ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ اور ہمارا طرزِ عمل
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
ملک میں مسلمانوں کی ذہنی و جسمانی ایذا رسانی کے مختلف طریقے آزمائے جا رہے ہیں،ان طریقوں میں ایک طریقہ شعائر اسلام کی اہانت کا ہے ،بالخصوص ناموسِ رسالت مآب ﷺ پر حملہ کی کوشش ہے، جس سے مسلمانوں کی سب سے زیادہ دل آزاری ہوتی ہے؛ آئے دن کوئی نہ کوئی دریدہ دہن اٹھتا ہے اور نبی معصوم ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے آپ کی صاف ستھری زندگی کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کرتا ہے؛ اس طرح کے واقعات ایک مومن کے لئے کتنا کربناک ہیں ؟ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ ان واقعات کے پیش آنے پر ہم وقتی طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، قانونی کارروائی کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے آقائے مدنی ﷺ سے عشق و محبت کا حق ادا کر دیا، یہی غلط فہمی ہے اور ہمیں اس غلط فہمی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے ۔
حضور ﷺ سے محبت اور اس کے تقاضے
حضور پرنور سرکار دو عالم ﷺ سے محبت ایمان کی بنیاد ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا ہے اور محبت بھی ایسی کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ محبوب دنیا میں کوئی اور نہ ہو؛سورۃ التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،اے نبیﷺ فرما دیجیے! اگر تمہارے آباؤ اجداد اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال، جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت، جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اُس کے رسول اور اللہ کے رستے میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں، تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
حدیث شریف میں ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص ( اس وقت تک ) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد ، اس کے والد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں؛ ‘‘بلاشبہ آپ ﷺ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر محبّت کیے جانے کے قابل ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ مصور کائنات نے محبت کے تمام اسباب آپ میں جمع کر دیا ہے؛ آپ کی سیرت ہو یا صورت، ظاہر ہو یا باطن، اخلاق و عادات ہوں یا معاملات و معاشرت، سب اعلیٰ و ارفع ہیں، کامل و اکمل ہیں؛ اسی لئے ہر مومن آپ ﷺ سے محبت کو اپنے لئے سرمایہ زندگی اور ماحصل زندگی سمجھتا ہے ۔
لیکن محبت محض زبانی جمع خرچ کا نام نہیں ہے بلکہ محبت عمل کا متقاضی اور مُستلزمِ اتباع ہے کیونکہ محبت بلااتباع دھوکا اور خام خیالی ہے ؛پس محبت محبوب کی اداؤں پر فدا ہونے کا نام ہے، محبوب کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند و ناپسند بنا لینے کا نام ہے؛ محبوب کی مرضی کے آگے اپنی مرضی تج دینے اور اس کے مطالبات پر اپنی خواہشات کو تیاگ دینے کا نام ہے؛ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا:’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائیں ‘‘ (مشکوٰۃ شریف)؛ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔ع
لوکان حبک صادقًا لأطعتَہٗ
إن المحب لمن یحب مطیعٗ
اگر تیری محبت میں صداقت ہوتی تو تُو اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا، کیونکہ محب محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔
اظہارِ محبت کے اسلوب
اسلام نے جہاں اپنے ماننے والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کی تلقین کی، وہیں اظہارِ محبت کے اسلوب اور طریقے بھی سکھائے ہیں تاکہ عقیدت ومحبت کا نذرانہ محبوب کے معیار کے مطابق ہو اور اس کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت کے قابل ہو؛شیخ امام علی بن سلطان محمد ہروی معروف بہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: ١٠١٤ھ مطابق ١٦٠٦ء) فرماتے ہیں :’’علامۃ حب النبی حب السنۃ ، وعلامۃ حب السنۃ حب الآخرۃ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کی علامت یہ ہے کہ سنت سے محبت ہو اور سنت سے محبت کی علامت آخرت کی محبت ہے؛ ‘‘ (شرح عین العلم وزین الحلم،ج۲، ص۳۷۵،مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر)۔
آج جبکہ دشمنانِ اسلام ہمارے پیغمبر ﷺ کی حیات طیبہ پر کیچڑ اچھالتے ہیں تو جہاں ہم اپنے غم و غصہ کا اظہار کرکے دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم اپنے جان و مال کا نقصان تو برداشت کر لیں گے لیکن اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی برداشت نہیں کریں گے، وہیں ہماری اس سے بڑی ذمہ داری ہے کہ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کی ایک ایک ادا کو اپنے عمل سے زندہ کریں؛ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم آقا ﷺ کی زندگی کو اسوہ بنانے کے بجائے اللہ کے باغیوں کی زندگی کو نمونہ بنائے ہوئے ہیں، آپ کی سنت کو اپنانے کے بجائے مادہ پرستوں کے طریقوں کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں؟ اور ہمیں احساس تک نہیں ہے لیکن دعویٰ محبت میں کوئی کمی نہیں ہے ۔
عاشق صادق تو وہ ہوتا ہے جس کا ظاہری حلیہ اور اس کے اعمال میں جھلکتا عشق اس کے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہو، اسے اپنے عشق کے اظہار کے لیے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کے نعرے نہ لگانے پڑیں بلکہ اس کے اخلاق و اعمال یہ بتانے کے لئے کافی ہوں کہ وہ گنبدِ خضراء کے مکین کا دیوانہ ہے؛ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے یہی کیا تھا، ان عشق کے متوالوں نے کبھی عاشق رسول ﷺ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر انہوں نے آپ ﷺ سے عشق و محبت کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا، جس کی گواہی قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے ۔
یوں تو ان فدائیوں کے عشق کی بے شمار داستانیں ہیں مگر آئیے! ایک واقعہ سنتے چلیے ؛ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ ( کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے؛ ‘‘ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا : اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کوئی فائدہ اٹھا لو؛ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے، (مسلم شریف، حدیث نمبر ٢٠٩٠)۔
کامیابی کی ضمانت
اسی لیے اگر آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے سچی محبت ہے اور آپ کی روشن زندگی پر کیچڑ اچھالنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہتے ہیں تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ایک سنت کو حرزِ جاں بنا لیجئے اور ببانگ دہل اعلان کر دیجئے کہ تم جتنا ہمارے نبی ﷺ کی حرمت پر انگلی اٹھاؤگے، ہم اتنی ہی شدت سے آپ ﷺ کی ایک ایک ادا اپنے عمل سے زندہ کر کے دکھائیں گے اور یقین مانیں کہ اسی میں ہماری کامیابی ہے اور یہی ناموسِ رسالت کے سد باب کا ذریعہ ہے ؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’فَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ أُنْزِلَ مَعَہٗ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کہ جولوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں، ان کی عزت وتکریم بجالاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو اُن کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں؛ ‘‘ (سورۃ الاعراف:۱۵۷)۔
غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے، آپ کی تعظیم وتکریم اور حمایت ونصرت کے ساتھ اتباع واطاعت بجالانے والوں کے لئے ہی دائمی کامیابی کی ضمانت دی ہے؛ اسی کی ترجمانی علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کی ہے کہ …. ع
کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
نوجوان کا دلچسپ واقعہ
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک نوجوان کا بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ: گوالیار کے راجہ کے یہاں فوجی لوگ داڑھی منڈائیں یا نہیں، اس کے متعلق کوئی قانون نہ تھا؛ اس کی فوج کا ایک نوجوان مسلمان داڑھی منڈایا کرتا تھا، سب برا بھلا کہتے کہ تو داڑھی منڈاتا ہے، وہ جواب میں کہتا کہ میاں گناہ کرتا ہوں، اللہ میاں معاف کر دے گا؛ پھرا تفاق ایسا ہوا کہ راجہ کی طرف سے حکم ہوا کہ فوج میں رہنے والا کوئی شخص داڑھی نہیں رکھ سکتا؛ جتنے لوگ اس شخص کو ڈاڑھی رکھنے کی تلقین کرنے والے تھے، ایک دم سب نے داڑھی منڈا ڈالی اور اس شخص سے کہا کہ لو میاں مبارک ہو تیرا ہی چاہا ہو گیا؛ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کہا کہ اب تو راجہ کا حکم ہوگیا کہ کوئی فوجی داڑھی نہیں رکھ سکتا، اس لیے بھائی ہم سب کو منڈانی پڑی؛ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میاں اب تک تو جو داڑھی منڈائی، وہ خدا کی نافرمانی اور نفس کے کہنے سے مگراب خدا کے ایک نافرمان کا حکم ہے تو اب سے منڈانا بے حمیتی ہے؛ کہا گیا کہ فوج سے برخاست کر دیے جاؤ گے، اس نے کہا کہ اللہ رازق ہے، وہ کہیں اور سبیل فرمادیں گے، چنانچہ اس نے ڈاڑھی رکھ لی اور فوج سے نکال دیا گیا، (اصلاح المسلمین صفحہ نمبر ٧٠٦)
اللہ رب العزت ہمیں اور پوری امت کو عمل کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
https://alamir.in/masal-e-awqaaf-me-wokalaa-se-hazrat-thanwi-rahimahullah-ka-dilchasp-mukaalma/