مدرسۃ البنات کے ذمہ داران سے دردمندانہ اپیل
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
طالبات کی ویڈیو
اکثر مدرسۃ البنات کے ذمہ داران اپنے مدرسہ کا یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں، جس میں تعلیم و تعلم، انتظام و انصرام اور پروگرام کی ویڈیو بنا کر ڈالتے رہتے ہیں؛ ان میں بسا اوقات طالبات کی تلاوت، نعت اور نظم و ترانہ کی بھی ویڈیو ہوتی ہیں؛ ان ویڈیوز میں کبھی طالبہ مردوں کے جم غفیر میں اپنی آواز کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں اور کبھی درس گاہ میں، زیادہ تر ویڈیوز میں یہ طالبات بالغہ ہوتی ہیں جیسا کہ مکمل پردہ سے اندازہ ہوتا ہے؛ ایک تو یوٹیوب پر ڈال کر اس کو مشتہر کیا ہی جاتا ہے، بعض ذمہ داران اس سے آگے بڑھ کر جرأت کرتے ہیں کہ مستقل ان ویڈیوز کے لنک واٹس اپ کے ایسے گروپ میں بھیجتے رہتے ہیں، جہاں صرف مرد ہی مرد ہیں بلکہ عموماً علماء ہیں؛ظاہر ہے اس کا مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ مدرسہ متعارف ہو جائے اور ان کے ادارہ کی طرف زیادہ سے زیادہ طالبات اور ان کے گارجین کا رجوع ہو۔
مدرسۃ البنات
اول تو ہمارے اکابر بہت سارے مفاسد کی وجہ سے مدرسۃ البنات ہی کو پسند نہیں کرتے تھے اور یہ مفاسد ہر صاحب بصیرت کی نگاہ میں ہیں؛ استاد محترم حضرت مولانا اعجاز اعظمی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:”عورتوں کے یہ مدارس در حقیقت اللہ ورسول کی نافرمانی کو عام کرنے کےذرائع ہیں،ان سے اسلامی احکام ٹوٹتے ہیں، اگر مدارس نسواں ایسے ہی ضروری ہوتے تو عورتوں کی تعلیم تو قرون اولی میں بھی ضروری تھی؛ ہمارے اسلاف جس طرح سے مردوں کے مدارس قائم کرتے اور چلاتے تھے، عورتوں کے لئے بھی مدارس قائم کرتے، لیکن یہ بات سرے سے ان کےذہن میں نہ آئی اور ایسا نہیں تھا کہ بے خبری سے انھوں نے اس کو نہ سوچا ہو، یا اس وقت کے حالات میں مدارس نسواں کی ضرورت نہ رہی ہو؛ جب عورتوں کی تعلیم ضروری ہے، تو بہر حال اس کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے تو اگر مردوں کے لئے مدر سے ہو سکتے تھے تو عورتوں کے لئے کیوں نہیں ہو سکتے تھے، مگر انھوں نےاسے سوچا بھی نہیں، ہندوستان میں ہم آزادی سے پہلے دینی مدارس نسواں کا کوئی تصورنہیں پاتے، تو اتنے دنوں تک علماء اتنے بڑے فریضہ سے کیوں غافل رہے؟ بات یہ ہے کہ ان کے سامنے قرآن کی آیات تھیں، جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں مستقل جمی رہیں، باہر نہ نکلیں استثنائی صورتیں علیحدہ ہیں“(مدارس اسلامیہ مشورے اور گزارشیں،صفحہ ١٥٣)۔
آج جو مفاسد اور اس کے اسباب ہیں، اس وقت تو تھے بھی نہیں، جب بھی ہمارے بزرگوں کی دور بیں نگاہ ان مفاسد کو دیکھ رہی تھیں اور وہ مدرسۃ البنات کے بالکل بھی قائل نہیں تھے؛ اگر آج ان مفاسد کو دیکھ لیتے تو ان کا رویہ اس کے کتنا سخت خلاف ہوتا، ہم آپ بہتر اندازہ کر سکتے ہیں؛ خیر اس کے باوجود مدرسۃ البنات کا قیام تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے قائم کرنے والے بیشتر علماء ہیں تو ان کی ذمہ داری تھی کہ کم سے کم مفاسد کو جگہ دیں اور زیادہ سے زیادہ اسلامی احکام کا پاس و لحاظ کریں لیکن افسوس کہ ہم مفاسد پر قدغن لگانے کے بجائے اسے فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں؛ جلسوں میں مردوں کے درمیان بالغ طالبات کی تلاوت و نعت کا فساد تو ہے ہی، اب یہ ویڈیو بنا بنا کر یوٹیوب پر ڈالنا اور اس کا لنک مردوں کے واٹس اپ گروپ میں ڈالنا عام ہوتا جا رہا ہے اور نہ اسے برا سمجھا جا رہا ہے اور نہ اس پر روک لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
عورتوں کی آواز
عورتوں کی آواز کا اگرچہ پردہ نہیں ہے مگر بلاضرورت مردوں سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے اور ضرورت پڑنے پر بات میں لچک یا ترنم پیدا کرنے کی سخت ممانعت ہے؛ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے زیادہ پاکباز و پاک طینت خواتین کون ہو سکتی ہیں؟ مگر قرآن نے انہیں بھی اجنبی سے گفتگو میں نرمی کے بجائے سختی کا حکم دیا ہے، چہ جائے کہ عام خواتین کے لئے گنجائش ہو، ارشاد ربانی ہے :”اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو “(سورہ احزاب ،آیت نمبر ٣٢)؛ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ: ”اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہئے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہئے؛ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنّم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گانا کتنا برا ہوگا“۔
فتاویٰ شامی(اردو جلد دوم صفحہ ١٣١) میں ہے”ہم اجنبی عورتوں سے کلام اور گفتگو حاجت کے وقت جائز قرار دیتے ہیں اور ہم ان کےلئے ان کی آواز کو بلند کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور ہم نہ اس کی تمطیط،تلیین اور تقطیع کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس میں مردوں کا ان کی طرف مائل ہونا ہے اور مردوں کی شہوت کو ابھارنا ہے، اس وجہ سے عورت کا اذان دینا جائز نہیں ہے“؛ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے ایک شخص نے مسئلہ دریافت کیا :” میں نے اپنے گھر میں عرصہ سے تجوید بقد راحتیاج سیکھائ ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ باقاعدہ پڑھنے لگی ہیں، جن لوگوں کو اس امر کی اطلاع ہے وہ کبھی آن کر یوں کہتے ہیں کہ ہم سننا چاہتے ہیں، اور ہیں معتمد لوگ تو پردہ میں سے سنوا د ینا جائز ہے یا نہیں، اگر چہ ایسا کبھی کیا نہیں، بعد علم جیسا ہو گا ویسا کروں گا “؛ جواب میں آپ نے فرمایا :” ہرگز نہیں! لانه اسماع صوت المرأة بلا ضرورة شرعية “(امداد الفتاوی جلد چہارم، صفحہ نمبر ٢٠٠)۔
بے حیائی کا فروغ
دارالعلوم دیوبند جو ہمارا علمی مرکز ہے، اس کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ کسی بھی اچھے سے اچھے غرض کے لیے بھی عورتوں کی آواز ترنم و تغنی کے ساتھ مردوں کے لئے سننا جائز نہیں ہے، فتویٰ ملاحظہ ہو:”عورتوں کے لئے باتصویر یوٹیوب چینل بنانا مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اس میں جاندار کی تصویر کشی کا گناہ پایا جاتا ہے، اور نامحرم مردوں تک آواز کا پہونچانا بھی پایا جاتا ہے، اس لئے اس سے احتراز چاہئے، عورتوں کو اپنے مقام پر رہ کر حدود شرع کا خیال کرتے ہوئے بیان و نصیحت کا کام کرنا چاہئے“؛ یقیناً یہ فتاوے آپ کے بھی علم میں ہوں گے، میں نے محض بطورِ یاددہانی کے ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس غیر شرعی عمل کو مسلسل انجام دینا، سمجھ سے بالا تر ہے؛ کیا ہمارا یہ عمل فحش اور بے حیائی کو فروغ دینا نہیں ہے؟ جس کے بارے میں قرآن کریم میں وعید ِ شدید ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔
تربیت فرضِ عین ہے
ہم علماء ہیں اور ہماری ذمہ داری تعلیم کے ساتھ تربیت کی بھی ہے، جب ہم خود ان طالبات کے سامنے غیر شرعی عمل کریں گے بلکہ ان سے غیر شرعی عمل کروائیں گے تو ہم ان کی کیا تربیت کر پائیں گے؟ اور ان کے دلوں میں محرمات کی نفرت کیسے راسخ کر پائیں گے؟ تعلیم فرض کفایہ ہے لیکن تربیت فرض عین ہے، ہمیں تعلیم سے زیادہ تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”ایک کو تا ہی یہ ہے کہ بعض لوگ تعلیم کو تو سب کے لئے ضروری سمجھتے ہیں مگر تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے؛ حالانکہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی اہم ہے، تعلیم درسی سے تو من کل الوجوہ (ہر اعتبار سے) اور مطلق تعلیم سے من وجہٍ( بعض وجوہ سے)؛ تعلیم درسی سے تو اس لئے کہ وہ فرض عین نہیں، بہت سے صحابہؓ علوم درسیہ سے خالی تھے مگر ان پر کبھی اس کو لازم نہیں کیا گیا، اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرض عین ہے ، اور مطلق تعلیم سے اس لئے کہ مقصود تعلیم سے تربیت ہی ہوتی ہے کیونکہ تعلیم، علم دینا ہے اور تربیت، عمل کرانا اور علم سے مقصود عمل ہی ہے اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے“(اصلاحِ انقلاب امت، جلد دوم، صفحہ نمبر ١٩٦)۔
اس لئے ان معروضات کی روشنی میں مدرسۃ البنات کے ذمہ داران کی خدمت میں بصد احترام عرض ہے کہ آپ اس پر توجہ دیں، اپنے اس عمل پر نظر ثانی کریں اور فوری طور پر اس عملِ قبیح اور فعلِ شنیع کو ترک فرما دیں؛ بعض ذمہ دار سے میں نے اس سلسلے میں پرسنل بات کی مگر انہوں نے بجائے ترک کرنے کے اپنے اس عمل کی توجیہ کرنے لگے، ان کی اس توجیہ سے بہت افسوس ہوا؛ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ”عذرِ گناہ بد تر از گناہ“ہے اور اللہ رب العزت کے دربار میں کسی قسم کی کوئی توجیہ اور حیل و حجت کام نہیں آئے گا۔
https://alamir.in/asaduddin-owaisi-ki-shakhsiyat-aur-siyasat-aakhri-qist/