قیادت پر اعتماد کیجئے
قیادت پر اعتماد کیجئے

قیادت پر اعتماد کیجئے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

قیادت کو کوسنا

بھارت میں مسلمانوں کو ذہنی و فکری غلام بنانے کی سازشیں زوروں پر ہے، اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی فرقہ پرست جماعتیں اس میں پیش پیش ہے؛ ان فرقہ پرستوں کو مرکز سے صوبہ تک ہم خیال حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے بلکہ خود یہ حکومتیں بھی قانونی طور پر مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوششوں میں برابر مصروف ہے؛ یہ صورت حال عام و خاص تمام مسلمان کے لیے پریشان کن ہے اور ہر ایک اس کے سدِ باب کے لئے فکر مند ہے مگر اپنوں میں سے کچھ لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ جب کہیں مسلمان پر کوئی افتاد آتی ہے، وہ اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش کے بجائے قیادت کو کوسنے لگتے ہیں؛ انہیں ناکارہ و نااہل، بزدل و ڈرپوک، حالات سے ناواقف، عملی کوشش سے فرار اختیار کرنے والا ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور ان کی تحریر و تقریر کے نشتر کا رخ دشمن کی طرف کم اور قائدین کی طرف زیادہ ہوتا ہے، یہ انتہائی ناشائستہ حرکت اور غیر مہذب عمل ہے۔

جمہوریت میں حقوق کا حصول

جمہوری ملک میں جمہوریت کی راہ چل کر ہی اپنے حقوق حاصل کئے جاتے ہیں، جمہوری راہوں میں ایک راہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رائے عامہ اپنے حق میں کیا جائے اور اس کے سہارے اپنی بات منوائ جائے؛ دوسرا راستہ یہ ہے کہ قانون کا سہارا لیا جائے، عدالت کے دروازے پر دستک دی جائے اور اس کے ذریعے اپنا مدعا حاصل کیا جائے؛ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جب متذکرہ دونوں صورت ناکام ہو جائے تو سڑکوں پر نکل کر امنِ عامہ کا خیال رکھتے ہوئے احتجاج کیا جائے اور اپنی متحدہ طاقت و قوت کا مظاہرہ کیا جائے، یہاں تک کہ ایوانِ حکومت کے شہ نشیں ہماری بات ماننے پر مجبور ہو جائے؛ تیسری صورت پر خطر ہے کیونکہ کبھی کوئی شر پسند مظاہرہ کا حصہ ہو کر غیر قانونی حرکت کرتا ہے، جس سے ایک تو مظاہرہ بے اثر ہو جاتا ہے اور دوسرے قانون کے رکھوالوں کو اسی بہانے زیادتی کا موقع مل جاتا ہے اور اگر سامنے مسلمان ہو تو یہی قانون کے رکھوالے لاقانونیت پر اتر آتے ہیں اور بڑی تعداد میں جان و مال کا خسارہ اٹھانا پڑتا ہے؛ اچھا اس صورت میں بھی کامیابی یقینی نہیں ہے جیسا کہ ماضی کے مشاہدات ہیں، تاآنکہ آر پار کا ارادہ نہ کر لیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ ارادہ کسی طور درست نہیں ہے نہ امت کے حق میں اور نہ ملک کے حق میں؛ چند لوگ ہر معاملہ میں اسی تیسری صورت کو اپنانے کا جذباتی مشورہ دیتے ہیں اور اس سلسلے میں عدم موافقت پر قائدین کو لعن طعن کا نشانہ بنانے لگتے ہیں۔

اسلام اور مسلمان کے خلاف تشدد

اس ملک میں گزشتہ چند سالوں سے شعائر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عوامی اور حکومتی سطح پر تشدد میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اور انہیں بغیر کسی جرم کے مجرم بنا کر ان کے اور ان کے گھر والوں کے جان و مال اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کا جو غیر قانونی سلسلہ چل پڑا ہے، یہ سب عیاں ہے؛ ایسے میں ہمارا کوئی بھی غیر دانشمندانہ قدم ہماری قوم کو کس بڑے خسارے میں ڈال سکتا ہے؟ اس کا ہم آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں؛ ان حالات میں ہمارے قائدین کے کندھوں پر دوہری ذمہ داری ہے کہ شعائر اسلام کے تحفظ کا سامان بھی کرے اور مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ان کے مذہبی و تہذیبی آزادی کے چھیننے کی کوششوں کو بھی ناکام بنائے؛ چنانچہ حکمت و مصلحت کا تقاضہ ہے کہ ان خطوط پر چلا جائے جس سے جان و مال بھی محفوظ رہے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے بقاء کا بھی سامان ہو، نرے جذبات میں آکر کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائےجس سے دونوں کا نقصان ہو یا ایک کا نقصان ہو؛ ہاں! جب حالات اس قدر دگرگوں ہو جائے کہ ایک کی قربانی پر دوسرے کا وجود منحصر ہو، تب یقیناً اہم کو ترجیح دی جائے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صورت ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے۔

وقف املاک ترمیمی بل اور احتجاج

وقف املاک ترمیمی بل کے خلاف بھی کچھ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سڑکوں پر نکلنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور بطورِ دلیل کسان کی مثال دیتے ہیں کہ دیکھئے! کسان، کسان بل کے خلاف نکلے، سال بھر مظاہرہ کیا اور سات سو سے زائد کی شہادت دے کر کسان بل واپس کروایا؛ مگر یہ بات ہم بھول جاتے ہیں کہ کسان کا معاملہ نہ کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کا تھا اور نہ کسی ایک برادری کا تھا بلکہ ہرمذہب و برادری کے لوگوں کا تھا؛ چلئے مان لیں کہ اس کے باوجود ہمیں اپنے حقوق کے لئے نکل جانا چاہیے لیکن کیا اگر ہم کسان کی طرح سخت مظاہرہ کریں گے تو ہمارے ساتھ بھی وہی رویہ ہوگا؟ جو کسانوں کے ساتھ ہوا، ہرگز نہیں! کسان کو تو محض دہلی آنے سے روکا گیا، کوئی لاٹھی چارج نہیں، نہ کوئی گرفتاری جبکہ کسانوں نے لال قلعہ تک پر خالصتانی جھنڈا لہرا دیا تھا؛ ہمارے ساتھ جو زیادتی ہوگی اور جان و مال کا جو نقصان ہوگا، اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے؛ میں ڈرا نہیں رہا ہوں اور نہ بزدلی کا سبق پڑھا رہا ہوں، محض یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہمیں کسی بھی اقدام سے قبل ہر پہلو پر نگاہ رکھنا چاہیے اور ہوش و حواس میں رہ کر مشورہ دینا چاہیے۔

قائدین کی نظر

قائدین کی نظر ان تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے، انہیں جہاں امت کے ایمان و اسلام کی فکر ہوتی ہے، وہیں ان کے جان و مال کی بھی فکر رہتی ہے؛ چنانچہ اسلام اور مسلمان کے خلاف کسی بھی معاملہ میں وہ پہلے پہل ان راہوں پر چل کر معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں جو آسان ہو اور یہی سنت بھی ہے کہ جب خود کو مشکل میں ڈالے بغیر کام بن جائے تو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہئے؛ پس ہمیں اپنے قائدین پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ دین و ایمان کی حفاظت اور امت کے فلاح و بہبود کے لئے مخلص ہیں، جب انہیں لگے گا کہ اب پرامن راہوں پر چل کر مسائل حل نہیں ہوں گے اور پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے تو وہ ہر وہ راہ اپنانے سے گریز نہیں کریں گے، جس کی ضرورت پڑے گی؛ بزدلی اور فرار کی راہ اپنا کر وہ اپنے آباؤ اجداد کی روحوں کو شرمندہ نہیں کریں گے، نہ ہی امت کے نیا کو بیچ منجدھار میں ڈوبنے کے لئے بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے؛ جیسا کہ وقف املاک ترمیمی بل کے تعلق سے قائدین نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر ان جاری کوششوں کے باوجود حکومت بل واپس نہیں لیتی ہے تو ہم بڑے پیمانے پر منظم مظاہرہ کریں گے اور حکومت کو بل واپس لینے پر مجبور کریں گے۔

مخلصانہ درخواست

اس لئے میں اپنے ان تمام احباب کی خدمت میں بصد احترام عرض کروں گا جو بات بات پر قائدین پر زبانِ لعن و طعن دراز کرتے ہیں اور انہیں نااہل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہ آپ خود ان سے بدگمان ہوئیے اور نہ اپنی تحریروں و تقریروں کے ذریعہ عوام و خواص کے ذہن میں بدگمانی پیدا کیجئے؛ ہماری ان حرکتوں سے جہاں ہمارے اپنے لوگوں کا قائدین پر بھروسہ متزلزل ہوتا ہے، وہیں دشمنوں کو بھی مذاق اڑانے کا موقع فراہم ہوتا ہے؛ یاد رکھیں کہ قائد آسمان سے نہیں نازل ہوگا ، ہمارے آپ کے بیچ کا ہی کوئی ہوگا اور جو بھی ہوگا، جمہوریت کی لعنت کی وجہ سے اس کے پاس بہت ہی محدود وسائل ہوں گے اور وہ انہیں محدود وسائل کا صحیح استعمال کرکے حالات کا رخ موڑنے کی کوشش کرے گا، ان کے پاس مافوق الفطرت کوئی چیز نہیں ہوگی کہ پل بھر میں حالات بدل کر رکھ دے گا۔

 

https://alamir.in/madrasatul-banaat-ke-zimmedaraan-se-dard-mandaana-apeel/

One thought on “قیادت پر اعتماد کیجئے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »