تبلیغی جماعت کارنامے اور مشورے
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “احیاء العلوم” کی تیسری جلد میں “كتاب رياضة النفس وتهذيب الأخلاق ومعالجة الأمراض” کے تحت فرمایا ہے کہ آدمی اگر اپنے نفس کی اصلاح و تربیت چاہتا ہو تو اس کے چار طریقے ہیں؛ صحبت صالح کے ذریعے، مخلص دوست کے ذریعے، دشمن کے ذریعے اور محاسبئہ نفس کے ذریعے؛ جو کوئی ان میں سے کوئی ایک طریقہ اپنا کر اپنے عیوب کی نشاندہی کرے، پھر اسے دور کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے تو اصلاح پا جائے گا، اور اگر کوئی چاروں طرق اختیار کرے تو نور علی نور ہے، تبلیغی جماعت یہ چاروں طریقوں پر کاربند ہے، تبلیغی جماعت اصلاح نفس و معاشرہ کا ایسا عالمی پلیٹ فارم ہے جہاں اپنا جان، مال اور وقت لگاکر اپنی اور قوم وملت کے افراد کے اصلاح کی فکر کی جاتی ہے، یہ جماعت سو سال سے زائد عرصے سے خاموشی کے ساتھ اپنے مشن پر گامزن ہے اور آفاق عالم میں گھوم گھوم کر اصلاح کے فرائض انجام دے رہی ہے، جس کی افادیت سے شاید ہی کوئی صاحب عقل انکار کر سکتا ہے؛ حالیہ دنوں میں سعودی عرب حکومت کی وزارت اسلامی امور کی طرف سے جمعہ میں جو خطبہ پڑھا گیا، اس میں تبلیغی جماعت کو گمراہ، مشرکانہ عمل میں ملوث اور دہشت گرد کہا گیا جو بالکل بے بنیاد اور تعصب پر مبنی ہے؛ اس فیصلہ نے تبلیغی جماعت کے تعلق سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے،یقیناً جماعت میں مرور ایام کی وجہ سے کچھ خرابیاں درآئیں ہیں جس کے اصلاح کی ضرورت ہے مگر اس کا سہارا لے کر اس کی افادیت کا انکار عقل اور حقیقت کے خلاف یے
تبلیغی جماعت کے کارنامے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق اصلاح کے طریقوں میں پہلا طریقہ “صحبت صالح” ہے، صحبت صالح کا مطلب ہے کہ کسی صاحب دل اللہ والے کی صحبت اختیار کر لیا جائے، اپنی ظاہری و باطنی عیوب ان کے سامنے بیان کردی جائے، پھر وہ جو علاج تجویز فرمائیں، اسے حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کریں، اس طرح سے دھیرے دھیرے آپ کی اصلاح ہوجائے گی، اور یہ اصلاح کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کہ اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو؛ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب عرب میں مبعوث کئے گئے تو اس وقت اہل عرب کی کیا حالت تھی؟ زمانہ کی کون ایسی بگاڑ تھی جو انمیں نہیں تھی؟ مگر جب وہ ایمان لائے اور آپ کی صحبت بابرکت سے فیضیابی کی تو وہی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا مزدہ پایا اور بزبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم “اصحابی کالنجوم بأيهم إقتديتم إهتديتم” کا سندِ ہدایت پاکر قیامت تک کے انسانوں کے لیے سببِ ہدایت بن گئے، یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت بااثر کی تاثیر تھی
اصلاح کا دوسرا طریقہ “دوست کے ذریعے اصلاح” ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئی اللہ والا نہ ملے جو اس کی اصلاح کر سکے تو کسی مخلص، وفادار و دیندار دوست سے یہ معاہدہ کرے کہ اگر تو مجھ میں کوئی عیب یا خامی پائے تو بلاجھجھک نشاندہی کرو تاکہ میں اپنی اصلاح کرسکوں، اس طرح سے وقتاً فوقتاً اپنی کمی کوتاہی اس سے معلوم کرتا رہے اور اپنی اصلاح کرتا رہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا “اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرے”، چنانچہ وہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنے عیوب دریافت کرتے رہتے تھے؛ اکابر علماء کرام کا بھی یہی طریقہ رہا ہے، اس لئے اگر کسی کو کوئی اللہ والا نہ ملے تو ایک مخلص دیندار دوست رکھے جو اس کے ظاہر و باطن کے عیوب سے آگاہ کرے، یہ اصلاح کا دوسرا طریقہ ہے
اصلاح کا تیسرا طریقہ “دشمن کے ذریعے اصلاح” ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے عیوب کا علم اپنے دشمنوں کے ذریعے معلوم کرے کیونکہ دشمن کی آنکھ عیب کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی اور زبان عیب کے علاوہ کوئی بات ظاہر نہیں کرتی؛ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “ہمارا خیال تو یہ ہے کہ آدمی خوشامدی دوستوں کے بنسبت عیب جو، عیب بین اور عیب گو دشمنوں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس لئے کہ دوست عموماً تعریف ہی کرتے ہیں، ان کی آنکھیں صرف اچھائ دیکھتی ہیں اور ان کی زبانوں پر صرف اچھائ رہتی ہے، یہ صحیح ہے کہ آدمی فطرتاً دشمنوں کی تکذیب کرتا ہے اور ان کی ہر بات حسد پر محمول کرتا ہے مگر اہل بصیرت دشمنوں سے بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں”؛
اصلاح کا چوتھا طریقہ” محاسبئہ نفس کے ذریعے اصلاح “ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی لوگوں میں گھومے پھرے، اور ان میں جو عیوب دیکھے، اسے اپنے اوپر رکھ کر خود محاسبہ کرے کہ کیا یہ بری عادت اس میں بھی ہے؟ اگر ہے تو اسے دور کرے؛ مومن، مومن کے لئے آئینہ کی طرح ہوتا ہے، ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھے، اس کے عیوب میں اپنے عیوب تلاش کرے کہ ممکن ہے یہ بگاڑ خود اس میں بھی ہو، پھر اس کے اصلاح کی فکر کرے کیونکہ عموماً انسان کی طبیعت ایک جیسی ہوتی ہے، اس طرح اس کی دھیرے دھیرے اصلاح ہو جائے گی؛ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو ادب کس نے سکھایا؟ آپ نے فرمایا کسی نے نہیں بلکہ میں نے جاہلوں کی جہالت دیکھی، بری معلوم ہوئ اور کنارہ کشی اختیار کر لی، یہ اصلاح کا چوتھا طریقہ ہے کہ اگر کسی کو مذکورہ بالا تینوں طریقے حاصل نہ ہو تو اس طرح بھی اپنی اصلاح کرلے
اصلاح کے مذکور چاروں طریقے اگر آپ غور کریں تو تبلیغی جماعت میں پائے جاتے ہیں کہ نیک لوگوں کی صحبت بھی ہے جن کی صحبت سے نیکی کی طرف رغبت ہوتی ہے، مخلص دوست بھی ہے جو سستی پر متنبہ کرتا رہتا ہے، اس کام کے مخالفین اس کی کمی پر انگلی اٹھاتے رہتے ہیں، جس سے کمی کوتاہی کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے اور اصلاح کی فکر کی جاتی ہے، نیز دوسروں کو دیکھ کر اپنے اندر بھی نیکی کے جذبات ابھرتے ہیں اور برائی سے بچنے کی فکر ہوتی ہے؛یہی وجہ ہے کہ اصلاح کا جتنا بڑا کام اللہ نے اس جماعت لیا ہے اور لے رہا ہے وہ دوسری جماعت سے نہیں ہو رہا ہے؛ اسی جماعت کی برکت ہے کہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ آج مسجد سے جڑا ہوا ہے اور اس کی زندگی میں دین جھلکتا ہے، اللہ جزائے خیر دے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو جن کی شب و روز کی فکرمندی اس عالمی نظام اصلاح کی بنیاد کا سبب بنا اور دنیا بھر میں نیکی کی باد بہاری چلی
فکری و عملی کج روی اور مشورہ
جب کوئی جماعت پرانی ہو جاتی ہے اور اس میں مفاد پرست عناصر آجاتے ہیں تو کچھ نہ کچھ خرابی در آتی ہے، ایسا ہی تبلیغی جماعت میں بھی ہوا، اس میں یہ فکری خرابی پڑوان چڑھنے لگا کہ ایک طبقہ دین کو صرف اسی کام میں مقید کرنے لگا اور زور و شور سے یہ کہنے لگا کہ یہی دین کا کام ہے اور اس میں لگنے والے ہی دین کا کام کرتے ہیں باقی دین کے دیگر شعبہائے اسلام میں کام کرنے والی جماعت یا افراد بیکار ہے اور وہ دین کا کام نہیں ہے؛ یہ ایک بڑی فکری کج روی ہے جس کے اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور اب لوگ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں؛ دیکھیے دین کے کام کے شعبے بہت ہیں مثلاً درس و تدریس، تعلیم وتعلم، دعوت و تبلیغ، تہذیب و تدریب، تزکیہ و اصلاح، جہاد وغیرہ؛ ہر کام ضروری اور اہم ہے، اور انسانی قوی روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے، ہر ایک کام کو ایک شخص انجام دے، ممکن نہیں ہے مگر دین کا ہر کام قیامت تک چلے گا اور اس کی صورت یہی ہوگی کہ ایک جماعت ایک کام کرے گی، دوسری جماعت دوسرا کام، لہذا دین کے کام کرنے والے ہر جماعت ایک دوسرے کو رفیق سمجھے نہ کہ فریق، ایک دوسرے کا معاون سمجھے نہ کہ مخالف اور یہ نظریہ رکھے کہ دین کا ایک کام وہ ہے جو میں کر رہا ہوں اور ایک کام وہ بھی ہے جو فلاں بھائی یا جماعت کر رہی ہے،اس طور سے آپس میں اتحاد کی فضاء بنے گی اور کام میں منجانب اللہ مدد بھی آئے گی
دوسری عملی خرابی ہے، وہ یہ کہ بدقسمتی سے جب سے جماعت دوگروہ شوریٰ و امارت میں تقسیم ہوئ ہے تب سے دونوں گروہ کے افراد ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں؛ کوئی شہر گاؤں محلہ مسجد خاندان ایسا نہیں ہے جہاں اس اختلاف کا تماشہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہو، کل تک جو ایک دوسرے سے گلے ملتے تھکتے نہیں تھے، آج سلام کرنے کو روا دار نہیں ہے،شوریٰ کے حمایتی امارت والے کو غلط کہتے ہیں تو امارت کے حمایتی شوریٰ والے کو غلط کہتے ہیں، یہ وہ فتنہ ہے جس کا سد باب از حد ضروری ہے، دیکھیے قرآن کریم نے جہاں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ( اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی) کہہ کر امیر کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ (اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے) اور وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ (اور اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کام کا مشورہ ان سے یعنی صحابہ سے کیا کریں) کہ کر واضح اعلان کر دیا کہ امیر و شوریٰ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں؛ لہذا ہمیں اس چکر میں پڑ کر آپس میں اختلاف نہیں کرنا چاہیے، آپ کا دل شوریٰ کی طرف ہے، اس سے لگ جائیں اور دعوت و تبلیغ کا کام کریں، کسی کا دل امیر کی طرف ہے، وہ اس سے لگ جائے اور دعوت و تبلیغ کا کام کرے، مگر خدارا آپس میں اختلاف کو ہوا نہ دیں.
دو باتیں یاد رکھیں کہ آپ دین کا کام اللہ و رسول صل اللہ علیہ و سلم کے لئے کریں، کسی شخص کے لئے نہیں، شخص تو آتے جاتے رہیں گے، اللہ کا دین باقی رہے گا؛ دوسری بات یہ کہ شریعت کے خلاف خواہ کوئی کرے خیر القرون کے بعد وہ قابلِ رد ہے، لہذا آپ شخص کی محبت میں غلو سے بچیں، کتنی بھی عقیدت کسی سے ہو اس کی وہی بات قابلِ قبول ہے جو شریعت کے موافق ہو اور خلاف شریعت بالکل قابلِ رد ہے، یہ دونوں باتیں ہمیشہ پیش نظر رہے تو انشاءاللہ فکری وعملی کج روی سے محفوظ رہیں گے.
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه. آمین یارب العالمین