اہانتِ رسول ﷺ اور ہمارا غیر معتدل رویہ
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اعتدال خیرِ امت کی وجہ
امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کی وجوہات میں بڑی وجہ”امت وسط“ہونا ہے، وسط سے مراد اعتدال ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو افراط وتفریط سے پاک ایسا جامع و مانع اصول عطاء کیا ہے، جو ہر زمانے اور ہر خطے کے لوگوں کے فطری مزاج و مذاق کے عین موافق ہے اور جس پر چلنا بھی آسان ہے؛ مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ (٢٥؍جنوری ١٨٩٧ء – ٦؍اکتوبر ١٩٧٦ء)نے سورہ أعراف آیت نمبر ١٨١ کے ذیل میں امت محمدیہ کے اعتدال کی صفت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا”اس میں امت محمد یہ کے اعتدالِ روحانی واخلاقی کو واضح فرمایا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو چھوڑ کر آسمانی ہدایت کے مطابق خود بھی چلتے ہیں، اور دوسروں کو بھی چلانے کی کوشش کرتے ہیں؛ اور کسی معاملہ میں نزاع و اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ بھی اسی بے لاگ آسمانی قانون کے ذریعہ کرتے ہیں، جس میں کسی قوم یا شخص کے ناجائز مفاد کا کوئی خطرہ نہیں“۔(معارف القرآن جلد اول)
وصفِ اعتدال اس امت کے لیے امتیازی شان ہے اور اسے امت کے ہر فرد کو ہر معاملہ میں بالخصوص علماء کرام کو پیش نظر رکھ کر اپنی عملی زندگی کو برتنا چاہیے اور اپنے کسی بھی موقف کے اظہار و بیان میں ان حدود و قیود کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے لیکن اب ہم سب اسلام کے اس سنہرے اصول سے کوسوں دور ہو چکے ہیں؛ اسلام اور مسلمان سے متعلق دنیا بھر میں جب کوئی معاملہ رونما ہوتا ہے تو ہم میں سے اکثر دو خیمے میں بٹ جاتے ہیں، ایک افراط کا شکار ہو کر اپنی رائے رکھتا ہے اور دوسرا تفریط میں پڑ کر اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے، گنتی کے چند لوگ ہوتے ہیں جو اعتدال کی باریک پگڈنڈی پر چلتے ہیں؛ حالیہ دنوں میں گستاخئ رسول ﷺ کے دو واقعات پیش آئے، ایک دانستہ طور پر شانِ نبوت میں گستاخی کی گئی اور یہ کرنے والا ہمارے ہی ملک کا ایک بدبخت ہے؛ دوسرا پڑوسی ملک کے مفتی طارق مسعود صاحب سے دورانِ بیان اپنا موقف رکھتے ہوئے غیر ارادتاً گستاخی کے الفاظ نکل گئے، ان دونوں معاملہ میں چند لوگوں نے اعتدال سے ہٹ کر خوب ہڑبونگ مچا رکھی ہے۔
قائدین کے خلاف ہفوات
مہاراشٹر کے رام گری مہاراج نامی بدبخت نے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی، اس کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی گئی، ملی قائدین اور عام مسلمانوں میں سے ہر ایک نے حکومت سے اس پر کارروائی کا مطالبہ کیا، مختلف تھانوں میں ایف آئی آر کیا گیا، ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا اور ایک روز قبل امتیاز جلیل سابق ممبر پارلیمنٹ نے لاکھوں اہلِ ایمان اور محبتِ رسول ﷺ کے دیوانوں کے ساتھ اورنگ آباد سے ریلی لے کر ممبئی تک احتجاج کیا لیکن ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے؛ مہاراشٹر میں آئندہ چند ماہ میں انتخاب ہے اور موجودہ حکومت اسے گرفتار کرکے اکثریتی طبقہ کے لوگوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتی ہے، ویسے بھی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شنڈے فسطائی پارٹی کے تعاون سے ہی وزیر اعلیٰ ہیں، اس لئے ان سے ایسے دریدہ دہن کو گرفتار کرنے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے اس دریدہ دہن کے خلاف تمام قانونی اقدامات کے باوجود کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اپنوں میں کچھ لوگ اس کا قصوروار اپنے لوگوں کو ہی قرار دے رہے ہیں، بالخصوص ملی تنظیموں کے سربراہان کو اور ان کے خلاف ہفوات بک رہے ہیں؛ حالانکہ ایسے ملک میں جہاں مسلمان مغلوب ہو، وہاں اس طرح کے واقعات کے سلسلے میں اسلامی احکام بالکل واضح ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرکے اللہ پر معاملہ چھوڑ دے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے گستاخی کرنے والوں کے بارے میں قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے ماحصل لکھا کہ”پس جو کوئی مومنین میں سے کسی ایسی سرزمین میں ہو جہاں وہ کمزور ہو یا اس حالت میں ہو کہ اسے طاقت و قوت حاصل نہ ہو تو اسے چاہیے کہ صبر اور درگزر کی ان آیات پر عمل کرے جن میں اہلِ کتاب اور مشرکین کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نسبت سے تکلیف دہ بات کہی گئی ہو“۔(الصارم المسلول علی شاتم الرسول ﷺ صفحہ نمبر ٢٢٦)
اس ملک میں مسلمان جس حالت میں ہے، کیا اس کے لئے اپنی وسعت کے بقدر قدم اٹھانے کے بعد اس سے آگے کے اقدام کی کوئی گنجائش رہتی ہے؟ بالکل نہیں! اس کے باوجود گستاخانہ معاملہ میں بار بار اکسانا اور بزدل و بے غیرت کا طعنہ دینا؛ اپنے آپ کو رسول ﷺ کے عشق و محبت میں مر مٹنے والا اور دوسروں کو عشقِ رسول ﷺ میں ناقص قرار دینا، کہاں کی عقل مندی ہے؟ اور اگر خدانخواستہ کسی نے اس اکساوے پر غیر قانونی قدم اٹھا لیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ جیسا کہ ماضی میں یہ ہو چکا ہے اور ہمیں بار بار صفائی دینی پڑی تھی؛ کچھ لوگ اس سلسلے میں سارے حدود پھلانگ گئے اور پتہ نہیں علماء و قائدین کے بارے میں کیا سے کیا لکھ گئے، یہ ایک انتہائی غیر مہذب عمل ہے اور شریعت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے؛ اس لئے ایسے لوگوں کو اپنی تحریر میں اعتدال باقی رکھنا چاہیے، کسی بھی معاملہ کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ نظر رکھ کر اپنی بات رکھنی چاہئے اور کسی کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق پر انگلی اٹھانے سے قبل ہزار بار سوچنا چاہئے۔
مفتی طارق مسعود صاحب کا معاملہ
اب آئیے! مفتی طارق مسعود صاحب کے معاملہ پر، آپ پڑوس ملک کے مشہور عالم دین اور مفتی ہیں، درس و تدریس کے ساتھ امام و خطیب بھی ہیں؛ ملک اور بیرون ملک دعوتی و اصلاحی سفر کرتے رہتے ہیں، مفتی صاحب ابھی کناڈا کے سفر پر ہیں اور وہیں دورانِ تقریر ان سے غیر ارادتاً گستاخی کے چند الفاظ نکل گئے، مخلصین کے توجہ دلانے پر انہوں نے توبہ کر لی، مسلمانوں سے معافی مانگ لی اور بیان سے رجوع کر لیا؛ مفتی صاحب کے بعض خیالات پر اکابر علماء کو تحفظات ہیں اور انہیں اس پر متنبہ کرتے رہتے ہیں لیکن بہر حال آپ ایک متصلب حنفی دیوبندی اور قابل و مقبول عالم ہیں؛ ان سے غیر ارادی طور پر ایک سخت عمل ہوا، اولاً اس پر کوئی قانونی و شرعی گرفت نہیں ہے بلکہ خود احساس کرکے اللہ کے حضور توبہ کر لینا کافی ہے؛ دیکھئے دارالعلوم دیوبند کا یہ فتویٰ:”جس شخص کی زبان سے غلطی سے کوئی غلط بات قرآن کریم کے بارے میں نکل جائے تو اسے چاہیے کہ خود اللہ کے حضور سچےدل سے توبہ کرے ، اور قرآن کریم کے بعض حصے کی تلاوت اپنا معمول بنالے، اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی“۔(نقل از دارالعلوم دیوبند ویب سائٹ)
مان لیا جائے کہ دانستہ طور پر بھی کوئی اگر اس طرح کی گستاخی کر لے اور پکی سچی توبہ کر لے، تب بھی وہ قابلِ معاف ہے؛ دارالعلوم دیوبند کا یہ فتویٰ پڑھیں:” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا اگرصدق دل سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوجائے گی“؛ (منقول از دارالعلوم دیوبند ویب سائٹ) لیکن ان سب کے باوجود کچھ لوگ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں، ان کے سابقہ تمام خدمات کو یکسر نظر انداز کرکے رات و دن منہ بھر بھر کے انہیں کوس رہے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا بک رہے ہیں، اس میں ہمارے ملک اور پڑوس ملک دونوں جگہ کے لوگ ملوث ہیں اور دونوں طرف کے اپنے و دیگر مسلک کے بعضے علماء بھی شامل ہیں؛ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شہرت و مقبولیت سے حسد میں مبتلا تھے اور موقع کی تلاش میں تھے، موقع ملتے ہی لٹھ لے کر ان پر ٹوٹ پڑے؛ اب صورت حال یہ ہے کہ ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور ان کے خیر خواہ حضرات ان کی حفاظت کو لے کر بہت فکر مند ہیں، اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔
مزاج میں اعتدال پیدا کیجئے
توہین رسالت مآب ﷺ کا واقعہ ہو یا قرآن کی قطعیت پر سوال، دونوں بڑا حساس اور سنگین معاملہ ہے، اس کی حساسیت اور شدت کا کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا ہے اور اس کو کسی بھی صورت کسی سے ہو، ہرگز برداشت نہیں کر سکتا ہے؛ لیکن بعضے اس کی آڑ میں اپنے مفادات کی خاطر حد اعتدال سے بڑھ کر جو غیر شرعی رویہ اپنایا ہوا ہے، وہ کسی طور مناسب نہیں ہے، انہیں اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہیے اور اسے بدلنے کی فکر کرنی چاہئے؛ ہم سب اسلامی احکام کے پابند ہیں، ہمیں اپنے مزاج میں اعتدال پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے اور زندگی کے ہر موڑ پر ہر مسئلہ میں اپنا دامن اس سے وابستہ رکھنا چاہیے، اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیقِ رفیق عنایت فرمائے۔