امام اور عوام
امام اور عوام

امام اور عوام

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

پیشئہ امامت

امامت انتہائی صبر و تحمل والا پیشہ ہے، اس میں امام صاحب عوام کے درمیان ہوتے ہیں اور عوام یہ سمجھتی ہے کہ امام صاحب سے ہر طرح کا جرح و قدح اور الٹے سیدھے طریقے سے پیش آنا، ہمارا پیدائشی حق ہے؛ بسا اوقات اس بھونڈے انداز میں پیش آتے ہیں کہ اچھا خاصا متحمل المزاج شخص بھی تحمل کھو بیٹھتا ہے، میرا واقعہ ہی سن لیجئے! بعد نماز عصر میں مصلیٰ پر حسبِ سہولت بیٹھتا ہوں تاکہ لوگ جو کچھ پوچھنا چاہیں پوچھ لیں؛ مئی کا واقعہ ہے کہ میں بیٹھا تھا اور چار پانچ لوگ آس پاس بیٹھے کچھ کچھ پوچھ رہے تھے؛ ناگاہ ایک بڑے میاں آئے اور چیخ کر کہنے لگے کہ امام صاحب بتائیے کہ اندر کے سب دروازے بند ہوں تو صحن والوں کی نماز ہو جائے گی؟ میں نے کہا، ہاں! ہو جائے گی؛ کہنے لگے نہیں ہوگی اور بار بار کہنے لگے کہ نہیں ہوگی ،تم اپنے بڑے سے پھر سے  معلوم کرو۔

میں نے کہا کہ ہو جائے گی، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے تو چیخنے لگے کہ میں نے تمہارے بڑوں سے سنا ہے کہ نہیں ہوگی اور تم کہتے ہو کہ ہو جائے گی؛ میں نے ان کے تیور کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ جس سے سنا ہے، ان سے لکھوا کر لے آئیں تو مزید اتاؤلے ہو کر کہنے لگے کہ قبر سے اٹھا کر لکھواؤں ؟مجھ سے قبل یہاں ایک صاحب چالیس سال امام رہے اور مدرسہ حسین بخش دہلی کے وہ شیخ الحدیث بھی تھے، وہ انہیں کی طرف اشارہ کر رہے تھے ؛ اب میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور میں نے گیئر بدلتے ہوئے کہا کہ سیدھے مسجد سے نکل جاؤ، ورنہ اتنے جوتے ماروں گا کہ ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے؛ بس پھر کیا تھا، چپ چاپ چل پڑا، چار سالہ دورِ امامت میں میرے ساتھ یہی ایک تلخ واقعہ پیش آیا۔

آمدم بر سرِ مطلب

خیر آئیے! اصل واقعہ کی طرف جس کے لئے میں نے یہ تمہید باندھی ہے، آج کل سمستی پور بہار کے ایک گاؤں میں امامت کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے؛ امام صاحب نے تیس سال تک فرائض کی انجام دہی کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور نئے امام کے لئے اعلان سوشل میڈیا پر گردش میں ہے، سابق امام صاحب کے استعفیٰ کی وجوہات کے پیچھے متضاد باتیں ہیں؛ ایک مستند عالم نے امام صاحب سے بات کی تو انہوں جو کچھ بتایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کمیٹی کے چند ممبران بغض و عناد کی بنیاد پر ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، جس سے تنگ دل ہو کر سبکدوش ہوگئے؛ بغض و عناد کی وجہ بقول امام صاحب یہ ہے کہ انہوں نے اسی گاؤں میں شاندار مکان بنا لیا ہے اور بہت راحت بھری زندگی گزار رہے ہیں، جو انہیں برداشت نہیں ہے جبکہ کمیٹی تنخواہ بھی نہیں دیتی ہے بلکہ امام و مؤذن خود وصولتے ہیں اور جو کچھ آتا ہے، آپس میں بانٹ لیتے ہیں ۔

امام صاحب کی ترقی کا راز ان کی زمین داری ہے، وہ زمین دار گھرانے کے ہیں اور اس بات کی تصدیق وہاں آس پاس کے لوگوں نے کی ہے؛ دوسری طرف ایک عزیز نے میرے پرسنل پر کمیٹی صدر کے بیس منٹ کی آڈیو بھیجی ہے، جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امام صاحب کی قرأت ما یجوز بہ الصلاۃ نہیں ہے اور یہ بات باہر سے آنے والے علماء کرام بھی کمیٹی سے بارہا کہہ چکے ہیں؛ آگے کہتے ہیں کہ علماء کے بار بار کہنے کی وجہ سے انہوں نے امارت شرعیہ پٹنہ سے اس پر فتویٰ لیا تو عدمِ جواز کا فتویٰ آیا؛ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں وہ یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ گزشتہ بیس سال سے لوگ ان کی امامت کو پسند نہیں کر رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ ہٹنے پر آمادہ نہیں تھے، بریں بناء اس مسجد میں نمازی گھٹتے چلے گئے؛ اس کے علاوہ بھی انہوں نے امام صاحب پر بہت سے الزامات لگائے ہیں، جو ناقابلِ تحریر ہے ۔

اس واقعہ میں فریقین میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن میرا نظریہ ہے کہ امام صاحب کا مایجوز بہ الصلاۃ قرأت پر قادر نہ ہونے کے باوجود گاؤں میں مدتِ دراز تک امامت کرتے رہنا ناقابلِ ہضم ہے کیونکہ تجربہ یہ ہے کہ شہر کے مقابلہ گاؤں کے لوگ امام کے تئیں زیادہ حساس ہوتے ہیں اور بالکل جاسوس کی طرح ان پر نگاہ رکھتے ہیں کہ کہاں اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ کس کس سے ملتے ہیں اور کیوں ملتے ہیں؟ امام صاحب نے فلاں موضوع پر کیوں تقریر کیا؟ وغیرہ وغیرہ؛ اسی غیر ضروری حساسیت کا نتیجہ بسا اوقات اس شکل میں آتا ہے کہ فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے کے باوجود خارجی معاملہ میں ذرا سی اونچ نیچ ہونے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں اور چلتا کر دیتے ہیں ؛پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک امام صاحب بیس سالوں سےصحیح نماز نہیں پڑھا رہے ہیں اور عوام خاموش تماشائ بنی ہوئ ہے؟

امام کے ساتھ عوام کا رویہ

بقرعید کے موقع سے دو جمعہ گاؤں میں پڑھنے کا اتفاق ہوا، دوسرے جمعہ میں دیکھا کہ امام صاحب نہیں ہیں اور ایک مجہول الحال شخص اوٹ پٹانگ ہانک رہا ہے؛ بڑے صبر و ضبط کے ساتھ نماز سے فارغ ہوا اور لوگوں سے معلوم کیا کہ امام صاحب کہاں ہیں؟ تو بتایا گیا کہ گزشتہ جمعہ ہی انہیں فارغ کر دیا گیا، پوچھا کیوں؟ تو کہا گیا کہ امام صاحب نے فلاں کو گالی دی تھی، مجھے حیرت ہوئی کہ امام نے گالی دی مگر مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوئی؛ میں نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ قربانی کے دن بعد نماز عید بھی امام کو گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور کہا گیا کہ آنے والا جمعہ پڑھا کر جائیں ، پھر بھی وہ چلے گئے اور تین بعد آئے؛ آنے کے بعد ایک نے انہیں برا بھلا کہا تو انہوں نے بھی پلٹ کر مہذب گالی (کمینہ کمبخت) دے دی اور بس اسی کو بہانہ بنا کر ہٹا دیا گیا۔

یہ تو صورت حال ہے اور عوام کا امام کے ساتھ رویہ ہے، کم و بیش یہی کیفیت ہر جگہ ہے؛ میتھلی زبان میں ایک محاورہ ہے “بُرْبَک کی بیوی سب کی بَھْوْجَایْ” جس کا مطلب ہوتا ہے کہ سیدھا سادھا آدمی کو لوگ بیوقوف سمجھ کر اس کی بیوی سے جو چاہتا ہے، ہنسی مذاق کر لیتا ہے؛ یہی حال عوام نے امام کا بنا رکھا ہے، ہر کس و ناکس جب چاہتا ہے، امام کی پگڑی اچھال دیتا ہے اور بغیر کسی نقص کے عیب جوئی کرتا رہتا ہے؛ بات بغیر بات کے سالوں کی خدمت نظر انداز کرکے معزول کر دیا جاتا ہے اور اس وقت ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے، زندگی کے عزیز ترین اوقات قوم و ملت کے لئے صرف کرنے کے بعد بھی تہی دست اور خالی ہاتھ گھر لوٹنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

دو چار دن قبل ایک صاحب بڑے فکر مندی کے ساتھ کہنے لگے کہ فلاں صاحب کہہ رہے تھے کہ امام صاحب نماز میں سلام کا تلفظ صحیح ادا نہیں کرتے ہیں اور ہم چار پانچ لوگ مل کر ان سے کہیں گے اسے درست کر لیجئے؛ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کوئی کمی نہیں ہے، بالکل صحیح ادا ہو رہا ہے؛ بات آئی گزر گئی، آج پھر فجر بعد آئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے آپ کے بارے میں نہیں کہا تھا، مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی، فلاں امام صاحب کے بارے میں کہا تھا؛ جس امام کے بارے میں وہ کہہ رہے تھے، وہ ایک ہی مسجد میں بتیس سال سے امام ہیں اور بہت مقبول ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف غلط بات اڑائی جا رہی ہے ۔

امام کے حق میں تحریک کی ضرورت

امام کے ساتھ زیادتی کے واقعات آیے دن پیش آتے رہتے ہیں اور یہ واقعات سوشل میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے  روک تھام کے لئے کہیں کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی ہے؛ چنانچہ علماء و دانشوران کو اس پر توجہ دینی چاہیے اور امام کے اعزاز و اکرام کے سلسلے میں تحریک چلانی چاہیے، صوبائی و مرکزی تنظیموں کو امامت کے منصب کی اہمیت اور امام کی ضروریات کی تکمیل کے سلسلے میں رہنما اصول جاری کرنا چاہیے اور عوام کو اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ابھارنا چاہیے؛ کیوں کہ کسی بھی تنظیم کے مشن کو زمین پر اتارنے میں کلیدی رول ائمہ کرام کا ہی ہوتا ہے، یہ اپنے بزرگوں کے پیغامات پر عمل کے لیے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں؛ اسلام مخالف اقدامات کی روک تھام کے لیے جب کسی تحریک کی ضرورت پیش آتی ہے تو عوام میں بیداری لانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ان ائمہ پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو یہ تنظیمیں اور اس کے نمائندے غائب ہوتے ہیں، نہ ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور نہ موقع پر پہنچ کر صحیح صورت حال کی تفتیش کرکے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں؛ یہ ملی تنظیموں اور اس کے نمائندوں کا غلط رویہ ہے، اس پر توجہ دینے کی عاجزانہ اپیل ہے۔

 

https://alamir.in/madaaris-ke-khilaaf-saazish-ka-hissa-mat-banye/

One thought on “امام اور عوام”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »