آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی

:مسجد اخوند

 ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آزمائش اور صبر کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے،ہر دن نئ مصیبت اور نئ آزمائش ہے، صبح ایک درد، شام ایک درد؛ گزشتہ کل صبح ہوئی تو یہ خبر ملی کہ مسجد اخوند جی مہرولی نئ دہلی پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہے اور مکمل مسجد زمیں بوس کر دیا گیا ہے؛ اس مسجد میں بحر العلوم کے نام سے مدرسہ بھی قائم تھا، طلبہ اور اساتذہ کو پولیس نے تحویل میں لے کر علی الصباح یہ کارروائی کی؛ کہا جاتا ہے کہ یہ شمش الدین التمش کے زمانہ کی مسجد تھی، جسے تقریباً سات سو سال ہوگئے تھے؛ اس سے متصل چند مزارات ہیں، وہ بھی نشانے پر ہیں اور آج کل میں اسے بھی ڈھا دیا جائے گا؛ یہ کارروائی دہلی ڈیولیپمینٹ اتھارٹی نے انجام دیا ہے، جب کہ یہ ان ایک سو تئیس وقف جائداد میں سے ہے جس کا معاملہ کورٹ میں ہے۔

:گیانواپی مسجد

آج ایک اور درد انگیز خبر ملی کہ گیانواپی مسجد کے تہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی گئی ہے، یہ فیصلہ وہاں کی مقامی عدالت نے سنایا ہے؛ ابھی چند روز قبل محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کا سروے رپورٹ شائع کیا تھا، جس میں بے بنیاد مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور پھر آج مقامی عدالت کا پوجا کرنے کی اجازت کا فیصلہ آ گیا ؛یہ سب منظم طریقے پر ایک اور مسجد کو بابری مسجد کی طرح مندر میں بدلنے کا عندیہ دے رہا ہے، بابری مسجد کو مندر میں بدلنے میں پھر بھی ستر سال لگے لیکن گیانواپی مسجد کے سلسلے میں جس تیزی سے سب کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا اندیشہ(خدا کرے کہ یہ اندیشہ غلط ہو) ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ چند مہینوں میں انجام دینے کی تیاری ہے ۔

:مدارس اور قانون حق تعلیم

ایک اور مصیبت کی بھی داستان سن لیجئے؛ سوشل میڈیا ایپ واٹس اپ پر ایک آڈیو وائرل ہو رہا ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ محمد فاروق صاحب ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لکھنؤ بنچ اور مولانا زاہد رضا مرکزی کی گفتگو کا آڈیو ہے؛ گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ حقِ تعلیم ایکٹ کے تحت چھ سے چودہ سال تک کے مدارس میں پڑھنے والوں بچوں کو جو لازمی اسکولی تعلیم سے الگ رکھا گیا ہے، اسے لکھنؤ کورٹ میں میں چیلینج کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے ختم کیا جائے، دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس سے ان کو حقِ تعلیم سے محروم رکھنا لازم آتا ہے جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے ؛ترجیحی بنیاد پر روزانہ تین گھنٹے سماعت ہو رہی ہے،اپیل کرنے والوں کے دلائل پورے ہو گئے ہیں اور اب مدارس کی طرف سے وکلاء اپنی بات رکھیں گے؛ دورانِ سماعت جج کے تبصرے سے مدارس کو دئیے جانے والی سہولت کو کالعدم قرار دیئے جانے کی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

:خاتون کا درد

کل بروز منگل دریا گنج دہلی میں موجود آنکھ کے ہاسپٹل ڈاکٹر شراف میں تھا، میری ڈیڑھ سال کی بیٹی ہے، اس کی آنکھوں سے ہفتہ روز سے پانی آ رہا تھا، اسے دکھانا تھا؛ دکھا کر فارغ ہوئے تو دو بج رہے تھے اور بھوک کا احساس ہو رہا تھا، کینٹین گیا اور کھانے پینے کی چیزیں اور کافی لے کر ٹیبل پر آگیا؛ سامنے ایک خاتون بیٹھی تھی، اس نے پہلے پہل اہلیہ سے بات شروع کی اور جب اسے معلوم ہوا کہ میں عالم ہوں تو مجھ سے مخاطب ہوئی اور کربناک انداز میں کہنے لگی کہ “دیکھئے نا مہرولی میں میرے گھر کے پاس مسجد اور مزار کو صبح صبح شہید کر دیا گیا، ہم لوگ بہت پریشان ہیں، ہمارے شوہر ہر ماہ وہاں مدرسہ میں سالوں سے راشن دیتے تھے، اب کچھ ہوگا کیا؟آپ ہی بتائیں، امام صاحب سے پوچھا تو رونے لگے، کچھ بول نہ سکے”، خیر اسے تسلی دی اور وہاں سے بوجھل قدموں سے گھر آ گیا ۔

:مسلمانوں کے تئیں حکمراں کا رویہ

تقریباً دو مہینے سے دقف بورڈ کے أئمہ کے وظیفہ اور متنازع مساجد و مقابر کے سلسلے میں مرکزی و صوبائی حکومت کے متعدد وزراء اور حکومت کے افسران سے ملاقات ہوئی،ان سے ملاقات کا بہت تلخ تجربہ ہے؛ یقین مانیں کہ کوئی بھی پارٹی ہو یا اس کے وزراء، نوکر شاہ ہوں یا افسران آپ کے مسائل سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے،بس جھوٹے وعدے اور تسلی دے کر ٹرخانے کا کام کرتے ہیں؛ دل تو چاہ رہا ہے کہ نام بنام لکھوں کہ کن لوگوں نے سامنے کیا بات کی اور بعد میں کسی اور ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان کے ارادے کیا تھے؟ مگر لکھنا مناسب نہیں سمجھ رہا ہوں کہ کہیں کم از کم مل کر اپنی بات رکھنے کا ذریعہ نہ بند ہو جائے ۔

:عوام کی ذمہ داری

یہ تو حالات ہیں اور ان حالات میں ہم اگر ان سسٹمز پر بھروسہ کرکے یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے قومی اور ملی مسائل حل ہوں گے تو ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کو مزید اندھیرے میں ڈھیکیل رہے ہیں؛ اس لئے اب ہمیں اپنی پالیسی بدلنی ہوگی،عوام و خواص دونوں کو سوچنا ہوگا؛ عوام اپنی ملی قیادت پر اعتماد کرے اور اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہے کہ ہمارے اول صف کے قائدین جس وقت جس چیز کے لیے آواز دیں گے، ہم بلاچون و چرا پیش کردیں گے؛ نیز اس کی بھی اشد ضرورت ہے کہ وہ دین کی طرف صد فیصد لوٹیں، غفلت کی چادر اتار کر رب ذوالجلال کی رضامندی اور خوشامد میں لگ جائیں ، احکامات کو بجا لائیں اور منہیات سے بالکلیہ اجتناب کریں اور اپنی اولاد کو دینی ماحول میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے سسٹم میں لائیں ۔

:خواص کی ذمہ داری

خواص کے لئے یہ حالات عوام کے بنسبت زیادہ پریشان کن ہیں کیونکہ ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، آزادی کے بعد سے ہی ہم ملک کے عزت و وقار اور آپسی بھائی چارہ کو باقی رکھنے کے لئے بہت کچھ قربان کر چکے ہیں لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ پس خواص کو چاہیے کہ پرانی پالیسی میں تبدیلی لائیں، حکمت و مصلحت بجا ہے لیکن ایسی حکمت و مصلحت جو ایک ایک کر کے ہمارے مذہبی حقوق کو سلب کرے اور ہم تماشائی بنے بیٹھے رہیں، بزدلی ہے اور یہ ہمیں دن بدن مزید کمزور کردے گا؛ تدبیر و تدبر کے ساتھ نئ پالیسی وضع کیا جائے ، دفاعی مزاج سے اوپر اٹھ کر اقدامی پوزیشن اپنایا جائے ، جواب دینے کے بجائے سوال پوچھا جائے، سیاسی قیادت کھڑا کرنے کے لئے زمینی سطح پر بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔

اس گئے گذرےدور میں بھی ہمارے لوگ اپنی قیادت کی آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں، رات پانچ چھ نمازی عشاء کی نماز کے بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ امام صاحب! گیانواپی مسجد میں پوجا  کرنے کی اجازت مل گئی، اب ہم لوگ کیا کریں؟ سب کچھ نہ کچھ کہتے رہے اور میں سنتا رہا، ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ ہماری فلاں تنظیم اگر کہہ دے تو ہم لوگ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں اور ہم جیسے بہت ہیں؛ یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ عوام کی نگاہ ایسے حالات میں قیادت پر ہی اتھٹی ہے  کیونکہ ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور یہ ان پر اعتماد کی دلیل ہے؛ اب ہماری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا صحیح رخ طے کریں، محض مذمتی بیان اور صبر کی تلقین سے قیادت کا حق ادا نہیں ہوگا، میدان عمل میں آئیں ، ہم آپ کے ہم قدم ہوں گے اور آپ کے اشارے پر جان و مال سب کچھ نچھاور کردیں گے انشاء اللہ العزیز ؛سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

دیگر مضمون

https://alamir.in/sharam-tum-ko-magar-nahi-aati/

https://hamaritahzeeb.com/archives/466

4 thoughts on “آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »