یحیٰ سنوار: ہم سے بزمِ شہادت کو رونق ملی
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اللہ کی راہ میں، اللہ کے لیے، اللہ کے باغیوں سے لڑتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر دینا شہادت کہلاتا ہے؛ شہادت نصیبہ وروں کا حصہ ہے اور ایک عاشقِ زار مومن کا مطلوب و مقصود بھی؛ قرآن و حدیث میں شہید کے مرتبے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے، تمام آیات و احادیث کے علاوہ شہادت کی فضیلت کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی آرزو کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں“۔(نسائی شریف)
دیکھو! کون شہادت کی تمنا کر رہا ہے؟ جس کے لئے کائنات بنی، جس کے وسیلہ سے دنیا کی رعنائی و زیبائی قائم ہے، جس کے لئے عرش و فرش سجایا گیا، جس کے قدموں کی آہٹ پر حور و ملائک جھوم اٹھے، جو حامد بھی ہے محمود بھی اور جو احمد بھی ہے اور محمد بھی، جب اس لاثانی ہستی نے شہادت کے لئے آہیں بھری ہیں تو سوچئے کہ یہ کتنا عظیم مقام ہے اور وہ کتنا خوش قسمت ہوگا جو اس بلند مقام پر سرفراز ہوتا ہے؟ کتنا خوش نصیب ہے مزاحمت کا وہ لاڈلہ سپہ سالار، جس کی قابلِ رشک زندگی شہادت پر تمام ہوئی، جو مجاہدانہ زندگی گزار کر مجاہد کی موت مرا اور ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔
وہ ایسا عظیم مجاہد تھا، جو کروڑوں دلوں میں بستا تھا، جس کی زندگی کے عکس میں ہزاروں فلسطینی اپنی زندگی دیکھتے تھے اور اسے اپنا ہیرو مانتے تھے؛ وہ ایسا جواں عزم قائد تھا، جو بہادروں کی زندگی جیا، شیروں کی طرح لڑا، جامِ شہادت نوش کیا اور بامراد ہو گیا؛ آج اس کی شہادت پر عرش و فرش، شرق و غرب، شمال و جنوب سب ماتم کناں ہے لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ شہید دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی”زندہ“ ہوتا ہے، وہ اللہ کے یہاں ایک خاص مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور جنت کی نعمتوں سے تا قیامِ قیامت لطف اندوز ہوتا رہتا ہے؛ چنانچہ فلسطین و مسجد اقصٰی کی آزادی کا خواب سینے میں سجو کر شہید ہونے والا وہ مجاہد کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور آئندہ بھی زندہ رہے گا۔
ایک شہید کی روح جب جسم کے پنجرے سے آزاد ہو کر آخرت کی طرف پرواز کرتی ہے، تو آسمان بھی جھک کر سلام پیش کرتا ہے اور فرشتے بھی استقبال میں پر بجھاتے ہیں؛ شہید کی آنکھوں میں جھلکتا ہوا وطن کی محبت، اس کے دل کی دھڑکن میں بسی ہوئی قوم کی آزادی کی تڑپ اور ہاتھوں میں تھامے ہوئے حق کا پرچم، ایک ایسی داستان رقم کرتے ہیں جو نسل در نسل زندہ رہتی ہے؛ جب شہید کی لاش زمین پر گرتی ہے، تو اس کی ٹھنڈی سانسیں بھی آزادی کے نغمے گاتی ہیں، اس کے جسم سے نکلتا ہوا خون ظالموں کے لیے ایک للکار اور مظلوموں کے لیے امید کا پیغام بن جاتا ہے۔
شہید نہ صرف اپنی قوم، اپنے مذہب، اپنے وطن اور عقیدے کا محافظ ہوتا ہے بلکہ انسانیت کے لیے ایک روشن مثال بھی بنتا ہے؛ ان شہداء کا خون زمین پر بے مقصد نہیں گرتا، بلکہ یہ ایک تحریک کی آبیاری کرتا ہے، جو ہر شہید کی موت کے بعد مزید مضبوط ہو جاتی ہے؛ سر زمین فلسطین کے ایک ایک شہید کی شہادت پر سینکڑوں مجاہدین ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور شہادت ان کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے؛ قائد حریت کی شہادت سے ہم سب سوگوار ہیں لیکن یہ یقین بھی ہے کہ قائد کی شہادت رائگاں نہیں جائے گی بلکہ حریت پسندوں میں فلسطین و مسجد اقصیٰ کی مکمل آزادی تک شہادت کا جذبہ مزید ابھرے گا اور شہادت کی آرزو رکھنے والے اور پیدا ہوں گے۔
قائد حریت کی شہادت پر جشن منانے والے ظالم سن! یہ سرزمینِ فلسطین ہے، جہاں ایک شہید کی جگہ لینے کے لئے سینکڑوں جوان تیار رہتے ہیں اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے مر مٹنے کو سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں؛ اے بز دلو! سنو! تمہارا مقابلہ اس قوم سے ہے، جسے زندگی نہیں، موت عزیز ہے، جسے دنیا کی راحت نہیں، آخرت کا آرام محبوب ہے، جسے عارضی دنیا نہیں، دائمی جنت مطلوب ہے؛ جن کا شوقِ شہادت تمہارے لیے پیغامِ موت ہے، جنہیں رب العالمين کی خوشنودی نے موت کا دیوانہ بنا رکھا ہے، جن کی ہر سانس میں فلسطین اور مسجد اقصیٰ بستا ہے اور اس کی آزادی کے لیے مر مٹنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
اے ظالمو! یاد رکھنا، جب تک تم ظلم و ستم سے باز نہیں آؤگے اور انہیں ان کی سرزمین حوالہ نہیں کروگے، وہ تمہارے لیے موت کا فرشتہ بن کر سامنے آئیں گے اور تمہارا چین و سکون چھین لیں گے، تم زندہ تو رہوگے لیکن زندگی کی سچی خوشیاں تمہیں نصیب نہ ہوگی، ہر آن مجاہدین کا خوف تمہارا پیچھا کرے گی اور تم دنیا و آخرت دونوں جہاں میں رسوا ہو کر رہوگے۔