اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست…قسطِ اول
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اویسی صاحب کی شخصیت
تقریباً ایک ماہ قبل میں نے “بہار کے مسلمان پرشانت کشور سے ہوشیار رہیں” کے عنوان سے ایک تحریر لکھی تھی، جس میں لکھا تھا کہ بہار کے آئندہ ودھان سبھا انتخاب میں مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر ووٹ کرنا چاہیے اور پرشانت کشور کے بہکاوے میں آ کر اپنے ووٹ کے بندر بانٹ سے بچنا چاہیے؛ اس پر کئی لوگوں نے کہا کہ جو کوئی مسلم قیادت کی بات کرتا ہے، آپ لوگ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور اگر پرشانت کشور بی جے پی ایجنٹ ہے تو پھر مجلس اور اویسی کو ہی ووٹ دیجئے، وہ تو مسلمان ہیں اور مسلم قیادت کی بات کرتے ہیں؛اس لئے سوچا کہ اویسی صاحب کی شخصیت اور سیاست پر اپنے نظریہ کا اظہار کر دینا چاہیے ۔
بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی شخصیت کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، آپ ہندوستان کی سیاسی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ہیں ،سیاست آپ کو خاندانی ورثے میں ملی ہے؛ تلنگانہ کے حیدرآباد حلقہ سے ایوان زیریں کے ممبر ہیں اور لگاتار پانچویں بار منتخب ہوئے ہیں؛آپ ایوان زیریں کے سب سے زیادہ متحرک و فعال رکن ہیں، پندرہویں لوک سبھا میں مجموعی بہترین کارکردگی کے لیے پارلیمنٹ رتن ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا؛آپ پارلیمنٹ میں ایک مضبوط مسلم آواز کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں،مسلم اور دلت کے مسائل پر کھل کر ایوان میں اور ایوان سے باہر آواز اٹھاتے ہیں اور حکومت کے نمائندوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ۔
بے باکی اور مذہبی شناخت
اسد صاحب انتہائی قابل، بیباک اور نڈر سیاست داں ہیں؛ کسی بھی مسلم مسائل پر صاف صاف اپنی رائے رکھتے ہیں، ملک بھر میں کہیں بھی مسلم مخالف کوئی واقعہ پیش آئے، اس کے خلاف پہلی آواز ان ہی کی طرف سے اٹھتی ہے؛ ایوان میں یا ایوان سے باہر جب کبھی مسلمانوں کے حقوق دبانے یا چھیننے کی کوشش ہوتی ہے، وہ اس کے خلاف دیوار اسکندری بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں؛ یاد کیجئے! جب طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بن رہا تھا تو اس مرد مجاہد نے بل پر بحث کے دوران ایمانی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے بھرے ایوان میں طلاق بل کی کاپیاں پھاڑ دی تھی، اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر آپ کی بہادری و دلیری کا نمونہ اہل وطن نے دیکھا ہے ۔
سیاست کے ساتھ آپ اپنی مذہبی شناخت میں بھی نمایاں ہیں، عموماً مسلم سیاست داں فعال سیاست میں اپنی مذہبی پہچان کو درکنار رکھتے ہیں لیکن اویسی صاحب ہمیشہ اسلامی تہذیب کے لبادہ میں ملبوس ایک مذہبی نمائندہ کے طور پر بھی نظر آتے ہیں؛ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کفر و الحاد کے بیچ بھی اپنے ایمان کے اظہار اور اس کی پیروی میں بالکل جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں، شرک کے مظاہر اور اس کے سایہ سے بھی اپنے آپ کو پاک رکھتے ہیں؛ اٹھارہویں لوک سبھا کے حلفیہ تقریب میں حلف اٹھانے کے بعد نعرۂ تکبیر بلند کرکے خدائی عظمت کا اظہار آپ کے اسی ایمانی حرارت کی دلیل ہے؛ان کی یہی ادا نوجوانوں اور اسلام پسندوں کو بہت بھاتی ہے اور وہ انہیں ایک پکا سچا مسلم سیاسی رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
ایمانی و روحانی قوت
ستمبر ٢٠٢٣ء کی بات ہے، پارلیمنٹ کا سیشن چل رہا تھا، اس سیشن میں خواتین ریزرویشن بل پاس ہوا؛ اس بل میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں تینتیس فیصد نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کرنے کی بات کی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ یہ مجوزہ قانون اگلی مردم شماری کی اشاعت کے بعد یعنی ٢٠٢٩ء میں نافذ ہوگا؛ اس ایکٹ میں ایس سی اورایس ٹی کی خواتین کو تو شامل کیا گیا لیکن او بی سی اور مسلم خواتین کو نظر انداز کیا گیا تھا؛ اس بل پر چرچہ کے دوران اسد الدین اویسی نے دو مانگیں رکھتے ہوئے اسپیکر اوم برلا سے اس پر بحث کی اپیل کی تھی، ایک یہ کہ خواتین ریزرویشن بل ٢٠٢٤ء ہی سے لاگو کیا جائے اور او بی سی و مسلم خواتین کو بھی شامل کیا جائے ۔
بل کے کسی بھی شق سے متعلق بحث کے مطالبہ پر ممبران کی صوتی رائے لی جاتی ہے، اگر اکثر ممبران کی رائے بحث کے حق میں ہو تو بحث ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی ہے؛ چنانچہ اسد صاحب کے مطالبہ پر اسپیکر نے ممبران کی رائے لی تو صرف ایک رائے امتیاز جلیل کی بحث کے حق میں آئی، باقی نے انکار کر دیا؛ اس پر اسپیکر نےا ستہزاء کے انداز میں ہنستے ہوئے کہا کہ اسد صاحب! آپ کے حق میں تو ایک ہی رائے آئی؛ جواب میں اسد صاحب کھڑے ہوئے اور بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا :”کوئی بات نہیں! اللہ ہے نا ہمارے ساتھ “، یہ جملہ دو بار کہا اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے؛ کفر و شرک کے پرستاروں کے درمیان نغمۂ توحید کے متوالے کا یہ اندازِ بیباکانہ اور نعرۂ مستانہ اس کے ایمانی پختگی کی دلیل اور رب العالمین پر بے پناہ توکل کا ثبوت ہے ۔
امتیازی خصوصیات
یہ اسد صاحب کی وہ خصوصیات ہیں، جو انہیں دیگر مسلم سیاسی قائدین سے ممتاز بناتی ہے اور عوام و خواص میں مقبولیت عطاء کرتی ہے؛ اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپ کی سحر انگیز شخصیت، علمی قابلیت،قانونی واقفیت، قائدانہ صلاحیت،زبان و بیان پر قدرت، غیر معمولی جرأت و ہمت اور بے باکانہ انداز کے قائل ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ سیاست کے ہر اسٹیج اور ہر محفل کی آپ زینت ہوتے ہیں اور ملکی سیاست کے ہر عنوان پر بڑے بڑے میڈیا والے آپ کے تبصرے کے لیے آگے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں؛ اللہ اس مرد مجاہد کی عمر لمبی کرے اور ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔
…جاری
https://alamir.in/imam-aur-awaam/