مرکز کی حکمراں جماعت کی پالیسی کا حصہ ہے کہ ہندو مسلم کے نام پر ماحول خراب کیا جائے اور برادرن وطن کے ووٹ کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ انتخابات میں راست فائدہ ان کی جماعت کو پہنچے؛ اسی پالیسی پر چل کر آج تک یہ کامیاب ہوئے ہیں اور اب بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں؛ آپ غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ آئندہ چند ماہ میں جن صوبوں میں انتخاب ہونا ہوتا ہے، وہاں یہ اس کے لئے اپنے پیادے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ یوپی، مہاراشٹر، جھارکھنڈ کو دیکھ لیجئے، وہاں گزشتہ چھ ماہ سے کیا کچھ ہو رہا ہے؟ اور ماحول بگاڑنے کی کس حد تک کوشش کی جا رہی ہے؟ اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کے لیے کس قدر زور لگایا جا رہا ہے؟ بہرائچ کا فساد ہو یا بابا صدیقی کا قتل، یا اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی ہو یا مسجد میں گھس کر مارنے کی بات، یا جھارکھنڈ میں بی جے پی کے دو بڑے لیڈروں کا پسماندہ برادریوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش، یہ سب اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
آنے والے سال کے شروعاتی مہینوں میں بہار میں اسمبلی انتخاب ہے، اس انتخاب میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، اس کے لئے ایک تو حزب مخالف کے ووٹوں میں سیندھ لگانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لئے پرشانت کشور کا استعمال کر رہی ہے؛ دوسری طرف بی جے پی کے لوگ اور نظریاتی طور پر اس سے جڑی تنظیمیں بہار میں ماحول بگاڑنے کی سازشوں میں مصروف ہے، چنانچہ چند روز قبل سیتامڑھی اور دربھنگہ میں بی جے پی ممبر نے تلوار بانٹے اور لوگوں کو فساد کے لئے اکسایا؛ اب بی جے پی کے بیگوسرائے سے دریدہ دہن ایم پی گری راج سنگھ نے بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع میں ”ہندو سو ابھیمان یاترا“(ہندو عزت نفس سفر)کا اٹھارہ اکتوبر سے اعلان کیا ہے؛ یہ یاترا ١٨؍اکتوبر کو بھاگلپور سے شروع ہوگا اور کٹیہار، پورنیہ، ارریہ ہوتے ہوئے کشن گنج سے گزر کر ٢٢؍اکتوبر کو ختم ہوگا۔
گری راج سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس یاترا کے دوران ہندوؤں کو بیدار کروں گا کیونکہ راہل گاندھی جیسے لیڈر ہندوؤں کو ذات کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی ذات نہیں بتا رہے ہیں؛ یہ لوگ مسلمانوں کا یک طرفہ ووٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے اب میں ہندوؤں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ تقسیم ہوگے تو بٹ جاؤ گے؛ گری راج سنگھ مرکز میں ٹیکسٹائل کے وزیر ہیں، وقتاً فوقتاً اول فول بکنے کے عادی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی ان کا شیوہ ہے؛ ایسے میں اس یاترا کا استعمال کس مقصد کے لیے کیا جائے گا؟ سمجھا جا سکتا ہے اور اگر انتظامیہ نے تھوڑی بھی لاپرواہی برتی اور اس کے خلاف لچر رویہ اپنایا تو اس کے نتائج کس قدر بھیانک ہوں گے؟ تصور کیا جا سکتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اتحادی جماعتیں جے ڈی یو اور لوک جن شکتی پارٹی نے اس یاترا کی مخالفت کی ہے اور ان کے لیڈروں کے بیانات سامنے آنے لگے ہیں؛ جے ڈی یو لیڈر وجے چودھری نے یاترا کی مخالفت کی اور کہا کہ صرف ترقی کی بات ہونی چاہیے؛ اسی طرح جے ڈی یو کے غلام غوث اور نیرج کمار نے اس یاترا کو” تقسیم پسند“قرار دیا ہے، دونوں لیڈروں نے کہا کہ ان کی حکومت ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کھڑی رہی ہے؛ نتیش کمار نے اسی جوش و جذبے سے مندروں پر چہار دیواری لگانے کا کام کیا ہے، جس جذبے سے انہوں نے قبرستانوں پر چہار دیواری لگانے کا کام کیا ہے، ہماری حکومت مذہبی ہم آہنگی کے لیے کھڑی ہے؛ یہ حقیقت ہے کہ نتیش کمار بی جے پی سے اتحاد کے باوجود کسی حد تک فساد پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں اور وہ اپنی سیاست ترقی کے نام پر کرتے ہیں؛ جہاں کہیں کچھ فساد ہوا ہے تو جلد از جلد کنٹرول بھی کیا ہے، اصل مجرم کو سلاخوں کے پیچھے بھی بھیجا ہے اور فساد متاثرین کی باز آبادکاری بھی کی ہے۔
اس لئے نتیش جی سے اپیل ہے کہ اولاً اسے یاترا کی اجازت ہی نہ دیں اور اگر اتحاد کی مجبوری میں اجازت دیتے ہیں تو لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے سخت ہدایات جاری کریں تاکہ اس کے ایک ایک نقل و حرکت پر نگاہ رکھی جا سکے اور کسی بھی قسم کی اکسانے والی بات پر فوراً گرفت میں لیا جا سکے؛ ان اضلاع کے مسلمانوں سے بالخصوص اور بہار کے مسلمانوں سے بالعموم گزارش ہے کہ ان جیسے نفرتی چنٹو کے اکسانے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، قانون کا سہارا لیں اور آنے والے انتخاب میں سوجھ بوجھ کا ثبوت دیں؛ یوپی اور بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے حالات آپ کے سامنے ہے، ان حالات کا صحیح تجزیہ کرکے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور متحد ہو کر کسی ایک کو ووٹ دیں، اللہ رب العزت ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔