اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست...آخری قسط
اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست...آخری قسط

اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست…آخری قسط

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

اویسی پر الزام

اسد الدین اویسی ایک قد آور مسلم لیڈر ہیں، آپ کے دل میں قوم و ملت کا درد ہے، مسلم مسائل پر ایوان کے اندر اور باہر بےخوف آواز اٹھاتے ہیں؛ آپ مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی میدان میں صف اول میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہتے ہیں؛ اس سلسلے میں وہ بہت جذباتی ہیں، فائدہ و نقصان سے بالا ہو کر کام کرتے ہیں، جو ان کی ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کا ثبوت ہے؛ ان کے اسی عمل کی بنیاد پر اپنے بھی انہیں بی جے پی کا ایجنٹ کہہ دیتے ہیں، جو سراسر الزام اور بہتان تراشی ہے، ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور ان سے دنیا میں ہی معافی تلافی کرا لینا چاہیے؛ ہاں! آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں، ان کے طریقۂ سیاست سے عدمِ موافقت کر سکتے ہیں مگر اس طرح کے بے بنیاد الزام لگانے کا کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔

آمدم برسرِ مطلب

اب آئیے! اصل مدعا پر کہ ملک میں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر کسی قسم کی زیادتی ہوتی ہے اور سیکولر جماعت اور ان کے نمائندے جو مسلم ووٹوں کی بنیاد پر جیتتے ہیں، مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے ہیں یا بہت پھُسپھُسی آواز اٹھاتے ہیں تو ایسے وقت میں مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سے زور و شور سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مجلس اور اویسی صاحب کا کھل کر سپورٹ کیا جائے اور خواہ وہ جیتیں یا ہاریں، ان کے نمائندوں کو ووٹ دینا چاہیے؛ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ مسلم مفادات کی بات کرتے ہیں ، مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی ہر محاذ پر لڑتے ہیں ، مسلم قیادت کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں؛ مزید کہا جاتا ہے کہ کب تک ہم دوسروں کو لیڈر بناتے رہیں گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ اپنوں کو لیڈر بنائیں اور اپنی قیادت کھڑی کریں۔

مسلم قیادت

اپنی قیادت اور اپنے لوگوں کو لیڈر بنانے کا مطالبہ بالکل درست ہے، میں اس سے اتفاق رکھتا ہوں لیکن اس کے لئے ہمیں حکمت و مصلحت سے کام لیتے ہوئے زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہےاور خاموشی کے ساتھ اپنوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے؛جذباتی ہو کر اور شور و غوغا کرکے مسلم قیادت کی بات کرنے سے مسلم نمائندگی بڑھنے سے تو رہی، الٹے دشمن متحد ہوگا اور ہم مزید نقصان اٹھائیں گے اور یہی ہوتا آ رہا ہے ؛ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام مجلس اور اویسی صاحب بخوبی کر سکتے ہیں اگر مسلمان متحدہ طور پر ان کا ساتھ دیں، تو یہ خواب ہے؛ اس کے کئی وجوہات ہیں اور ہمیں ان وجوہات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واقعی اگر ہم مسلم قیادت کے تئیں سنجیدہ ہیں تو زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کریں؛ وجوہات کی نشاندہی اور اس کے حل پر غور و فکر کی دعوت کے ارادہ سے چند باتیں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

پہلی وجہ

پہلی بات اویسی صاحب کی پارٹی کا نام اور نشان ہے، نام اور نشان دونوں ایسا رکھنا چاہیے جو کسی ایک مذہب کی نمائندگی کے بجائے عمومی نمائندگی کی علامت ہو، خواہ آپ کا وِژن اور مقصد کسی ایک کمیونٹی کی ہی نمائندگی کرنا کیوں نہ ہو؛ انہیں اس صورت میں مزید اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ان کی پارٹی کے ساتھ ماضی میں ہندو اور ملک مخالف ہونے کا لیبل لگا ہوا ہے جیسا کہ میں نے اس سے پہلی والی قسط میں اس کا پس منظر بیان کیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست پارٹی ان کی پارٹی کے نام اور ماضی کے داغ کا سہارا لے کر سیاست میں تقسیم اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کا الزام لگاتے ہیں، جس سے سیکولر مزاج کے برادران وطن اورپسماندہ طبقات بھی ان کے ساتھ آنے سے ہچکچاتے ہیں؛ یاد رکھیں کہ بھارت جیسے ملک میں آپ سیکولر اور پسماندہ لوگوں کو ساتھ لئے بغیر کبھی بھی اپنی قیادت کھڑی نہیں کر سکتے ہیں، آزادی کے پچھتر سالوں میں بارہا اس کا تجربہ کیا گیا اور ناکامی ہاتھ لگی؛ نام و نشان کی وجہ سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ تلنگانہ کے علاوہ ریاستوں میں علاقائی سیکولر پارٹی بھی ہم سے چاہ کر اتحاد نہیں کر پاتے ہیں، کیونکہ انہیں یہ ڈر لگتا ہے کہ اس سے اتحاد کی وجہ سے فرقہ پرست جماعت اسے بھی ہندو مخالف پیش کر کے اس کے اس کے کور ووٹ کو خراب کر دیں گے اور ایسا ہو بھی رہا ہے کہ کوئی بھی شخص یا جماعت مسلم حمایت میں بولتا ہے تو ہندو مخالف بتا دیتے ہیں۔

دوسری وجہ

دوسری وجہ تنظیمی ڈھانچہ کی کمی ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی میں اس کے زمینی ورکر کا رول ہوتا ہے، اویسی صاحب اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں؛ انتخاب کا وقت آتا ہے، اویسی صاحب طوفانی دورہ شروع کرتے ہیں، بڑے بڑے جلسے کرتے ہیں اور ان جلسوں میں لوگ ان کی جذباتی بیان سننے کے لئے بھیڑ لگا دیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب میدان مار لیں گے، ایسے سیاست نہیں ہوتا ہے؛ کسی بھی سیاسی جماعت کو زمین پر اتارنے کے لئے پہلے تو وارڈ لیبل پر نمائندہ بنائیے، ان کے ذریعہ ممبر سازی کیجئے، بلاک لیبل پر مہینہ دو مہینہ پر میٹنگ کرکے رائے لیجئے کہ اس علاقے کے لوگ کیا سوچتے ہیں اور ان کے مطابق باہمی مشورہ سے روڈ میپ تیار کیجئے؛ پانچ سال تک مرکزی اور صوبائی نمائندوں کے ذریعے ان کو جگاتے رہئے، جو گھر گھر جا کر لوگوں کو کنونس کریں اور جب انتخاب آئے تو انہیں پابند بنائیں کہ ووٹر کو بوتھ تک لے جا کر ووٹ ڈلوائیں، پھر دیکھیں کہ جلسہ کی بھیڑ ووٹ میں کیسے بدلتی ہے۔

تیسری وجہ

تیسری وجہ نمائندوں کے انتخاب میں کمی ہے، جس کا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا ہے، اسے بھی بڑی ذمہ داری دیدیتے ہیں اور یہ کس بنیاد پر دیتے ہیں، نہیں معلوم لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ پارٹی کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا دیتے ہیں؛ اس کی مثال فی الحال دہلی کے پارٹی صدر شعیب جامعی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جامعی صاحب بہت پڑھے لکھے اور قابل ہیں لیکن عملاً سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا؛ اس کے علاوہ مذہبی قائدین کی طرف سے منع کرنے کے باوجود ٹی وی ڈبیٹ میں جا کر مسلمانوں کی جگ ہنسائی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے ناراض رہتے ہیں، ایسے میں وہ پارٹی کا اعتماد عوام میں کیسے بحال کر پائیں گے؛ اسی طرح انتخاب میں امیدواروں کو کھڑا کرنے میں کہیں نہ کہیں چوک کرتے ہیں،عموماً ایسے لوگوں کو امیدوار بناتے ہیں، جس کی کوئی سیاسی پکڑ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی عوامی مفاد میں اس کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ ہوتا ہے، ایسے نمائندہ کا جیتنا تو دور ضمانت بچانا مشکل ہے ؛ اچھا جو مسلم سیاسی قائدین کسی دوسری پارٹی میں ہیں، وہ چاہ کر بھی ان کے طرزِ سیاست کی وجہ سے ان سے جڑ نہیں پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی میں ایک دو کے علاوہ کوئی منجھا ہوا سیاسی لیڈر نہیں ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ عام مسلمان ان پر اس کمزوری کی وجہ سے اعتماد نہیں کرتا ہے، پس اس پر بھی انہیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

چوتھی وجہ

چوتھی وجہ یہ ہے کہ ان کی سیاست جذباتی نعروں اور مذہبی تقریروں کے ارد گرد گھومتی ہے، آپ مسلم قیادت کی بات کرتے ہیں، سیاسی نمائندگی بڑھانے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے لئے آپ کے پاس کوئی لانگ ٹرم پلان نہیں ہے؛ بھارت جیسے ملک میں جہاں ہم ٢٠١١ء کی مردم شماری کے مطابق محض ١٤.٢ فیصد ہیں، مسلمانوں کی سیاسی ترقی کیا صرف باتوں سے ہو جائے گی؟ اس ملک میں سیاست مذہب اور برادری کے ارد گرد گھومتی ہے، عوامی فلاح و بہبود کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے، آپ مذہبی اعتبار سے بھی اقلیت میں ہیں اور عددی اعتبار سے بھی؛ ایسے میں بڑے سوجھ بوجھ اور حکمت و مصلحت کے ساتھ لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،ایسی منصوبہ بندی جس میں اپنے پرائے سب کو شامل کیا جائے، بالخصوص سماج کے محروم طبقات اور ہم مزاج برادران وطن کو ساتھ لیا جائے ؛ اویسی صاحب کے پاس مسلم قیادت میں اضافہ کے لئے کوئی واقعی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اکابر بھی ان کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں اور جب تک ان کی حمایت حاصل نہیں ہوگی، خود مسلمانوں میں بھی انہیں اعتماد حاصل نہیں ہوگا چہ جائے کہ غیروں میں۔

منصوبہ بندی 

یاد رکھیں کہ کسی بھی مسئلہ کا پائدار حل جامع منصوبہ بندی میں ہے، لیکن افسوس ہماری سیاست ہمیشہ سیاسی سوجھ بوجھ سے پرے، جذبات سے لبریز رہی ہے، جس کا آغاز تو دھواں دھار مگر انجام ٹائیں ٹائیں فش اور جذباتیت پر مبنی کسی بھی تحریک کا انجام یہی ہوتا ہے؛ اچھا جب جذبات کی ہانڈی چڑھی سیاست ناکام ہو جاتی ہے تو ایسے قائدین اور ان کے جوشیلے حامیین اپنی ناکامی کا لزام ان افراد کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچ پرکھ کر مفاہمت کا مشورہ دیتے ہیں؛ جذباتی سیاست سے مسلمانوں کو فائدہ کم، دوسروں کو زیادہ ہوتا ہے، ہم متحد ہوں یا نہ ہوں، برادران وطن متحد ہو گئے اور ان کے مقابلہ میں آپ کا اپنا اتحاد بھی برادران وطن کو شامل کئے بغیر سیاسی فائدہ نہیں دے گا؛ عجم سے عرب تک کی سیاست کا بالمشاہدہ تجربہ رکھنے والی شخصیت حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ نے اس پر کتنی بلیغ بات فرمائ، آپ بھی پڑھئیے اور سنجیدگی سے غور فرمائیے۔

علی میاں رحمہ اللہ

آپ نے فرمایا :” آج کی صورت حال خاص طور پر جن ملکوں میں مسلمان عددی اقلیت میں ہیں اور ماضی میں وہ حکومت واقتدار کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، دوسرے اسلامی ممالک سے مختلف اور زیادہ نازک ہے؛ یہاں ان کی تاریخ (ایک علمی اور سیاسی سازش کے تحت) اس طرح مرتب اور پیش کی گئی ہے کہ وہ اکثریت میں بغض و نفرت اور انتقامی جذبہ پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے؛ پھر بعض اوقات ان ملکوں کی سیاسی قیادتوں یا وقتی پیش آمدہ مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی و نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور جماعتوں نے غیر معتدل جذباتیت، نا عاقبت اندیشی اور نام و نمود حاصل کرنے کے شوق میں ہنگامہ خیزی سے کام لینے کی غلطی کی؛ وہاں مسلمان شدید مذہبی منافرت و تعصب، تہذیبی و ثقافتی محاذ آرائی کا شکار ہوئے؛ پھر نصابِ تعلیم، صحافت اور ابلاغِ عامہ کے ذریعہ مسلمانوں کی آئندہ نسل کو اولاً تہذیبی و ثقافتی ارتداد کا شکار بنانے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے؛ یہ حالات یقیناً نہ صرف ایمانی و مذہبی غیرت اور پختہ دینی شعور رکھنے والوں کے لئے بلکہ حالات پر بھی نظر رکھنے والے عام مسلمان کے لئے بھی جو گر دو پیش کے حالات کو دیکھتا، اخبارات پڑھتا اور خبر میں سنتا ہے سخت تشویش انگیز ہیں؛ وہ کبھی مایوسی اور بعض اوقات حالات کے سامنے سپر انداز ہو جانے پر بھی آمادہ کرتے ہیں“(خطبات علی میاں جلد دوم، صفحہ نمبر ٢٨٥)۔

اس جہاں دیدہ شخص کی بات کو بار بار پڑھئیے اور غور کیجئے کہ کیا موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں جذباتی سیاست سے امت کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان؟ اس لئے میں اویسی صاحب کے اخلاص اور جذبۂ دروں کی قدر کرتے ہوئے ان کے طرزِ سیاست سے اختلاف کرتا ہوں، آپ کو میری رائے سے اختلاف کا مکمل حق ہے۔

أللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

https://alamir.in/daaiyana-e-islam-ke-khilaf-zalimaana-faisla/

One thought on “اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست…آخری قسط”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »