مخبروں کی خبر لیجئے
مخبروں کی خبر لیجئے

مخبروں کی خبر لیجئے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

:قرآن کریم کی تفسیر

میں روزانہ بعد نماز فجر پندرہ بیس منٹ قرآن کریم کی تفسیر کرتا ہوں، جب تفسیر کرنا شروع کیا تھا تو آغاز معوذتین سے کیا، پہلے دن تفسیر میں ان دونوں سورتوں کا شانِ نزول بیان کیا اور مختصر اس کے فوائد پر روشنی ڈالی؛ فراغت کے بعد کمرہ میں آیا ہی تھا کہ ایک لحیم شحیم آدمی ادھیڑ عمر کا داخل ہوا، شرعی لباس میں ملبوس تھا البتہ چہرہ صنفِ نازک کے مشابہ تھا؛ کہنے لگا کہ امام صاحب آپ نے غلط تفسیر کی ہے، میں کہا اچھا! پھر صحیح کیا ہے تو کہنے لگے کہ آپ نے جو شانِ نزول بیان کیا ہے وہ غلط ہے، میں نے فلاں مسجد کے امام صاحب سے ایسا ایسا سنا تھا؛ میں نے اسے سمجھایا اور معارف القرآن کھول کر دے دیا کہ لیجئے، پڑھ لیجئے، اسے بات سمجھ میں آ گئ اور معافی تلافی کرنے لگا ۔

:غصہ کے بجائے خوشی

اس کے اس طرح سوال کرنے پر مجھے غصہ کے بجائے خوشی ہوئی کہ چلو کوئی تو ہے جو اس قدر انہماک سے سنتا ہے اور مجھے اندازہ ہوا کہ پڑھا لکھا ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ کی مشغولیت کیا ہے؟ پہلے پہل تو انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی، پھر رازدارانہ انداز میں کہنے لگا کہ حکومت کے خفیہ وبھاگ سے ہوں اور یہ بات کسی سے مت کہئے گا؛ خیر بات آئ گزر گئ، دوچار مہینے تک دیکھا کہ یہ پانچوں وقت نماز میں حاضر باش ہے، اگلی صف میں رہتا ہے، آذان ہوتے ہی مسجد آ جاتا ہے اور مؤذن کے آس پاس کھڑا ہوتا ہے؛ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ ڈیوٹی کب جاتا ہے؟ اور آخر ایسی کیا نوکری ہے کہ گھر بیٹھے بغیر کچھ کئے وظیفہ مل رہا ہے؟

:پولیس کے مخبر

مشکل سے چھ ماہ نہیں گزرے ہوں گے کہ ایک دن بعد نماز فجر دیکھا کہ مسجد کے سامنے والی گلی میں ایک صاحب کے گھر پر بجلی وبھاگ کے چھاپے پڑ رہے ہیں اور ساتھ میں پولیس بھی ہے؛ معلوم ہوا کہ چوری کے کنکشن سے اے سی چلاتے تھے، کسی نے مخبری کردی ہے؛ جب سرکاری نمائندے اور پولیس والے وہاں سے فارغ ہوئے تو اسی خفیہ وبھاگ والے کے گھر گئے اور چائے ناشتہ کرنے لگے؛ ایک نمازی سے میں نے پوچھا کہ ان سے سرکاری عملوں کا کیا تعلق ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ پولیس کے مخبر ہیں اور انہوں نے ہی چھاپہ مروایا ہے؛ میں نے کہا نہیں، ایسا نہیں ہے، وہ پنج وقتہ نمازی ہیں اور ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مہینہ پورا ہونے دیں، آپ کو دکھلاؤں گا کہ مخبر ہے یا نہیں؛ چند ماہ بعد یہ بات محقق ہو گئ اور یہاں تک معلوم ہوا کہ یہ ایک نہیں ہے، ایسے بہت سارے ہیں، جن میں اچھے خاصے باوضع لوگ ہیں جو قوم و ملت کی مخبری کرکے تھانے سے ماہانہ وظیفہ پاتے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مسجد کے صدر و سکریٹری ہیں۔

:الیکشن کے تعلق سے

آج کل الیکشن کے تعلق سے کئی جمعہ میں بیان کیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ اس وقت کسے ووٹ دینا ہے اور کیوں دینا ہے؟ نیز اس تعلق سے عوامی و خصوصی مجلسوں میں بھی گفتگو رہتی ہے اور لوگوں میں بیداری لانے کی کوشش رہتی ہے؛ ہم جس علاقے میں ہیں، یہاں کے لوگوں کا حال ووٹ کے تعلق سے بہت برا ہے، ووٹ دینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں؛ پچیس پچیس سال کے جوان ہیں اور ووٹر لسٹ میں ان کا نام تک نہیں جڑا ہوا ہے، اور نہ اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں؛ اس لئے تھوڑی تحریک چلاتا رہتا ہوں، اس پر بعض مخلصین نے نصیحت کی کہ امام صاحب اس سلسلے میں زیادہ نمایاں مت ہوئیے، ورنہ پولیس کسی بہانہ سے پھنسا سکتی ہے؛ میں نے کہا کہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگے کہ پولیس نے جو مخبر چھوڑ رکھے ہیں، ان سے اسی قسم کا کام لیتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ کون لوگ حکومت کے خلاف ہیں یا موجودہ حکمران جماعت کے خلاف ووٹ کی بات کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ مخبر اپنی پوزیشن بڑھانے کے لئے بات بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اس لئے پرہیز بہتر ہے ۔

:قوم کی ضمیر فروشی

یہ اس قوم کی ضمیر فروشی کا حال ہے،ان لوگوں کے دلوں میں نہ قوم وملت کی ہمدردی ہے اور نہ ہی خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے، بس اپنی دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ہیں، ایسے میں ظالم حکمران مسلط ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے؛ میں نے ذی شعور لوگوں کو مشورہ دیا کہ ایسے ضمیر فروش لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کریں، ان سے معاملات ترک کر دیں، رشتے ناطے ختم کریں تو کہنے لگے کہ امام صاحب کس کس سے کریں اور کہاں تک کریں؟ یہاں تو ہر گلی اور نکڑ پر بلکہ ہر گھر میں ایسے ضمیر فروش ہیں، سب لوگ انہیں جانتے پہچانتے بھی ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے ۔

:ایک لطیفہ

ایک لطیفہ پر بات ختم کرتا ہوں کہ میرا معمول ہے کہ شہادت کی دعاء مانگتا ہوں، جمعہ میں بآواز بلند دعاء میں بھی بےساختہ یہ دعاء نکل جاتی ہے؛ ایک جمعہ کے بعد ایک صاحب متشرع آئے اور کہنے لگے کہ شہادت کی دعاء نہیں مانگا کیجئے، میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے کہ شہادت کی دعاء کا مطلب ہے کہ جہاد ہو تو شہادت ہوگی، گویا آپ جہاد کی دعاء مانگ رہے ہیں، اگر پولیس کو پتہ لگ گیا تو پھنس جائیں گے؛ خیر میں ان کی بات پر مسکرا کر رہ گیا، کوئی جواب نہیں دیا؛ جب الاقصیٰ طوفان شروع ہوا تو نوجوانوں نے کہا کہ امام صاحب جہاد پر تقریر کیجئے، میں نے ان کے سامنے دعاء والی بات رکھی تو جوانوں نے کہا کہ امام صاحب وہ تو پولیس کا مخبر ہے، کوئی پولیس کو کہے نا کہے، وہ ضرور کہہ دے گا، اس امت کا اللہ ہی نگہ بان ہے۔

:دیگر مضمون

https://alamir.in/aulaad-ki-kirdar-kushi-me-walidain-ka-kirdaar/

:یہ بھی پڑھیں

http://جدید سائنسی ترقی کے غیر فطری اثرات https://hamaritahzeeb.com/archives/796

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »