Oplus_131072

ایمان و اخلاق سب سے گراں قدر ہیں

پیشکش: امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
وہ غریب فقیر تھا، پرانے چیتھڑے تن پر ڈالے ہوئے بھوکا پیٹ ، پاؤں ننگے، اس کا نسب بھی معلوم نہ تھا؛ نہ مال نہ منصب نہ خاندان، کوئی گھر نہیں جس میں آرام کرتا ، نہ کوئی اثاثہ، اپنی ہتھیلیوں سے عام کنوؤں سے پانی پی لیتا؛ مسجد میں سو جاتا، ہاتھ تکیہ ہوتا اور پتھریلی زمین بستر لیکن ساتھ ہی وہ اللہ کا ذکر کرتا ، کتاب الہی کی تلاوت زبان پر رہتی، نماز اور جہاد میں صف اول میں نظر آتا۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اس جوان کا گزر ہوا، آپ نے آواز دے کر پکارا جلیبیب ! تم شادی نہیں کرو گے؟ کہا یا رسول اللہ! مجھ سے کون شادی کرے گا؟ میرے پاس نہ مال نہ جاہ و منصب ؟ ایک بار پھرگزر ہوا تو آپ نے اپنا سوال دہرایا، انہوں نے بھی وہی جواب دیا؛ پھر تیسری بار بھی یہی سوال جواب ہوا، آپ نے فرمایا :جلیبیب! تم فلاں انصاری کے پاس جاؤ، انہیں میرا سلام کہو اور کہنا کہ رسول اللہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دو؛ وہ انصاری ایک اونچے گھرانہ کے تھے، جلیبیب ان کےگھر پہنچے اور رسول اللہ کا پیغام عرض کر دیا؛ انصاری بولے رسول ﷺ کو سلام عرض ہے لیکن تمہارے پاس نہ مال نہ منصب، کیسے میں اپنی بیٹی کو تم سے بیاہ دوں؟ ان کی بیوی بھی سن لیتی ہیں اور وہ بھی یہی بات کہتی ہیں کہ مال و منصب کچھ تو ہو؛ ان کی مومنہ بیٹی بھی سنتی ہے اور ماں باپ سے کہتی ہے کہ آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے فرستادہ کو لوٹائیں گے؟ نہیں! خدا کی قسم نہیں۔
چنانچہ یہ شادی ہو جاتی ہے، گھر آباد ہوتا ہے، برکت ہوتی ہے، اولاد ہوتی ہے، تقویٰ اور خوشنودئ رب کی اساس پر گزر بسر ہونے لگتی ہے کہ اچانک جہاد کے لئے منادی پکارتا ہے؛ جلیبیب فورا گھر سے جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں، سات کافروں کو جہنم رسید کر کے شہید ہو جاتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اپنے مشن کے لئے بخوشی جان کی قربانی دے دیتے ہیں؛ جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتولین کی کھوج کرتے ہیں، لوگ شہیدوں کا نام لے کر آپ کو سناتے ہیں اور اس گفتگو میں جلیبیب کو فراموش کر دیتے ہیں کیونکہ وہ مشہور آدمی نہ تھے لیکن رسول اللہ انہیں بھولتے نہیں بلکہ بھیڑ بھاڑ میں بھی ان کا نام یا د رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: ارے بھائی! میں جلیبیب کے بارے میں معلوم کر رہا ہوں، پھر انہیں مٹی میں پڑا پاتے ہیں تو ان کے چہرہ سے گرد و غبار ہٹاتے اور فرماتے ہیں تم سات کو مار کر شہید ہوئے، تم مجھ سے ہو، میں تم سے ہوں، تم مجھ سے ہو، میں تم سے ہوں، تم مجھ سے ہو، میں تم سے ہوں، یہ جلیبیب کے لئے بہت بڑا انعام اور سرمایۂ  افتخار تھا۔
جلیبیب کی قیمت ان کا ایمان اور اللہ کے رسول کی ان سے محبت تھی، وہ مشن تھا جس کے لئے انہوں نے جان فدا کی ، ان کی غربت، فقر اور خاندان کی کمی نے ان کو اس شرف عظیم اور بلند مرتبہ سے وہ پیچھے نہیں رکھا؛ انہوں نے دنیا و آخرت میں ہی شہادت، رضا، قبولیت اور سعادت پائی، قرآن کہتا ہے کہ” اللہ نے ان کو جو فضیلت دی اس پر مسرور ہیں اور ان کے جو اخلاف ہیں ان پر وہ خوش ہیں کہ انہیں نہ خوف ہوگا نہ غمگین ہوں گے“ ۔ (۱۷۰:۳)
آپ کی قیمت تو آپ کے بلند کارنامے ہیں اور بہترین صفات ہیں، آپ کی خوش بختی یہ ہے کہ اشیاء کی معرفت ہو، وہ جو اپنی قدر و قیمت جان لے اور ویسا ہی عمل کرے مبارک ہے؛ وہ جو اپنے نفس کی بلندی ، جہاد اور نیک عملی کی طرف رہنمائی کرے، مبارک ہے وہ ، دنیاو آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »