اسبابِ ارتداد اور اس سے بچنے کی تدبیریں
اسبابِ ارتداد اور اس سے بچنے کی تدبیریں

اسبابِ ارتداد اور اس سے بچنے کی تدبیریں 

ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی استاد عربی دارالعلوم دیوبند کی ”ایمان بچائیے“ کے عنوان سے ایک طویل تحریر ہے؛ اس میں آپ نے ایمان کی اہمیت، فضیلت، ضرورت اور حفاظت پر  مفصل روشنی ڈالی ہے اور تحریر کے اخیر میں ارتداد کے اسباب و علل کی نشاندہی کے ساتھ اس کے سدِ باب کے طریقے بھی بتلائے ہیں؛ یہ مکمل تحریر پڑھنے کے لائق ہے مگر چونکہ لمبی تحریر سے اکثر لوگ صرف نظر کرتے ہیں، اس لئے محض اخیر کا وہ حصہ جو اس وقت سلگتا ہوا مسئلہ ہے، اسے پیش کیا جا رہا ہے، یہ تحریر اس میدان میں کام کرنے والوں کے لیے رہنما ثابت ہوگی۔

    پیشکش :امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی    

اسبابِ ارتداد

                اسلام کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا، اس کی حقانیت آفتاب کی طرح روشن ہے؛ البتہ عالمی منظرنامے پر مسلمان مغلوب نظر آرہے ہیں ، یہ ہمارے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہے، اس کے اسباب اور عوامل پراگر غور کیا جائے اور تفصیل لکھی جائے تو بڑی طویل ہوجائے گی، ذیل میں چند اسباب اور وجوہ ذکر کیے جارہے ہیں ، جس سے آج کی حالتِ زار کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

پہلی وجہ

                 سب سے پہلی وجہ اسلامی اقتدار کا زوال ہے، ’’عثمانیہ حکومت‘‘ کے زوال کے بعد سے اب تک مسلمان مظلوم ومقہور ہیں اور ان کو دبانے کی عالمی کوششیں ہوتی رہی ہیں ، آج کی عالمی طاقتیں مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے سے خوف زدہ ہیں ؛ اس لیے وہ مختلف مسائل اور مصائب میں مسلمانوں کو مبتلاکرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔

                یہودی سازش اور عیسائی مشنریاں سب سے آگے ہیں ،یہ سب مسلمانوں کواصل دین سے پھیرنا چاہتی ہیں ، چرچ کے تحت چلنے والے ’’این جی اوز‘‘ کی سرگرمیاں بھی مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں ، وہ ایک طرف مسلمانوں کو کھلے طور پر عیسائی بنانے کی مہم چلارہے ہیں ، دوسری طرف وہ عام مسلمانوں کو فکری ارتداد کی طرف لے جارہے ہیں؛ ان کی خواہش ہے کہ اگر مکمل نہ بدل سکے تو کم از کم قرآن وسنت میں شک وشبہ پیدا ہوجائے، جس سے اسلام بیزاری کی راہ ہموار ہوجائے، اس کے لیے وہ قرآن کو بدلنے کی مہم بھی چلارہے ہیں ، قرآن کے مقابلے میں شام کے بشارالاسد کی تیار کردہ ’’البرہان الحق‘‘ اسی کی کڑی ہے؛ بہت سے ممالک میں ارتداد کی لہرچل رہی ہے، مثلاً الجزائر، افریقہ، لبنان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش ان سب میں سرفہرست ہندوستان ہے؛ جہاں مختلف طریقوں سے لوگوں کو مذہب سے دور کیا جارہا ہے؛ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا، کشمیر اور یوپی سب ارتداد کی زد میں ہیں؛ یہاں ’’قادیانی‘‘ بھی اسلامی لباس پہن کر اسلام سے پھیرنے کا کام کررہے ہیں ، ’’شکیل بن حنیف‘‘ کا فتنہ بھی قادیانی فتنہ کا نیا ایڈیشن ہے، اس کا مقصد بھی مرتد بنانا ہے، اس کے ماننے والے مسجد میں لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں ، سفید کرتا پاجامہ پہن کر ہاتھوں میں تسبیح رکھ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہیں ؛ حالاں کہ وہ اسلام سے خارج ہیں ، حدیث شریف میں نماز روزہ کرنے والے مرتد کا ذکر موجود ہے، یہ سب اسی کے مصداق ہیں ۔

دوسری وجہ

                شدت پسند ہندو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے جمہوریت مٹ جائے، اصول وقوانین ختم ہوجائیں ، ’’آئینِ ہند‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور پورا ملک فرقہ پرست کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے، اس کے لیے وہ کوششیں کررہے ہیں ، اسلام کے مختلف احکامات پر اعتراض کرتے ہیں ، قرآن کی آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر اعتراض کرتے ہیں ،ازواجِ مطہرات کو نشانہ بناتے ہیں ، محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالم گیر کے کارناموں میں عیوب نکالتے ہیں ، جمہوریت پسند لیڈران پر تنقید کرتے ہیں ؛ تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور مسلمان اسلام کے تئیں شکوک وشبہات میں پڑکر پہلے فکری ارتداد میں مبتلا ہوں ، اسلام سے نفرت کریں پھر اسلام کو چھوڑدیں ۔

                مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کی سازش بھی یہی لوگ کررہے ہیں ، آر، ایس، ایس سے وابستہ ’’ہندوجاگرن منچ‘‘ نے سیکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندو گھرانوں کی بہو بنانے کا ہدف بنا رکھا ہے اور مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر انعامات رکھ رکھے ہیں ۔ (قومی آواز بیورو ۲۹؍نومبر ۲۰۱۷ء)

                مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کی سازش کے لیے جو تدبیریں کی جارہی ہیں ان میں سے ’’وندے ماترم‘‘ کو اسکولوں میں لازم کرنا ہے، ’’شری رام‘‘ کے نعرے لگوانا اور اس کے لیے مجبور کرنا ہے، ’’این، آر، سی اور سی، اے، اے‘‘ بھی اسی کی ایک کڑی ہے اور ’’گھرواپسی‘‘ نام کی تحریک تو کھلے طور پر اسلام سے پھیرنے کی تحریک ہے؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کلمہ پڑھنے والوں کے لیے بنایا ہے اور جب تک کلمہ پڑھنے والے رہیں گے تبھی تک یہ دنیا رہے گی اور ہم سب کے باوا آدمؑ مسلمان تھے؛ اس دنیا میں رہنے والا جب تک آدم علیہ السلام کے مذہب پر ہے تب تک وہ اپنے ہی گھر میں ہے واپسی کی ضرورت اس کو ہے، جس نے آدم کے گھر کو چھوڑدیا ہے۔

                آدم علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک سارے لوگ مسلمان رہے اور انسان کا اصل مذہب اسلام ہی ہے اس لیے گھرواپسی کا صحیح مطلب یہ ہونا چاہیے کہ سارے انسان دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام کے سائے میں آجائیں اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی عبادت کرکے اور اس کے قانون پر عمل کرکے زندگی کو پرسکون بنائیں اور مرنے کے بعد جنت کے مستحق ہوجائیں ؛ تاکہ مرنے کے بعد افسوس نہ ہوکہ کاش اسلام کو مانا ہوتا تو جہنم کی سزا نہ ہوتی۔

تیسری وجہ:اسکولوں ، کالجوں میں ارتداد

                علم سیکھنے سکھانے کا کوئی انکار نہیں کرتا؛ مگر کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ علم حاصل کرنے میں ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جو علم ایمان کے لیے خطرہ ہو وہ لعنت ہے، ہندوستان میں بہت سے اسکول ہیں ، جہاں اسباق کے بعد پانچ منٹ ’’اشلوک‘‘ پڑھایا جاتا ہے اور اسکول انتظامیہ اس پر اصرار کرتی ہے، مسلمان بچوں کو الگ کرنے کے مطالبے کو قبول نہیں کرتی، بعض اسکولوں میں ’’وندے ماترم‘‘ ضروری ہے، وہاں بھی مسلمان بچوں کو الگ رکھنے کی بات مانی نہیں جاتی، بعض اسکولوں میں ’’سرسوتی‘‘ کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بچوں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے، اس مورتی کو تعلیم کی دیوی کہا جاتا ہے؛ اس پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور پانی بھی، بعض اسکولوں میں ’’سوریہ نمسکار‘‘ کرایا جاتا ہے، یہ سب اعمال شرک ہیں ، ان سے بندہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہ صریح ارتداد ہے، ایسے اسکولوں میں تعلیم دلانا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟

                اور بعض اسکولوں میں اسلام کے خلاف مواد داخل نصاب ہے، شرکیہ باتیں کتابوں میں جبراً پڑھائی جاتی ہیں ؛ جب کہ جمہوری ملک ہے یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت ہے؛ اس لیے کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔

                بعض اسکولوں میں قرآن کی آیات کے خلاف بچوں کا ذہن بنایا جاتا ہے، خصوصاً جہاد کی آیتوں کو نکالنے کی بات کی جاتی ہے؛ جب کہ کوئی مسلمان کسی مذہب کی کتاب کے خلاف کچھ نہیں کہتا، اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ تم کسی کے معبود کو بُرا نہ کہو کہ وہ بدلے میں اللہ کو بُرا کہنے لگیں                 لَا تَسُبُّوا الّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دونِ اللّٰہ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (انعام:۱۰۸)                ترجمہ: تم ان لوگوں کو گالی نہ دو جو اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں کہ وہ نہ جاننے کی وجہ سے دشمنی میں اللہ کو گالی دے بیٹھیں ۔

چوتھی وجہ:مفلسی کی وجہ سے ارتداد

                آج بہت سے علاقوں میں مسلمان غریب ونادار ہیں ، ان کی مفلسی نے انھیں پریشان کررکھا ہے؛ اس لیے بعض عیسائی مشنریاں ان کو مال کا لالچ دے کر عیسائی بنالیتی ہیں ، مشرکین انھیں مشرک بنالیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کفر سے پناہ مانگی ہے اسی طرح فقروفاقے سے بھی پناہ مانگی ہے؛ اس لیے کہ بہت سی مرتبہ غریبی انسان کو کفر سے قریب کردیتی ہے؛                 حدیث شریف میں آیا ہے: ’’کاد الفقرُ أن یکونَ کُفْرًا‘‘ (بیہقی)،                نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دعاء بھی منقول ہے                اَللّٰہُمَّ اِنّيْ أعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ (حصن حصین)    ترجمہ: اے اللہ! میں (اسلام کا) انکار کرنے اور محتاج ہونے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔

پانچویں وجہ:عشق میں ارتداد

                مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ رہتے ہیں ، اس پر سیکس کی تعلیم کا لزوم پٹرول میں آگ لگانے کا کام کرتی ہے، آن لائن تعلیم نے بھی تعلقات کی پاکیزگی ختم کردی ہے؛               بے پردگی کی وجہ سے بھی گندے تعلقات ہوجاتے ہیں، معاشقے میں ذات پات کی کوئی قید نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے مسلم اور غیرمسلم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے مذہب کو محض شادی کے لیے قبول کرلیتے ہیں ، ان میں نہ تو مسلمان ہونے والوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہوتا ہے اورنہ غیرمسلم ہونے والوں کو؛ دونوں مذہب بے زار ہوتے ہیں ، مسلمانوں کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے تاکہ ارتداد سے بچ سکیں ۔

خیرالقرون میں مرتدین کا مقابلہ

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام ؓکے زمانے میں بھی ارتداد کی ہوا چلی تھی، وہ بھی اللہ کی مصلحت تھی، اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے ایسے موقع سے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کا نمونہ دکھانا چاہا تاکہ اگر بعد میں بھی ارتداد کی لہر چلے تواس کا مقابلہ اسی انداز سے کیا جاسکے۔

١…..کچھ لوگوں نے اسلام سے پھر کردوبارہ بتوں کی پوجا شروع کردی تھی، اہل کتاب منافقین کی پلاننگ بھی تھی کہ ایمان میں جھوٹ موٹ صبح کو داخل ہوجاؤ اور شام کو پھر جاؤ اور پوچھنے پر کہہ دو کہ ہم نے غور کیا؛ مگر ہمیں اسلام سمجھ میں نہیں آیا، اس طرح جو لوگ پکے مسلمان ہیں ان کا ایمان کمزور ہوجائے گا؛ لیکن ان کی یہ سازش چلی نہیں اللہ تعالیٰ نے پردہ فاش کردیا :               وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَٰبِ ئَامِنُواْ بِالَّذِیٓ أُنزِلَ عَلَی الَّذِینَ ئَامَنُواْ وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوٓاْ ئَاخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (آل عمران:۷۲)                ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کہا، جو کچھ مسلمانوں پر اترا ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو اس کا انکار کردو، شاید کہ وہ پھر جائیں ۔

                ایک عیسائی منافقت سے ایمان لایا اور سول اللہ ﷺ سے قریب ہوگیا؛ لیکن چنددنوں بعد وہ مرتد ہوگیا، عیسائیت میں داخل ہوگیا، پھر بتوں کی پوجا کرنے لگا، جب وہ مرا تو لوگوں نے قبر میں دفن کیا؛ مگر زمین نے قبول نہیں کیا، باہر کردیا، لوگوں نے دوبارہ دفن کیا، پھر باہر کردیاگیا، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔

                ٢….. یمامہ کے کچھ لوگوں نے مسیلمہ کذاب کی پیروی شروع کردی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نبوت میں شریک کرلینے کا مطالبہ کیا، جسے آپ نے مسترد کردیا؛ لیکن اس نے یمامہ میں چالیس ہزار لوگوں کو ہم نوا بنالیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بغاوت پر اترآیا اورنہ ماننے والوں کو قتل کرنا شروع کردیا، خلیفۂ اول کو چیلنج دیا توآپ نے پہلے حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ بھیجا؛ لیکن کامیابی نہ ملی؛ بالآخر حضرت خالد بن ولیدؓ نے تیرہ ہزار کے لشکر کے ساتھ یمامہ کا رخ کیا اور گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت وحشی بن حربؓ نے مسیلمہ کو ایسا نیزہ مارا کہ وہ ڈھیر ہوگیا اور اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔

       ٣…..صنعا (یمن) کے اسود عنسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کوشش فرمائی کہ وہ ایمان لے آئے؛ مگر وہ شعبدہ بازی کے ساتھ مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہا تو آپ نے یمن کے مسلمانوں کے نام فتنہ کی سرکوبی کے لیے خط بھیجا؛ بالآخر فیروزنامی ایک بہادر شخص نے اس کا کام تمام کردیا اور اس کے مرنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنائے جاچکے تھے۔

                ٤….. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا، روزہ نماز کا انکار نہیں کیا، کلمہ کا انکار نہیں کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ کیا آپ ان لوگوں سے جہاد کریں گے جو کلمہ پڑھتے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں ! جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس سے میں جہاد کروں گا؛ اس لیے کہ وہ بھی مرتد ہے۔

                مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوا کہ ارتداد کا مقابلہ کرنا مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے، مرتد ہونے والا اگر کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو سناجائے گا اس کا جواب دیا جائے گا؛ اس لیے کہ اسلام مدلل مذہب ہے، اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی زبردستی نہیں ، اسلام تلوار سے نہیں پھیلا ہے، اسلام کے کسی حکم میں کسی کو شبہ ہوتو اس شبہ کو دور کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مذہب کی آزادی ہے، یہاں مرتد کو قتل کرنے اور ان سے جہاد کرنے کی بات تو نہیں کہی جاسکتی؛ اس لیے کہ سزاؤں کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے؛ البتہ دلائل سے سمجھایا جائے گا اور مسلمان بھائیوں کے فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے، اس میں جمہوریت رکاوٹ نہیں ہے۔

ارتداد سے بچنے کی تدبیریں

                 آج ہندوستان کے موجودہ ماحول میں ہمیں فتنۂ ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے بھائیوں کو جہنم سے بچانے کی تدبیریں سوچنی چاہیے اور اس کے لیے مناسب اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے؛ اگرچہ ہم تعداد میں کم ہیں مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں اور اللہ جمے رہنے والوں کے ساتھ ہیں ۔ (بقرہ:۲۴۹)

اب سوال یہ ہے کہ             مسلمانوں کو ارتداد سے کیسے بچایا جائے؟ ان کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ تو اس سلسلے میں چند صورتیں ذہن میں آرہی ہیں اللہ کرے کہ وہ مفید ثابت ہوجائیں۔ 

١-ارتداد کی عالمی اورملکی سازش کا جائزہ لیا جائے اور ممکن حد تک ہر طرح کی کوشش کی جائے تاکہ مسلمان بھائیوں کا ایمان محفوظ رہے۔

٢-اہلِ وطن سے بحث ومباحثہ نہ کیا جائے، اس سے بات الجھتی ہے، نتیجہ ہاتھ نہیں آتا۔

٣- غریب مسلمانوں کے تعاون کا نظام بنایا جائے۔

٤-ایسے اسکول اور کالج سے بچا جائے جہاں نونہالانِ امت ارتداد سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

٥-مسلمان اپنے اسکول کھولیں اور پاکیزہ ماحول میں نونہالان کو تعلیم دیں، مخلوط تعلیم سے بچا جائے؛ اسی طرح ’’مکاتب‘‘ کے قیام پر توجہ دی جائے، اگر مستقل مکاتب نہ قائم کرسکیں تو مساجد میں مکاتب کا نظام بنائیں ۔

٦-دینی تعلیم کے فروغ کی کوشش کی جائے، عقیدے سمجھائے جائیں ، عموماً عقیدہ نہ جاننے کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ۔

٧-مسلمانوں کے اندر دینی غیرت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، دین اسلام کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔

٨-نماز کا اہتمام کیا جائے اور ایک دوسرے کو مسجد سے قریب کرنے کی ہرممکن کوشش ہو، ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے احباب اس پر زیادہ توجہ رکھیں ۔

٩- اگر محسوس ہوکہ کوئی ایمان پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے دور رہا جائے، ایسوں کی صحبت ہرگز اختیار نہ کی جائے۔

١٠- اپنی اولاد اور خاندان پر گہری نظر رکھی جائے! غلط صحبتوں سے بچایا جائے۔

١١-معاشرے میں پردے کا التزام کیا جائے تاکہ گندے تعلقات نہ ہونے پائیں ، جو اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتے ہیں ۔

١٢-اسلام پر ہونے والے اعتراضات نہ سنے جائیں ، عموماً موبائل پر بہت سے لوگ اسلام کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ، اُن کو نہ سنا جائے، صرف قابلِ اعتماد اور صحیح عقیدہ لوگوں کی باتیں سنی جائیں۔

١٣- علماء اعتراضات کا جواب تیار کریں اور ان کو شائع کریں ، اس کا ایک نظام بنایا جائے، اسلام کے خلاف اعتراضات جمع کیے جائیں پھر جواب تیار کرکے کئی زبانوں میں انھیں پھیلایا جائے تاکہ شکوک وشبہات والوں کے لیے شفا کا ذریعہ ہو۔

١٤-مدارسِ اسلامیہ میں باقاعدہ دفاعِ اسلام کا نظام بنایا جائے۔

١٥-تعارفِ اسلام کے کتابچے تیار کیے جائیں اور وہ مسلمانوں تک پہنچائے جائیں اور غیروں کو بھی دیے جائیں ۔

١٦- جمعہ کی تقریروں میں ایمان کی اہمیت اور اس کے عقیدے بیان کیے جائیں ۔

١٧-جہاں ارتداد کا خطرہ ہو وہاں مبلغین بھیجے جائیں ، مساجد میں اس کا نظام مضبوط انداز میں بنایا جائے؛ اس کے لیے مساجد میں باصلاحیت فکرمند اماموں کا تقرر کیا جائے جو وقت پر کام آسکیں ، جن کے اندر تقریر کی صلاحیت ہو۔

١٨-کفریہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے،اس لیے کہ ان الفاظ سے آدمی ایمان سے نکل جاتا ہے، یا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتاہے اور ا ُسے پتہ بھی نہیں چلتا۔

١٩- مختصرکورس تیار کیا جائے ،جس میں ایمانیات کی باتیں ہوں، اسلام کا تعارف، اہمیت ، عقیدے، ارکانِ اسلام، دعائیں اور دیگر ضروری معلومات ہوں کہ اس کا پڑھنے والا، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اورمعاشرت سب کو سمجھ لے۔

٢٠- عوام اور علماء کے تعلقات کو مضبوط کیا جائے، ان کا قرب جتنا رہے اتنا ہی ارتداد سے بچ سکیں گے؛ صحبتِ صالحین کی ترغیب دی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ۔

٢١- کالجوں میں تعارفِ اسلام اور اسلام پر اعتراضات سے متعلق محاضرات کا نظام بنایا جائے۔

٢٢- اسکول اور کالج کی چھٹیوں کے موقع کو غنیمت جان کر طلبہ وطالبات کو دین سمجھانے کا نظام بنایا جائے،سنڈے کلاس کا نظام بنایا جائے۔

٢٣-چھوٹی ہجرت کی جائے، مثلاً جہاں غیرمسلمین زیادہ ہیں ، مسجدیں نہیں ہیں یا دور ہیں ، ان علاقوں کو چھوڑ کر کثیر مسلم علاقے میں رہائش اختیار کی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :               أنا بَریئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أظْہُرِ المُشْرِکِینَ (ابوداؤد)          ترجمہ: میں ہراُس مسلمان سے بے تعلق ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتے ہیں ۔

                لَا تُسَاکنوا المشرکینَ وَلَا تُجَامِعُوْہُمْ! فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أو جَامَعَہُمْ فلیس مِنَّا۔ (ترمذی)               ترجمہ: مشرکین کے درمیان رہائش اختیار نہ کرو اور ان کے ساتھ جمع نہ رہو؛ اس لیے کہ جو ان کے ساتھ رہائش اختیار کرے گا یا اُن کے ساتھ جمع رہے گا تو وہ ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں ہے۔

٢٤-حفاظتِ اسلام کے لیے دعائوں کا اہتمام کیا جائے۔

                اَللّٰہُمَّ أرنا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتباعَہٗ وأرِنَا الباطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجتِنَابَہٗ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »