طلبئہ مدارس کی گھٹتی تعداد کے اسباب
طلبئہ مدارس کی گھٹتی تعداد کے اسباب

طلبئہ مدارس کی گھٹتی تعداد کے اسباب

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

:مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد

 کورونا کے بعد مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئ ہے ، بطورِ خاص درسِ نظامی کے آٹھ سالہ مروجہ نصاب کے تحت پڑھنے والوں میں زیادہ کمی آئ ہے؛ پہلے یہ تعداد چار فیصد تھی جو کہ کورونا کے بعد گھٹ کر دو سے ڈھائی فیصد تک رہ گئ اور دن بدن اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے؛ اس کے کئ اسباب بیان کئے جاتے ہیں، مثلاً دینی علوم سے بیزاری اور دنیاوی فنون کی برتری،معاشی نقطئہ نگاہ سے مستقبل کے اندیشے، قیام و طعام کے معاملہ میں مدارس کا فرسودہ نظام اور بعض حضرات کے نزدیک قدیم نصاب کی پیچیدگی وغیرہ؛ لیکن یہ وجوہات تو پہلے بھی تھے مگر اس کے باوجود مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد میں اس قدر کمی نہیں تھی، جس قدر ادھر دو تین سالوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے اور برابر اس میں کمی آ رہی ہے؛ میرا ماننا ہے کہ اس کے تین دیگر اور اسباب ہیں، جس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے، آئیے!ان اسباب کو مختصراً جانتے ہیں تا کہ سدِ باب کیا جاسکے ۔

:مختصر مدتی کورس کا فروغ 

ایک سبب مختصر مدتی کورس ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ درسِ نظامی کے آٹھ سالہ مروجہ نصاب سے ہٹ کر سہ سالہ یا پنچ سالہ نصاب کے تحت عالم و فاضل کی تعلیم و تعلم کو فروغ دیا جا رہا ہے؛ دیکھئے! آج کا دور شارٹ کٹ کا ہے،کسی بھی چیز کے حصول میں لوگ زیادہ وقت صرف کرنا نہیں چاہتے ہیں ، کم محنت اور کم وقت میں ہی سب کچھ پا لینا چاہتے ہیں؛ اس کا اثر دینی تعلیم و تعلم پر بھی پڑا ہے، آج کا طالب علم چاہتا ہے کہ کم سے کم وقت میں اسے سندِ فضیلت مل جائے، چاہے اسے کچھ آئے یا نہ آئے اور ہم نے مختصر مدتی کورس کی تخریج و ترویج کرکے اس کے لئے راہ آسان کر دیا ہے؛ گزشتہ سالوں میں تین سالہ پانچ سالہ عالمیت و فضیلت کے ادارے جگہ جگہ کھل گئے اور اب بھی کھولے جا رہے ہیں، اس کے فوائد بتائے جا رہے ہیں، ظاہر ہے ایسے میں کوئی کیوں آٹھ سال خرچ کرنا چاہے گا؟

چنانچہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد مختصر مدتی کورس کی طرف راغب ہو گئ، جس کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ درس نظامی کے مروجہ نصاب کے تحت پڑھنے والوں کی تعداد گھٹ گئی اور دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مختصر مدتی کورس کے فضلاء اپنے آپ کو باضابطہ نظامیہ نصاب سے فارغ التحصیل فضلاء سے کمتر نہیں سمجھتے ہیں اور یہ پہلے کے مقابلے زیادہ بڑا نقصان ہے؛کیوں کہ درسِ نظامی کے آٹھ سالہ مروجہ نصاب سے فارغ التحصیل فضلاء کے بارے میں یہ شکوہ عام ہے کہ زیادہ تر کام کے نہیں، نام کے ہیں تو اندازہ لگائیے کہ مختصر مدتی نصاب سے فارغ التحصیل کا حال کیا ہوگا؟ اس لیے اس قسم کے مختصر مدتی کورس پر قدغن لگانا چاہئے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ اس کے بڑے مفاسد ہیں جو صاحبِ نظر کے نظر سے مخفی نہیں ہے ۔

:آن لائن مدارس کا عروج 

دوسرا سبب آن لائن مدارس کا قیام ہے، کورونا کے زمانے میں مجبوراً بہت سے مدارس میں آن لائن تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا تاکہ تعلیم کا زیادہ حرج نہ ہو اور طلبہ کا تعلیم و تعلم سے رشتہ جڑا رہے؛ مجبوری میں شروع کیے گئے اس کام کو اب ضرورت بنا دیا گیا اور اس کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا گیا، جس کا نتیجہ ہے کہ طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد آف لائن کے بجائے آن لائن پڑھنے میں دلچسپی لینے لگی؛ آن لائن پڑھنے میں دلچسپی کی عموماً دو وجہ ہے ، ایک سہولت پسندی ہے کہ انسان فطری طور پر سہولت پسند ہے، اسے جہاں سہولت میسر ہو، اسے ترجیح دیتا ہے؛دوسری وجہ پڑھائی کے ساتھ کمائ کا رجحان ہے، بعض طلبہ نے جب دیکھا کہ آن لائن پڑھنے کے مواقع ہیں تو کیوں نہ پڑھائی بھی جاری رہے اور کمائ بھی کی جائے؛ چنانچہ بہت سے طلبہ درمیان تعلیم ہی امام،مؤذن، ٹیوشن یا دیگر چھوٹے موٹے کام میں لگ گئے اور آن لائن پڑھنے کا بہانہ بنا کر یا تو تعلیم ہی چھوڑ دی یا کچھ دن آن لائن پڑھے اور پھر مشغولیت بڑھنے پر وہ بھی چھوڑ دیا یا مکمل پڑھائی کی بھی تو جس انہماک کے ساتھ پڑھنا چاہئے، نہیں پڑھے اور آن لائن میں یہ ممکن بھی نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے لوگ صاحبِ سند تو ہو گئے صاحبِ علم نہ بن سکے ۔

 آن لائن تعلیم و تعلم کی جزوی افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن اس کا عمومی رجحان نقصان دہ ہے، بالخصوص دینی تعلیم و تعلم میں اس کا بڑا نقصان ہے؛ روبرو پڑھنے میں جو یکسوئی و انہماک، استحضار ہوتا ہے، وہ آن لائن میں بالکل بھی نہیں ہوتا ہے؛ اس حقیر نے دورانِ لاک ڈاؤن اور بعد از لاک ڈاؤن چند پروفیشنل کورس آن لائن کیا ہے اور دینی علوم آن لائن پڑھایا بھی ہے، اسے خوب تجربہ ہے کہ کماحقہ تعلیم و تعلم کا حق ادا نہیں ہو پاتا ہے اور صاحبِ بصیرت سے بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے، پس اس سلسلے پر بھی روک لگانی چاہیے ۔

:بیک وقت دینی و دنیاوی علوم کا حصول 

تیسرا سبب دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم کے حصول کا جنون ہے، آج کل رواج چل پڑا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ اسکولی تعلیم کے نظام کے مدارس کثرت سے کھل رہے ہیں، جہاں بیک وقت علوم دینیہ کے ساتھ علوم عصریہ کی تعلیم میٹرک انٹر تک دئیے جانے کی بات کی جاتی ہے؛ ایسے گارجین اور طلبہ جن کا مقصود علمِ دین کا حصول دنیا کمانے کے غرض سے تھا، یا ایسے لوگ جن کا مطمح نظر یہ تھا کہ ان کے بچوں پر دین کا لیبل بھی لگا رہے اور دنیا کمانے کے فنون سے بھی واقف ہو، انہوں نے اس قسم کے ادارے کو ترجیح دی اور اپنے نونہالوں کو خالص علومِ دینیہ پڑھنے کے بجائے معجون (علومِ دینیہ مع علومِ عصریہ) کے حصول میں لگانے کو فوقیت دی؛ یہی لوگ پہلے اپنے بچوں کو خالص مدارس میں پڑھاتے تھے، بعد میں دنیاوی علوم پڑھاتے تھے مگر جب انہیں یہ سہولت ملی کہ ایک ہی وقت میں دونوں علوم حاصل کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے اپنے بچوں کو وہاں داخل کرانے لگے، تاکہ کم وقت میں بہت کچھ بن جائے، بریں بناء ایسے مدارس مقبول بھی ہو رہے ہیں اور تیزی سے کھل بھی رہے ہیں ۔

 اس طرح کے اداروں کے فضلاء کا حال تو اور برا ہے کہ یہ نہ دین کے سپاہی بن پاتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے ماہرین، فراغت کے بعد انہیں از سر نو دونوں علوم میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے کئ سال لگانے پڑتے ہیں، تب جا کر کچھ بن پاتے ہیں؛ اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں دونوں علوم میں کمال حاصل ہو جائے ،مگر انسانی طبیعت کی جلد بازی کہ وہ پھر بھی اس قسم کے اداروں میں پڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں؛المیہ یہ ہے کہ خود خالص دینی اداروں کے ذمہ دار حضرات اپنے بچوں کو ایسے ادارہ میں پڑھا رہے ہیں، ایسے ادارے کھول رہے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ طلبہ نہیں مل رہے ہیں، اس لئے اس طرح کے اداروں پر بھی لگام لگانے کی ضرورت ہے ۔

:آخری بات و مشورہ 

یہ تین وجوہات اس حقیر کی نگاہ میں خالص درسِ نظامی پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی کا سبب ہے، دیکھئے دونوں قسم کے ادارے موجود ہیں، جنہیں جس طرف رغبت ہو، وہاں جا کر تعلیم حاصل کر لے، خواہ مخواہ دونوں نظامِ تعلیم کو خلط ملط کرکے تعلیم کا کباڑا نہیں کرنا چاہیے؛ جہاں تک رہی دین کی بنیادی تعلیم کی بات تو اس کے لئے منظم مکتب کا نظام بنائیے، وہاں اپنے بچوں کو پابندی اور فکرمندی کے ساتھ بھیجئے، انشاءاللہ دین سلامت رہے گا؛، لہذا ہمیں اس قسم کے اداروں کے نقصانات مدنظر رکھتے ہوئے اس کا سلسلہ روکنا چاہیئے اور وہ علماء کرام جو اس قسم کے اداروں کے مؤید ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت میں لگے رہتے ہیں، انہیں بھی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ درسِ نظامی کے مروجہ آٹھ سالہ نصابِ تعلیم اور خالص نظامیہ مدارس کی اہمیت و وقعت باقی رہے ۔

دیگر مضمون

https://alamir.in/mukhbiron-ki-khabar-lijiye-

یہ بھی پڑھیں

http://قاضی مجاہدالاسلام قاسمی: ایک عہد ساز شخصیت https://hamaritahzeeb.com/archives/787

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »