وقف املاک پر مرکزی حکومت کی نظر 
وقف املاک پر مرکزی حکومت کی نظر 

وقف املاک پر مرکزی حکومت کی نظر 

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

وقف املاک

ملک بھر میں وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ جائدادیں تقریباً ٨.٧لاکھ ہیں، اِن میں قریب ٩.٤لاکھ ایکڑ اراضی ہے اور غیر رجسٹرڈ املاک اس کے علاوہ ہیں؛ ریلوے کے بعد منقولہ اور غیر منقولہ جائدادیں سب سے زیادہ وقف بورڈ کے پاس ہے، جس کی موجودہ قیمت ایک لاکھ بارہ ہزار کروڑ روپے ہیں، یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اگر ایمانداری سے اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی بدحالی ختم کرنے پر خرچ کیا جائے تو حکومتی تعاون کے بغیر مسلمانوں کی تمام تر پسماندگی دور ہو جائے گی ؛ وقف املاک کے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری وقف بورڈ کی ہے، ملک میں کل پینتیس ریاستی سطح کے وقف بورڈ ہیں؛ اس کے علاوہ ایک مرکزی وقف کونسل موجود ہے، جو ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ایک خود مختار ذمہ دار ادارہ ہے اور یہ تمام وقف بورڈس کی کارکردگی کی نگرانی بھی رکھتی ہے ۔ 

برطانوی سامراج

ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اجتماعی ضروریات کی تکمیل اور مسلم معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی جائدادیں وقف کرنا شروع کر دیا تھا، البتہ مسلم حکمرانوں کے عہد میں اس میں بہت اضافہ ہوا اور آج تک کسی نہ کسی درجہ میں یہ سلسلہ جاری ہے؛ جب ملک پر انگریزوں کا تسلط ہوا تو وقف املاک کو ختم کرنے کا عمل شروع ہوا اور نہ صرف یہ کہ وقف املاک کو ذاتی اثاثوں کے طور پر فروخت اور منتقل کیا گیا بلکہ انگریزوں نے ایسی پالیسیاں بھی نافذ کیں جن کی وجہ سے ان کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور ان پر قبضہ کیا گیا؛اس وقت مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے اوقاف مخالف پالیسی کے خلاف تحریک چھیڑی تو اس کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی گئی اور وقتاً فوقتاً اس میں رد و بدل بھی ہوتا رہا تا آنکہ ملک آزاد ہو گیا؛ برطانوی دور حکومت میں اوقاف کی مزید تفصیل جاننے کے لیے ڈاکٹر شفاعت احمد خان کی کتاب “مملکت ہند میں مسلم اوقاف کا انتظام” دیکھیں ۔

وقف ایکٹ

ملک میں وقف املاک کے تحفظ اور وقف کے مقاصد میں استعمال کے لیے آزادی کے وقت جو وقف ایکٹ تھا، وہ وقف جائداد کی حفاظت کے لئے ناکافی تھا؛ اس لئے مسلمانوں کے مطالبے پر آزادی کے بعد ١٩٥٤ء میں ایک نیا وقف ایکٹ لایا گیا اور حسبِ ضرورت ١٩٦٤ء اور ١٩٦٩ء میں اس میں ترمیم کیا گیا مگر پھر بھی کئی خامیاں رہ گئیں تھیں؛ ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے ١٩٩٥ء میں ایک بار پھر کچھ ترمیم کرکے وقف ایکٹ لایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب یہ وقف املاک کو تحفظ فراہم کرے گا لیکن اس میں بھی بے شمار دشواریاں اور پیچیدگیاں تھیں اور وقف املاک کے ناجائز استعمال کے بہت سے چور دروازے تھے؛ چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے ١٩٩٥ء کے وقف ایکٹ میں مسلسل ترمیم کی مانگ ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں یوپی اے ٹو کی حکومت نے ٢٠١٣ء میں اس قانون میں بہت سی ترميمات کے بعد پہلے سے زیادہ مستحکم وقف قانون کی منظوری دی، اس نئے ایکٹ میں وقف بورڈس کو وقف املاک کے تحفظ کے سلسلے میں کافی حد تک با اختیار بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔

راجدھانی دہلی کی بات

اس کے باوجود اوقاف کی جائدادوں پر آج بھی قبضہ ہے اور اس میں عوام اور سرکاری ادارے دونوں برابر کی مجرم ہے؛ ملک کے دیگر صوبوں کی بات تو جانے دیجئے، صرف راجدھانی دہلی کی بات کریں تویہ حیرت انگیزانکشاف ہوتا ہے کہ دہلی کے ١٩٧٧ اوقاف میں سے چھ سو سے زائد پر سرکاری محکموں، کارپوریٹ اداروں اور زمین مافیاؤں نے قبضہ کررکھا ہے؛جس کی تفصیل یہ ہے کہ ١٣٨ زمینوں پر ڈی ڈی اے نے اور ١٠٨ قیمتی اراضی پر مرکزی محکمہ تعمیرات نے عمارتیں تعمیر کررکھی ہیں؛ ٥٣ جائدادیں آثار قدیمہ کے قبضے میں ہےجبکہ دہلی کے انتہائی قلب میں مہنگے ترین پلاٹس پرکسٹوڈی نے، وائرلیس شعبہ نے، وزارت دفاع نے، دہلی نگر نگم نے ،محکمہ بجلی اور این ڈی ایم سی نے قبضہ کررکھا ہے؛ واضح ہو کہ یہ ڈیٹا ٢٠١٣ء-٢٠١٤ء کا ہے، حالیہ اعدادوشمار دستیاب نہیں ہے، اس لئے اس میں کمی بیشی کا امکان ہے ۔

وقف املاک پر قبضہ

دو سو جگہوں پر زمین مافیاؤں نے قبضہ کررکھا ہے، جس پر آج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عالیشان دفاتر، کثیر منزلہ عمارتیں اور شاپنگ مال تعمیر ہیں؛ ان میں سے کئی کمپنیاں تو وقف کی ان جائیدادو ں پر مکمل قابض ہیں اور کرایہ تک نہیں دیتی ہیں اور بعض کمپنیاں معمولی کرایہ یعنی چند ٹکے دیتی ہیں؛اس کے علاوہ ١٢٣ اوقاف کی ایسی جگہیں ہیں، جن پر وشو ہندو پریشدنے تنازعہ کھڑاکررکھا ہے اور کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھا ہے کہ یہ ان کی جائدادیں ہیں، جبکہ وہاں پر برسوں سے مسجد و مدرسہ قائم ہے اور ان میں باضابطہ نماز و تعلیم ہوتی ہے اور یہ سب بہت ہی اہم جگہوں پر ہیں؛ کورٹ میں معاملہ زیرِ التوا ہونے کے باوجود ڈی ڈی اے نے ان میں سے کئی مسجد و مدرسہ کو شہید کر دیا ہے اور مزید شہید کرنے کی تیاری میں ہے، اللہ رب العزت حفاظت فرمائے ۔

وقف ترمیمی بل

موجودہ مرکزی حکومت کی نگاہ میں اوقاف کی یہ جائدادیں کھٹکتی ہیں اور وہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد کے ان قیمتی اثاثہ کو ہتھیانہ چاہتی ہے، اس لئے آج پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرنے والی ہے؛ اگر خدانخواستہ یہ ترمیمی بل دونوں ایوانوں سے پاس ہو جاتا ہے تو وقف بورڈ بالکل ناکارہ ہو کر رہ جائے گا اور ریاستی و مرکزی حکومت کے نمائندے وقف جائداد میں بندر بانٹ کے مجاز ہو جائیں گے ؛وقف ایکٹ میں ترمیم سے نقصان کی ایک مثال یہ ہے کہ نئے بل میں وقف سے حاصل ہونے والی رقم کو بیواؤں، طلاق یافتہ عورتوں اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کے تجویز کردہ طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور حکومت سے اجازت لینی ہوگی جبکہ ٢٠١٣ء کے ایکٹ میں وقف بورڈ اپنے طور پر استعمال میں مختار تھی؛اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی منشاء وقف املاک میں بلاواسطہ دخل اندازی کا ہے اور حکومت اس قسم کے چالیس سے زائد ترمیم کا ارادہ ہے رکھتی ہے ۔

مسلم مخالفت

وقف ایکٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مسودہ لا کر حکومتی قبضہ کی کوشش سے مرکزی حکومت کا مسلم مخالف چہرا ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے اور یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ یہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے؛ ان سب کے بیچ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس ترمیمی مسودہ کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجنے اور مسلم تنظیموں سے صلاح و مشورہ کا مطالبہ کیا ہے، جس سے دونوں ایوانوں میں بل کی مخالفت کا امکان ہے؛اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور بل پاس نہ ہو سکے لیکن ہم مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے لئے اب بیٹھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔

 

https://alamir.in/bihar-ke-musalman-parshant-kishore-se-hoshyar-rahen/

https://hamaritahzeeb.com/archives/1211

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »