تھوک چاٹنا یعنی ۔۔۔

تھوک چاٹنا یعنی ۔۔۔

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی

:تھوک چاٹنا

مکتب میں جب ہم لوگ پڑھتے تھے تو ہماری غلطیوں پر ہمیں مختلف سزائیں دی جاتی تھیں؛ مثلاً کان مڑوڑنا، اوٹھک بیٹھک کرانا، مرغا بنانا، کرسی بنانا،چیونٹی کاٹا جانا اور ہاتھ پر تھوک ڈال کر چٹوانا وغیرہ، اس میں بھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ خود کا تھوک اپنے ہاتھ پر پھینک کر چاٹنا ہوتا تھا اور کبھی دوسرے سے تھوک ہمارے ہاتھوں پر ڈلوایا جاتا اور اسے ہمیں چاٹنا پڑتا تھا ؛ تھوک چاٹنے کی سزا سب سے سخت ہوتی تھی لیکن یہ سزا آخری درجہ کا ہوتا تھا اور انتہاء درجہ کے شریروں کو ہی دیا جاتا تھا، خیر اب تو اس قسم کی سزا تو دور ڈانٹ ڈپٹ بھی ختم ہے، اللہ کا فضل ہے کہ یہ حقیر ان سزاؤں سے محفوظ رہا؛بچہ ا حساس و شعور سے خالی ہوتا ہے اور اپنی طفلانہ حرکت میں مگن رہتا ہے لیکن اس کے باوجود تھوک چاٹنے کی سزا پر بڑی خفت محسوس کرتا تھا اور شرمندگی سے سر جھکائے سیدھے گھر چلا جاتا تھا ۔

تھوک چاٹنا  اب ایک کہاوت ہے ،جس کا مطلب ہوتاہے اپنی کہی ہوئ بات سے پلٹ جانا،جو کہ ایک مہذب سماج میں عیب مانا جاتا ہے  ،مگرآج کل سیاست دانوں کے لئے یہ ایک عام سی بات ہو گئ ہےاور ان کی یہ معمول کی عادت ہوگئ ہے، اپنی کہی ہوئی بات سے کب مکر جائیں؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے؛ بے شرمی کی حد ہے کہ یہ سب حرکت یہ لوگ آن ریکارڈ کرتے ہیں اور جب کوئی انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد دلاتا ہے  تو بےشرمی سے ہنس کر ٹال دیتے ہیں؛اس لئے ان کے لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ انہیں تھوک چاٹنے کی لت پڑ گئ ہے ۔

:نتیش چاچا

نتیش چاچا کو ہی لے لیجیے، کل جب وزیر اعظم مودی سے مل کر نکلے تو میڈیا میں کہا کہ “اب ادھر ادھر کہیں نہیں جائیں گے” لیکن یہی نتیش چاچا ہیں جنہوں نے ڈیرھ سال قبل جب مہا گٹھ بندھن میں آئے تھے تو ببانگ دہل کہا تھا کہ “مٹی میں مل جائیں گے لیکن بی جے پی میں نہیں جائیں گے”، اور اب ادھر ادھر نہ جانے کا دعوی کر رہے ہیں ،دیکھئے کب تک اپنے وعدہ پر قائم رہتے ہیں ؟یا پھر  پلٹی ماریں گے؟ اور اپنا پھینکا ہوا تھوک پھر چاٹیں گے؟ یہ ایک سوال ہے، آنے والا وقت سب کچھ بتا دے گا ۔

:کمار وشواس

خبر ہے کہ کمار وشواس بھی بی جے پی جوائن کرنے والے ہیں، ہاں! یہ وہی کمار وشواس ہیں جو کوی ہیں اور جن کی مشہور کویتا”کوئ دیوانہ کہتا ہے،کوئ پاگل سمجھتا ہے؛مگر دھرتی کی بےچینی کو،بس بادل سمجھتا ہے” عاشقوں کا پسندیدہ کویتا ہے؛ ہاں! وہی کمار وشواس جو عام آدمی پارٹی کے فاؤنڈر میں سے ہیں، جو ایک وقت تھا کہ رات و دن بی جی پی اور کانگریس کے خلاف مورچہ کھول رکھا تھا اور آج وہی بی جے پی کے گود میں بیٹھنے کے لئے تیار ہیں تاکہ ستا کا سکھ بھوگ سکے ۔

:آچاریہ پرمود کرشنن

خبر یہ بھی ہے کہ ہندو مذہبی رہنما آچاریہ پرمود کرشنن جنہوں نے ٢٠١٩ء کا لوک سبھا الیکشن لکھنو سے کانگریس ٹکٹ پر لڑا تھا‘ امکان ہے کہ پارٹی چھوڑدیں گے اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کریں گے؛ آچاریہ نے  اپنے ارادے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست، امکانات کا کھیل ہے، فی الحال نہ تو میں نے کانگریس چھوڑی ہے اور نہ کانگریس نے مجھے چھوڑا ہے؛جی ہاں! یہ وہی آچاریہ پرمود کرشنن جی ہیں جو قومی یکجہتی کانفرنس میں نعت گا گا کر شہرت حاصل کی تھی اور پھر سیاست میں آ گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ کوئی سدا کے لئے دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن، چلیں ٹھیک ہے دوست دشمن نہ بنیں لیکن کم سے کم کچھ تو شرم و حیاء کا پاس رکھیں؛ اچھا عجیب بوالعجبی ہے کہ ہم عوام بھی اسی کے عادی ہیں کہ پھر انہیں ہی منتخب کر کے اپنا نمائندہ بنا لیتے ہیں، ایک بار اگر ہم نے ٹھان لی کہ اب ایسے پلٹو اور دل بدلو نیتا ؤں کو ووٹ نہیں دیں گے تو پھر یہ دَل بدلنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے اور پھر دھیرے دھیرے ہی سہی سیاست میں بدلاؤ آئے گا ۔

:دیگر تحریر

https://alamir.in/sharam-tum-ko-magar-nahi-aati/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »