ کی کھجور لائی جاتی، ہر شخص اپنی زکوٰۃ لاتا اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کھجور کا ایک ڈھیر لگ جاتا، ایک مرتبہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ایسی ہی کھجوروں سے کھیل رہے تھے کہ ایک نے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی دیکھا تو ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد زکوٰۃ کا مال نہیں کھا سکتی”؛اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل بتاتا ہے کہ تربیت کے تعلق سے مربی کو بہت حساس رہنا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے، مصلحت کا بہانہ بنا کر چشم پوشی روا نہیں رکھنی چاہئے۔
احقر پر حضرت کا احسان
حضرت الاستاذ کی بھی یہی طبیعت تھی، جہاں طلبہ میں عملی، اخلاقی، روحانی کج روی دیکھی وہیں اصلاح فرما دی؛ احقر زمانہ طالب علمی میں بہت لا پرواہ تھا،الٹی سیدھی حرکت کرتا رہتا تھا، تمام اساتذہ اس ناچیز پر خصوصی عنایت فرماتے تھے اور بڑی محبت و شفقت سے تادیب فرماتے، حضرت الاستاذ نے بھی خوب اصلاح فرمائی، جس کا صدقہ ہے کہ تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کا سلیقہ آگیا، اس سلسلے کی بہت سی یادیں دل دماغ پر منقش ہے، جو کسی اور موقع پر ضبطِ تحریر کرنے کی کوشش کروں گا انشاء اللہ؛ دورِ طالب علمی میں اساتذہ کی یہی روک ٹوک مستقبل میں آزادانہ ماحول میں کج روی سے بچاتی ہے اور قدم قدم پر صحیح رہنمائی کرکے سوئے منزل رواں دواں رکھتی ہے مگر کم عمری کی کم فہمی میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے؛ ایک حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ مربی سے ایسی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو غلط میں مبتلا دیکھے اور خاموش رہے، خواہ عزیزوں کو کتنا ہی ناگوار و شاق گزرے۔
مربی بھی طبیب کی طرح ہوتا ہے جو زخم لگاکر فاسد مادہ نکال دیتا ہے تاکہ صحت سلامت رہے اور ہم سلامتی کی امید میں زخم کی تکلیف ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں، ایسے ہی ہمیں اپنے اساتذہ کی کڑوی کسیلی بات پھول سمجھ کر دامنِ دل میں سمیٹ لینا چاہیے تاکہ ایمان و عمل سلامت رہے اور مستقبل تابناک ہو، حضرت الاستاذ کی طبیعت بھی تربیت کے باب میں بظاہر سخت ہے، لیکن اس میں خیرخواہانہ جذبہ غالب ہے اور یہی جذبہ آپ کو نونہالوں کی تربیت سے غافل نہیں ہونے دیتا ہے۔
تربیت کا فن
تربیت کا فن بڑا نازک ہے، ہر کس کے بس کا نہیں ہے، وہی شخص اس فن کا حق ادا کر سکتا ہے جو اس کے نشیب و فراز سے واقف ہو، اس کے دقیق پہلوؤں پر جس کی نظر ہو، جو اس کے نازک گوشوں سے واقف ہو، جو اخلاق عالیہ سے متصف اور اخلاق رذیلہ سے پاک ہو، جس کا ظاہر شریعت کے مطابق اور باطن طریقت کے موافق ہو، جن کے قول و فعل میں صداقت ہو، جو “درشتی و نرمی بہم بہ است” کا عملی مظہر ہو، جو نبض شناس اور نفسیات کا ماہر ہو،جو نسبی اولاد کی طرح روحانی اولاد کا بھی خیر خواہ ہو، سب سے اہم یہ کہ اس کے سینے میں ایسا دھڑکتا دل ہو جو رات و دن قوم کی امانت کے بنانے سنوارنے کے لئے بے چین رہتا ہو؛ یہ تربیت کے وہ بنیادی عناصر ہیں جو ہر ایک مدرس و مربی میں ہونا بےحد ضروری ہے تبھی بہتر نتائج برآمد ہوں گے؛ حضرت الاستاذ میں درج بالا خصوصیات کامل درجہ میں ہے، اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ بہترین مدرس کے ساتھ کامیاب مربی بھی ہیں اور اندازِ تربیت بھی اوروں سے مختلف و جداگانہ ہے اور مؤثر بھی، بارہا تجربہ کیا کہ ایک بات اور استاد نے کہی، کوئی اثر نہیں ہوا، آپ نے کہی اور طلبہ نے اس کو اپنا لیا۔
نفسیات کا علم
تربیت میں نفسیات کا بڑا دخل ہے، نفسیات سے واقفیت کے بغیر کوئی بھی مربی تربیت کے فرائض صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا ہے؛ یہ میری بات نہیں ہے بلکہ مسلم حکماء نے کہا ہے، اردو دائرہ معارف اسلامیہ (مطبوعہ دانش گاہِ پنجاب لاہور) جلد چودہ حصہ اول کے صفحہ نمبر ١٤٣ پر مسلم حکماء کے حوالے سے درج ہے “بہرحال نفس ان سب کا منبع ہے، نفس کے ان اعمال کو سمجھنا اور ان کی روشنی میں انسانی کردار کی تہذیب و ترتیب نفسیات کی غرض و غایت ہے، اب اس علم کو زندگی کے ہر شعبہ میں ممد و معاون سمجھا جاتا ہے”؛اسی کتاب میں صفحہ ١٥٥ پر مسلم حکیم ابن باجہ (متوفی ٥٣٢ھ /١١٣٨ء) کا یہ قول ہے کہ” سب علم اچھے ہیں لیکن ان میں سے بعض دوسروں پر شرف رکھتے ہیں، علم نفس سب علوم طبیعیات و تعالیمیہ پر شرف رکھتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر علم کو علم نفس کی ضرورت پڑتی ہے، اس علم سے واقف ہوئے بغیر ہم مبادی علوم سے باخبر نہیں ہوسکتے”۔
ان دونوں اقتباس کو بار بار پڑھئے اور اندازہ لگائیے کہ علم نفسیات کی تعلیم وتربیت کے باب میں کتنی اہمیت و ضرورت ہے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مدارس میں نفسیات کا موضوع اچھوتا ہے، نہ پڑھائی جاتی ہے اور نہ خود طلبہ میں اس کی طرف کوئی رغبت ہوتی ہے؛ نتیجتاً صفِ علماء میں نفسیات کے ماہرین ناپید ہیں بلکہ احقر اپنے اب تک کے تعلیمی و تدریسی تجربات کی بنیاد پر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ فضلاءِ مدارس (بشمول احقر) کی اکثریت علم نفسیات سے نابلد تو ہوتے ہی ہیں، تربیت کے دیگر بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ ہے کہ وہ تدریس و تدریب کا حق کما حقہ ادا نہیں کرپاتے ہیں؛ حضرت الاستاذ اس باب میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، تدریس کے باریک گوشوں سے آگاہی کے ساتھ نفسیات کے نازک شقوں کا بھی علم رکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ بہت قلیل عرصہ میں آپ تدریس وتدریب کے میدان میں ہم عصروں سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور یہ دعویٰ بے بنیاد یا استاد کی عقیدت میں بےجا مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔
طلبہ میں مقبولیت
٢٠٠٥ء میں جب آپ نے دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ چھوڑنے کا فیصلہ فرما لیا تو آپ کی سخت گیری اور تعلیم وتربیت میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتنے کے باوجود آپ کی محبت میں بہت سے طلبہ مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے، یہ آپ کی طلبہ سے محبت اور تعلیم وتربیت کے باب میں انفرادیت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟ کیوں کہ طالب علم خواہ پڑھے یا نہ پڑھے، قابل استاد کو ہی قبول کرتا اور محبوب رکھتا ہے اور اسی کی وجہ سے مدرسہ میں رکا رہتا ہے إلا ماشاء اللہ ۔
مدرسہ بدر الاسلام کی ذمہ داری
جب آپ بورڈ کے مدرسہ “بدرالاسلام بیگوسرائے” سے منسلک ہو گئے تو کہنے والوں نے کہا کہ اب “مفتی خالد حسین نیموی قاسمی کی صلاحیت چوپٹ ہو کر رہ جائے گی اور ایک گمنام شخصیت بن کر رہ جائیں گے”؛ کہنے والوں نے بہار بورڈ سے وابستہ ادارے کی صورت حال دیکھ غلط نہیں کہا تھا لیکن آپ نے اپنی قابلیت و صلاحیت کا جوہر یہاں بھی دکھایا؛ تعلیم و تربیت اور تدریس و تدریب کا ایسا نظام بنایا کہ بہت سے نظامیہ اداروں کی کارکردگی اس کے سامنے ماند پڑ گئی اور علاقہ میں مدرسہ تعلیم وتعلم میں نیک نام ہو گیا۔
صدر جمہوریہ ایوارڈ
آپ کی اسی غیر معمولی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے اساتذہ کے لیے حکومت ہند کا (تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کے لیے) سب سے بڑے انعام کے لئے آپ کے نام کی سفارش کی، حکومت ہند نے سفارش قبول کی اور سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ہاتھوں ٢٠١٤ء میں آپ کو اعزازی سند ملا؛ سرکاری سطح پر ایک عام مولوی کا اتنے بڑے ایوارڈ کے لیے انتخاب اس کی غیر معمولی کارکردگی اور غیر معمولی خدمات کی وجہ سے ہی ممکن ہے، ورنہ یہ نوکر شاہ کہاں کسی مولوی کو گھاس ڈالتے ہیں؟
آپ کی تعلیم وتربیت کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا راز یہ ہے کہ آپ تعلیم و تعلم سے محض پیشہ ورانہ تعلق نہیں رکھتے ہیں کہ ڈیوٹی نبھائی اور چل دیا بلکہ اسے مقصدِ زندگی بنا رکھا ہے اور ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کیسے نسلِ نو کی اسلامی نہج پر تربیت دے کر مستقبل کے لئے تیار کیا جائے؛ اس کے لئے آپ دوام حرکت میں رہتے ہیں اور تمام تر صلاحیت کا استعمال کرکے رات و دن اپنے مشن میں لگے رہتے ہیں، جس کا ثمرہ دنیا دیکھ رہی ہے۔
تدریس کے جدید اسلوب میں مہارت
گلوبلائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بدلتے حالات نے پڑھنے پڑھانے کے طریقوں میں جدت پیدا کردی ہے،ایک سے بڑھ کر ایک آلات تعلیم وجود میں آرہے ہیں؛ نیز طلبہ کے سوچ وفکر میں بھی بڑی تبدیلی رونما ہوئ ہے، طبیعت سہل پسندی کی طرف مائل ہے، پہلے کی طرح بار برداشت کرنے کا عادی نہیں رہی؛ ایسے میں تعلیم وتربیت کے پرانے دھرے ہی پر قناعت کر لینا کافی نہیں ہے، کامیاب مدرس ومربی بننے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ بدلتے حالات سے ہم آہنگ ہوں، جدید طرزِ تعلیم سے بخوبی آگاہ ہوں، سہل پسندی کے دور میں سہل انداز اختیار کرنا جانتے ہوں۔
حضرت الاستاذ اس باب میں بھی اوروں سے مختلف ہیں، آپ قدیم نافع اور جدید صالح کے سنگم ہیں، آپ قدیم طرزِ تعلیم وتربیت کے طور طریقوں سے واقفیت کے ساتھ جدید آلات تعلیم اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں اور ان کا مفید استعمال کرکے بہتیرے کام لینا جانتے ہیں،تدریس وتدریب میں تسہیل اور جدید طرز سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں؛ یہی چیز آپ کو عام میں خاص بناتی ہےاور آپ کی کارکردگی کو نمایاں کرتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امارت شرعیہ پٹنہ یا دیگر تنظیموں کی جانب سے جب کبھی تدریب المعلمين کی محفل سجائی جاتی ہے تو بحیثیت مربی آپ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور آپ اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتے ہیں؛ جدید وقدیم دونوں طرزِ تعلیم وتربیت سے استفادہ کرکے تدریس کو سہل کیسے بنایا جائے؟ آپ کا یہ خاص عنوان ہے اور اس پر آپ کی کئ تحریریں آ چکی ہیں جو پڑھنے پڑھانے والوں کو ضرور پڑھنا چاہئے۔
اختتام
الغرض حضرت الاستاذ مفتی خالد حسین نیموی قاسمی مد ظلہ العالی کامیاب مدرس کے ساتھ کامیاب مربی بھی ہیں، آپ کی تربیت نے ہم جیسے بہت سے بگڑوں کو بہت کچھ بنادیا، بہت سے نام کے طالب علم کو کام کا بنا دیا، تعلیم و تعلم کے بے شوقوں میں شوق پیدا کر دیا، بہت سے بے ذوقوں کو باذوق بنا دیا، بہت سے بے عملوں کو باعمل بنا دیا اور آپ کا یہ وہ تاریخی کارنامہ ہے جو آپ کے لیے دارین میں نیک نامی کا سبب بنے گا؛ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ حضرت الاستاذ کو یونہی ترقیات سے نوازتا رہے اور ہمیں آپ سے استفادہ کا خوب سے خوب موقع عنایت کرتا رہے، آمین یارب العالمین۔
https://alamir.in/moulan-haroonur-rasheed-nabgha-e-rozgaar-khateeb-the