یومِ اساتذہ پر اساتذۂ مدارس کی اشک شوئی کا عہد کیجئے
یومِ اساتذہ پر اساتذۂ مدارس کی اشک شوئی کا عہد کیجئے

یومِ اساتذہ پر اساتذۂ مدارس کی اشک شوئی کا عہد کیجئے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

یومِ اساتذہ

٥؍ستمبر کو بھارت میں اور ٥؍اکتوبر کو پوری دنیا میں یومِ اساتذہ منایا جاتا ہے، بھارت میں یہ دن دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی پیدائش کی مناسبت سے منایا جاتا ہے؛ رادھا کرشنن جی تعلیم و تعلم سے دلچسپی رکھنے والے انسان تھے اور کئی علوم و فنون کے ماہر تھے؛ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزارا اور ملک و بیرون ملک تدریسی خدمات انجام دی، ان کی تعلیمی خدمات کی بنیاد پر انہیں” بھارت رتنا “ایوارڈ سے نوازا گیا تھا؛ جب وہ بھارت کے صدر بنے تو ان کے شاگردوں نے ان سے ان کی یومِ پیدائش منانے کی خواہش ظاہر کی، جس پر انہوں نے جواب دیا :”میری یومِ پیدائش منانے کے بجائے اگر ٥؍ستمبر کو یومِ اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی“، اسی وجہ کر بھارت میں یہ دن یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے؛(دی اکنامکس ٹائمس ٥؍ستمبر ٢٠١٧ء)۔

یومِ اساتذہ پر پورے ملک میں اساتذہ کے اعزاز و اکرام میں محفل منعقد کیا جاتا ہے، ان کی عظمت کے ترانے گائے جاتے ہیں؛ شاگردوں اور عزیزوں کی طرف سے تحائف دے کر عزت افزائی کی جاتی ہے، مرکزی و صوبائی حکومت بھی درس و تدریس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کو سرکاری اعزاز سے نوازتی ہے؛ ان محافل کے انعقاد اور اعزازات سے نوازنے کا مقصد نسلِ نو میں اساتذہ کی قدر و منزلت کو بڑھانا ہے اور قوم و ملت کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت میں ان کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے؛ یہ ایک مستحسن قدم ہے، اسے کرنا چاہیے اور اساتذۂ کرام اس کے مستحق بھی ہیں، کیونکہ انہیں کے شب و روز کی عرق ریزی سے نئی پیڑھی انسانیت کے قالب میں ڈھل کر انسان کی خدمت کے لائق بنتے ہیں۔

اساتذۂ مدارس کی بد حالی

ہمارے ملک میں مختلف قسم کے ادارے ہیں، سرکاری و غير سرکاری اور ان میں مدرسہ و اسکول دونوں شامل ہیں؛ جو اساتذہ سرکاری اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، خواہ مدرسہ ہو یا اسکول، وہ معاشی اعتبار سے خوش حال ہوتے ہیں اور جو غیر سرکاری اسکول میں ہیں، وہ بھی قدرے غنیمت ہیں کیونکہ وہ اسکول کے علاوہ اوقات میں دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنی ضرورت بآسانی پوری کر لیتے ہیں؛ لیکن جو اساتذہ غیر سرکاری مدارس یعنی پرائیویٹ (نظامیہ) میں ہیں، ان میں سے اکثریت کی معاشی حالت دگرگوں ہے؛ امت کا یہ کِرِیم طبقہ، جس کی شبانہ روز کد و کاوش اور آہِ سحرگاہی کی وجہ سے علومِ نبویہ کی شمعیں روشن ہیں، معاش کی طرف سے غیر مطمئن رہتا ہے اور اپنی روز مرہ کی بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لئے پریشان رہتا ہے۔

حالیہ دنوں کا ایک واقعہ سنئے! ایک جید عالم دین، فاضلِ دارالعلوم دیوبند اس حقیر کے پاس آئے؛ چہرہ اترا ہوا، طبیعت بجھی بجھی، ذہن کھویا کھویا اور نگاہیں سوچ و غم میں ڈوبی ہوئی، ایک ادارہ میں تقریباً دس سال سے مدرس ہیں؛ جوان، محنتی، قابل، صالح، علیا درجہ کے استاد ہیں اور حدیث و تفسیر کی کتابیں پڑھاتے ہیں؛ مدرسہ کی طرف سے درسیات کے علاوہ خارجی جو بھی ذمہ داری دی جاتی ہے، بأحسن و اکمل پورا کرتے ہیں؛ دورانِ گفتگو گھریلو حالات کا ذکر کرتے رہے اور مجھ سے حل پوچھتے رہے؛ دارالعلوم میں تھے، تبھی والد کا انتقال ہو گیا تھا، اکیلا کمانے والے ہیں؛ تین چھوٹے بھائی بہن، والدہ و دادی اور خود کے دو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ہے۔

دو بہن شادی شدہ ہے، ان میں سے ایک کی شادی انہوں نے زمین بیچ کر اور قرضہ لے کر کی اور دوسری کی شادی والد مرحوم نے اپنے حیات میں ہی کی تھی؛ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ بڑی بہن کا شوہر بیمار ہے، ان کے علاج اور پانچ بھانجہ بھانجی سمیت بہن بہنوئی کا خرچہ ان کے سر آن پڑا ہے؛ یہ جس کرب کے ساتھ حالات بیان کر رہے تھے اور دل پر جو بیت رہا تھا، وہ بیان سے باہر ہے؛ میں انہیں صحیح سے تسلی بھی نہیں دے پا رہا تھا، کسی طرح دھارس بندھایا اور حوصلہ دلایا؛ جس مدرسہ میں وہ پڑھاتے ہیں، وہ مالی اعتبار سے بہت مضبوط ادارہ ہے لیکن مدارس میں تنخواہ کے تعلق سے جو تنگ نظری ہے، اس کا اثر ذمہ دار پر ہے اور تنخواہ کے علاوہ تعاون کا تصور ہی نہیں ہے۔

ذمہ داران کی باز پرس

دل کو بڑا ٹھیس پہنچتا ہے اس طرح کے واقعات سن کر کہ جن اساتذہ کی وجہ سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہیں اور جو علوم اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کا مقدس فریضہ ادا کرتے ہیں، ان کی بےکسی پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے؛ حیرت ہوتی ہے کہ جس مدارس کی چہار دیواری کے اندر علماء کے فضائل و مناقب کی آیات و احادیث پڑھی جاتی ہیں، وہیں ان کے تقدس کی پامالی مختلف صورتوں میں کی جاتی ہے؛ یہ اساتذہ دین کی محبت میں تمام تر تکالیف کے باوجود تعلیم و تعلم سے اپنا رشتہ جوڑے رکھتے ہیں اور اپنی مدارس چمٹے رہتے ہیں لیکن کیا ذمہ دار کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے ماتحت کا خیال رکھے؟ اور کیا اس میں کسی قسم کی کوتاہی پر آخرت میں ان سے باز پرس نہ ہوگی؟ ہوگی اور یقیناً ہوگی، پھر اس وقت رب العالمين کے سامنے کوئی حیل و حجت کام نہ آئے گا۔

مدارس کے ذمہ داران سے جب اساتذہ کی سہولیات اور ان کے لئے معیاری تنخواہ کی بات کیجئے تو فوراً کم آمدنی کا بہانہ کرتے ہیں اور اپنی ضرورت بلکہ شاہ خرچی کے وقت نہ آمدنی کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی مدرسہ کا بجٹ بگڑتا ہے؛ اصل بات ارادہ نیک نہیں ہوتا ہے ورنہ جس رب قدیر پر ہم ایمان رکھتے ہیں، اس کا نظام یہ ہے کہ ماتحتوں پر جس قدر خرچ کیا جائے گا، وہ اسی قدر آمدنی میں اضافہ فرمائے گا؛ ہمارے اکابرین کے اس سلسلے میں بہیترے تجربات ہیں، حال کے بزرگ مفتی رفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر و شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ”جب بھی میں نے اپنے اساتذہ کے لئے کسی قسم کی سہولت کا ارادہ کیا تو غیب سے اللہ نے نظم فرما دیا اور آمدنی میں اضافہ ہو گیا“۔

اساتذہ کی ضرورت کا خیال

اساتذہ کے اعزازیہ کے سلسلے میں مدارس کے فرسودہ نظام ہی کی وجہ سے زیادہ تر کام کے افراد اپنا رخ بدل لیتے ہیں اور دینی علوم پڑھنے پڑھانے کے بجائے دوسری مشغولیت اختیار کر لیتے ہیں، یہ قوم کا بہت بڑا خسارہ ہے؛ ایسے میں جو کام کے افراد زمانہ کی روش سے ہٹ کر اور مادیت سے صرفِ نظر کرکے درس و تدریس میں لگے ہوئے ہیں، بسا غنیمت ہے؛ مدارس کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ ان کی قدر کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے بقدرِ کفاف وظیفہ دیں ؛ عمارت اور ٹیپ ٹاپ پر کم خرچ کریں،لیکن اساتذہ کو معیاری سہولت فراہم کریں، ان کے علاج و معالجہ کے لئے فنڈ مختص کریں؛ اس کے علاوہ ہنگامی ضرورت مثلاً زیرِ پرورش بہن بیٹی یا گھر کی تعمیر وغیرہ کے وقت ان کے تعاون کا نظام بنائیں۔

صحیح معنوں میں ہم اگر اساتذہ کے قدر داں ہیں تو آئیے! آج یومِ اساتذہ پر عہد کیجئے کہ بحیثیت ذمہ دار ہم ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھیں گے، ہم انہیں عام ملازمین کے بجائے وارثین انبیاء سمجھیں گے اور اسی جیسا برتاؤ کریں گے؛ان کی عظمت و خدمت کی وجہ سے دل میں جگہ دیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، جس سے ان کی حیثیتِ عرفی کو ٹھیس پہنچے؛ حضرت الاستاذ مولانا اعجاز اعظمی نور اللہ مرقدہ کی کتاب” مدارس اسلامیہ مشورے اور گزارشیں “سے ایک اقتباس نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں۔

حضرت الاستاذ کی تحریر:”اربابِ انتظام کی ذمہ داری یہ ہے کہ ادارہ سے وابستہ کارکنان اور مالیات دونوں میں بہت حزم و احتیاط کو پیش نظر رکھیں؛ مدرسہ میں اساتذہ عموماً علماء ہوتے ہیں، علماء کا ایک خاص مقام ہوتا ہے، یہ علماء جو مدارس میں پڑھاتے ہیں، ارباب انتظام کے لحاظ سے ان کی دو نسبتیں ہوتی ہیں؛ ایک یہ کہ یہ حضرات عالم دین ہیں اور اس حیثیت سے یہ بہت زیادہ قابل تکریم و تعظیم ہیں، اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ یہ اپنی خدمات کا دنیوی معاوضہ بصورت تنخواہ ارباب انتظام سے حاصل کرتے ہیں؛ اس طرح ایک حیثیت ملازمت کی ہو جاتی ہے، اور اس حیثیت سے گویا یہ حضرات ارباب انتظام کے دست نگر ہوتے ہیں، اور ان کے سامنے اپنی خدمات کے سلسلے میں جواب دہ ہوتے ہیں؛ اپنی حاجات و ضروریات کے سلسلے میں انھیں بسا اوقات درخواستیں ارباب انتظام کے سامنے پیش کرنی پڑتی ہیں، یہاں ارباب انتظام سے اکثر چوک ہو جاتی ہے؛ ان کے سامنے ان علماء کرام کی دوسری یعنی ملازمت والی حیثیت زیادہ نمایاں رہتی ہے اور اسی تقاضے کے مطابق زیادہ عمل کرنے میں لگ جاتے ہیں، یہ ایک غلطی ہے؛ اس کے نتیجے میں اہل انتظام اور اساتذہ کے درمیان دوری ہونے لگتی ہے؛ پس اہل انتظام اساتذہ کے بارے میں ان کے علم و فضل کا لحاظ رکھیں اور ان کے ساتھ عظمت و احترام کا وہی معاملہ رکھیں جو شرعاً مطلوب ہے“، (صفحہ نمبر ٢٦-٢٧)۔

 

https://alamir.in/asaduddin-owaisi-ki-shakhsiyat-aur-siyasat/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »