طوفان الأقصى: اہلِ غزہ کو سلام
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
فلسطین انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے، یہاں کے چپے چپے پر ان قدسی ہستیوں کے مقدسات و نشانات ہیں، یہاں کے ذرہ ذرہ میں ان کی خوشبو رچی بسی ہے؛قرآن کریم نے اس خطے کے بابرکت ہونے کی گواہی دی، مسجد اقصٰی کے میناروں سے نکلنے والی صدائے توحید یہاں گونجتی ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں نبیوں کی امامت کی اور پھر یہیں سے رب کائنات سے راز و نیاز کے لئے جبرئیل علیہ السلام کی معیت میں عرشِ الہی کی طرف پا بہ رکاب ہوئے اور اسی جگہ رب کائنات کا دربارِ عدل و انصاف قائم ہوگا؛ یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے امت محمدیہ کے ہر دھڑکتے دل میں یہاں کی محبت جاگزیں ہے، ہر صاحبِ ایمان اس زمین کی خاک پر جبینِ نیاز خم کرنے کی تمنا رکھتا ہے اور عقیدت و محبت کے دامن میں وہاں کی سعادتیں سمیٹنے کی آرزو رکھتا ہے۔
مگر افسوس یہ پاک سرزمین سالوں سے ناپاک یہودیوں کے پنجۂ ظلم و ستم میں جکڑا ہوا تھا، یہود نے یہاں کے اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا اور عالم اسلام اپنی خر مستیوں میں مگن تھا؛ البتہ یہاں کے جیالوں نے اس سر زمین سے اپنی وابستگی کا حق بھولے نہیں تھے، تمام بےسرو سامانی کے باوجود قبلہ اول کی حفاظت و حریت کے لئے دل و جاں لٹائے ہوئے تھے اور اول دن سے اپنی قربانیوں سے نئی تاریخ رقم کر رہے تھے؛ یہاں کا ہر ذرہ، ہر گلی، ہر بستی گواہ ہے ان عظیم قربانیوں کا جو یہ قوم اپنی آزادی، عزت و بقا کی خاطر دی ہے اور آج تک دے رہے ہیں؛ یہ وہ سرزمین ہے، جہاں کے باشندوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے جھکنے کے بجائے ہمیشہ سربلندی کو فوقیت دی، غلامی میں جینے کے بجائے آزادی میں مرنے کو ترجیح دی اور دنیا کے سامنے جد و جہد کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔
پھر وہ دن آیا کہ آزادی کی لو نے شعلہ کا روپ لیا، ایمانی حرارت نے انگڑائی لی اور غزہ کے دیوانوں نے قدس پر فدا کاری کا وہ نظارہ پیش کیا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئ؛ چنانچہ گزشہ سال آج ہی کے دن اقصٰی کے محافظین قید و بند کی تمام زنجیریں توڑ کر تڑکے صبح ایک دم سے دشمن پر ٹوٹ پڑے، جنہیں اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا، پل بھر میں طاقت کا بھرم خاک میں ملا دیا، جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے، ان کا غرور پارہ پارہ کر دیا؛ دنیا نے دیکھا کہ سالوں سے کھلے جیلوں میں رہنے والے غزہ کے جانباز ایمانی قوت سے دشمن پر ایسا قہر بن کر ٹوٹے کہ آج تک مغرور طاقتوں کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے؛ مجاہدین نے ثابت کردیا کہ جنگیں افرادی قوت اور جنگی آلات سے نہیں، حوصلوں سے لڑی جاتی ہے، میدان کارزار میں جذبۂ شہادت کام آتا ہے نہ کہ جینے کی للک۔
بوکھلاہٹ میں ظالم نے عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، بم و میزائل کی برسات کردی، زمینی و فضائی حملوں سے غزہ کو تہس نہس کر دیا؛ بیتے ایک سال میں اہلِ غزہ نے جو کچھ سہا، دیکھا اور کھویا، تاریخ انسانی میں ایسی مثال نہیں ملتی ہے؛ غزہ کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو کھویا، باپوں نے اپنے سائے بکھرتے دیکھے، بوڑھوں نے سہارے کھوئے، بچوں نے اپنی معصومیت گولیوں اور بمباری کے شور میں گم کر دی، جوانوں نے چیخ و پکار اور آہ و بکا کے دلدوز مناظر میں جوانی ختم کر دی؛ دوکان و مکان، مدارس و مساجد، اسکول و ہسپتال ملبے کے ڈھیروں میں بدل گئے؛ مگر اس کے بعد بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے، آج بھی مسجد اقصٰی کی آزادی کا عزم جواں ہے، محاذ آرائی جاری ہے اور جاں نثاری کا وہی جذبہ شعلہ زن ہے۔
اہل غزہ کی لڑائی محض جغرافیائی یا سرحدی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ انسانیت کی بقا کی وہ جدوجہد ہے جو انصاف، حریت اور حقوق کی پاسداری کے لیے لڑی جا رہی ہے؛ انہوں نے ظلم، جبر، بمباری اور گھیراؤ کے باوجود اپنے مقصد اور وژن کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا؛ یہاں کے لوگوں نے بار بار اپنے شہیدوں کے خون سے آزادی کے چراغ روشن کیے اور اس بات کو ثابت کیا کہ طاقت کے بل بوتے پر ایک قوم کی روح کو شکست نہیں دی جا سکتی ہے؛ اہل غزہ کی قربانی ایک ایسا چراغ ہے جو دنیا کو یہ سکھاتا ہے کہ آزادی کی قیمت کبھی آسان نہیں ہوتی، لیکن یہ قربانی انسانیت کو جگا دیتی ہے اور انہیں ان کے حق کے لیے لڑنے کا درس دیتی ہے، مجاہدوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ ظلم و جبر کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ اپنے حق کی آواز کو بلند رکھنا ہی اصل مقصدِ زندگی ہے۔
مجاہدین کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ظلم کبھی بھی دلوں سے آزادی کی چاہت کو نہیں مٹا سکتا ہے، غزہ کے لوگوں نے اپنے جسموں کو گولیوں اور بموں کا نشانہ بننے دیا، لیکن اپنے دلوں میں ہمیشہ آزادی کا چراغ روشن رکھا؛ مجاہدین نہ صرف زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے لڑے بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ مثال قائم کی کہ حق کے لیے کھڑے ہونے کا جذبہ اور رب کی رضا جوئی میں فدا ہونے کا شوق ایسا جذبہ و شوق ہے، جو کسی طاقت سے نہیں دبایا جا سکتا ہے؛ یہ قربانی، یہ ایثار، یہ جدوجہد اُس عظیم مقصد یعنی مسجد اقصٰی اور شہرِ قدس کے لیے ہے جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی متاع ہے؛ یہ قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی اصل طاقت اس کا ایمان، اس کی ثابت قدمی اور حق کے لیے جدوجہد کا وہ عزم ہے جو کبھی شکست نہیں کھاتا ہے، کاش یہ جذبہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں بھی پیدا ہو جائے۔
طوفان الأقصى کے متوالوں کو ہم بے بضاعتوں کا سلام، جس نے امت کی لاج رکھ لی اور القدس کی آزادی کا فریضہ امت کی طرف سے ادا کر رہے ہیں؛ غزہ کی عظیم ماؤں کو سلام جس نے اپنے کوکھ سے ایسے جیالے جنم دیئے، جن کی نعرۂ حریت اور شوقِ شہادت دشمن کے لئے پیغامِ موت ہے؛ غزہ کے ان معصوم کلیوں کی معصومیت کو سلام جس نے آگ و خوں کے بیچ جواں ہو کر انبیاء کی سرزمین پر فدا ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں؛ غزہ کی ان باکردار بہنوں کو سلام، جو اپنے کمزور کندھوں پر ماں اور بہن ہونے کا کردار ادا کر رہی ہیں؛ غزہ کے ان بوڑھوں کو سلام، جو اپنے جوان بیٹے کی شہادت پر آنسو بہانے کے بجائے شکرانے کے جذبے سے سرشار ہیں؛ غزہ کے ایک ایک فرد کو سلام، جس نے امت کو ایمان کی معنویت اور اسلام کی روحانیت سکھلا دی؛ امت کے ہر فرد کی طرف سے اے اہلِ غزہ! آپ کو سلام سلام سلام۔