امارت شرعیہ کی قیادت میں تحفظ اوقاف و بقائے دستور کی جد و جہد 
امارت شرعیہ کی قیادت میں تحفظ اوقاف و بقائے دستور کی جد و جہد 

امارت شرعیہ کی قیادت میں تحفظ اوقاف و بقائے دستور کی جد و جہد 

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

امارتِ شرعیہ بہار، اُڑیسہ و جھارکھنڈ کے زیر اہتمام وقف قانون ٢٠٢٥ء کے خلاف ایک عظیم الشان اور تاریخی ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ“ کانفرنس کا انعقاد آج گاندھی میدان پٹنہ میں عمل میں آیا؛ یہ کانفرنس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی رہنمائی میں وقف املاک کے تحفظ اور آئینی حقوق کی بقاء کے لیے ایک مؤثر آواز بن کر ابھری؛ اس کانفرنس کی صدارت امارتِ شرعیہ کے موجودہ امیر شریعت محترم جناب فیصل رحمانی صاحب نے فرمائی۔

یہ کانفرنس عوامی اجتماع کے لحاظ سے گاندھی میدان کی تاریخی کانفرنسوں میں ایک یادگار اور نمایاں مقام رکھتی ہے؛ اس میں بہار، اُڑیسہ اور جھارکھنڈ کے عوام و خواص کے علاوہ ملک بھر سے علماء، دانشوران، سیاسی و سماجی شخصیات اور بلا اختلافِ مسلک تقریباً تمام صوبائی و مرکزی تنظیموں کے نمائندگان اور متعدد خانقاہوں کے سجادہ نشینوں نے شرکت فرمائی اور قومی و ملی اتحاد کا عملی ثبوت پیش کیا۔

اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ان عناصر کو سخت پیغام دینا تھا جو وقف جیسے کالے قانون کے ذریعے ملتِ اسلامیہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؛ ان کے سامنے یہ واضح کیا گیا کہ وقف صرف جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی دینی، تعلیمی، فلاحی اور تمدنی زندگی کا ایک اہم ستون ہے اور مسلمان ہر مشکل حالات میں بھی دستورِ ہند کی روشنی میں اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے پرامن اور قانونی جدوجہد کرتا رہے گا؛ اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی اپنوں کو دیا گیا کہ وقف املاک کو حکومتی مداخلت اور غیر آئینی اقدامات سے بچانا ہر مسلمان کی شرعی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے۔

اس کانفرنس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کے مثبت یا منفی نتائج کیا برآمد ہوں گے؟ اس پر فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، وقت کے ساتھ سب کچھ واضح ہو جائے گا؛ البتہ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ تمام تر داخلی کمزوریوں اور انتشار کے باوجود ملتِ اسلامیہ ہند اپنے دینی اداروں اور قائدین کے ساتھ دل و جان سے وابستہ ہے؛ وہ نہ صرف ان پر اعتماد رکھتی ہے بلکہ ان کی ایک آواز پر اپنے جان و مال کو نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے؛ نیز وہ اپنے آئینی و قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار بھی ہے اور ایک طویل المیعاد تحریک کے لیے پُرعزم بھی۔

یہ کانفرنس صرف عوامی جذبات کے اظہار کا ثبوت نہیں ہے بلکہ ملی قیادت کے لیے ایک کڑا امتحان بھی ہے؛ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان جذبات و احساسات کو کس سمت میں لے جاتی ہے؟یا وہ ان مقدس جذبات کو قوم کے حقیقی مفادات، تحفظِ دین، بقائے ملت اور آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے تعمیری طور پر استعمال کرتی ہے یا صرف وقتی جوش، نعرے بازی اور سیاسی مفادات کی تسکین کے لیے انہیں استعمال کرکے عوامی اعتماد کو ضائع کر دیتی ہے؟ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں قیادت کی بصیرت، خلوصِ نیت اور حکمتِ عملی کا اصل معیار سامنے آتا ہے۔

وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس محض ایک وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک طویل المدت عوامی  منظم تحریک کا آغاز ہے، جس کی قیادت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کر رہا ہے؛ یہ تحریک ملک گیر سطح پر پُرامن، آئینی اور تدریجی انداز میں جاری ہے، امارتِ شرعیہ نے اس کانفرنس کے ذریعہ اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ امارتِ شرعیہ نے ہمیشہ ہر نازک موقع پر ملت کی اجتماعی قیادت کا فریضہ انجام دیا ہے اور ملت کی کشتی کو طوفانوں سے نکالنے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا؛ آج جب وقف املاک کو خطرات لاحق ہیں اور مسلمانوں کے آئینی حقوق پر حملے ہو رہے ہیں تو امارتِ شرعیہ ایک بار پھر صفِ اوّل میں کھڑی نظر آ رہی ہے اور اپنی قیادت سے امت میں اجتماعیت، وحدت اور بیداری کی روح پھونک رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام ملی و قومی تنظیموں کی کوششیں بارآور ہوں، ملک میں دستور کی بالادستی قائم ہو، اور مظلوموں خصوصاً اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مکمل سامان ہو، آمین۔

Translate »