موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

مولانا عبد الصمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحۂ ارتحال پر خصوصی تحریر 

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

 مولانا عبد الصمد قاسمی نور اللہ مرقدہ سابق استاد افضل المعارف الہ آباد کو انتقال ہوئے دو دن گزر گئے لیکن قلب پر ان کے اچانک وفات کا گہرا صدمہ ہے؛ مولانا میرے گاؤں (جتوکا دربھنگہ) کے جید عالم تھے اور انہیں گاؤں کے سب سے پہلے قاسمی ہونے کا شرف حاصل تھا، ١٩٨٩ء-١٩٩٠ء کی فراغت تھی؛ مولانا عالمانہ وقار کے حامل، با اخلاق و با کردار، سنجیدگی و متانت کے پیکر، کم گو اور صاف گو تھے۔

مولانا سے اس حقیر کا تعلق سلام اور خیریت کے تبادلے تک محدود تھا مگر دل میں مولانا کی وقعت بہت تھی اور اس کی وجہ مولانا کی سادگی، خاموش مزاجی، خوش مزاجی اور مستقل مزاجی تھی؛ مولانا نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد افضل المعارف الہ آباد میں تدریس کا آغاز کیا اور وہیں کے ہو کر رہ گئے، تقریباً پینتیس سال کا لمبا عرصہ وہاں گزارا؛ آپ وہاں کے مؤقر عربی کے استاد تھے، فارسی میں مولانا کو خاص درک حاصل تھا، فارسی کی تقریباً تمام کتابیں آپ سے متعلق تھیں؛ مولانا کی عمر زیادہ نہیں تھی، پچپن کے آس پاس تھی، انتقال سے تین دن قبل مدرسہ میں ہی دل کا دورہ پڑا، کانپور ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور دوران علاج ہی یکم جنوری ٢٠٢٥ء سہ پہر چار بجے اللہ کے پیارے ہو گئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

یوں تو مولانا اسلامی اخلاق کے نمونہ تھے مگر آپ میں دو خوبیاں بہت نمایاں تھیں، ایک سخاوت اور دوسرا قرابت داری کا خیال؛ جنازہ میں شریک مولانا کے کئی فیض یافتگان سے بات ہوئی، سب نے مولانا کے سخاوت کا ذکر کیا؛ افضل المعارف میں پڑھنے والے علاقے کے طلبہ کے لیے آپ مرجع کی حیثیت رکھتے تھے اور مولانا بھی بغیر کسی بھید بھاؤ کے سب کی سرپرستی فرماتے تھے اور ان کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے؛ ضرورت مند طلبہ کی پیسے، کپڑے، کتاب، قلم کاپیوں سے تعاون آپ کی عادت تھی۔

آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا، ہر وارد و صارد کے لئے صلائے عام تھی؛ مولانا کے ایک خادم قاری تبریز امام و خطیب مسجد دلدار گنج دربھنگہ نے بتایا کہ”میں مولانا کا خادم تھا، کھانا لانے اور کھلانے کی ذمہ داری میری تھی، کھانے کے اوقات میں کوئی بھی آتا، خواہ شناسا ہو یا اجنبی، آپ اسے اپنے ساتھ کھانے پر ضرور شامل کرتے اور کشادہ دلی کے ساتھ ضیافت فرماتے“۔

پہلے جب گاؤں میں باضابطہ مدرسہ نہیں تھا، ہمارے دروازے پر مکتب چلتا تھا اور دادا علیہ الرحمہ حافظ شبیر عالم رحمانی پڑھاتے تھے اور اسی اکلوتے مکتب میں پورے گاؤں کے بچے پڑھتے تھے؛ اسی زمانہ میں والد صاحب مولانا وجیہ الرحمن عرف لعل بابو سے مولانا مرحوم نے چند ابتدائی کتابیں پڑھی تھی، والد صاحب بتا رہے تھے کہ جب بھی الہ آباد سے گھر آتے تو ملاقات کے لئے آتے اور کچھ نہ کچھ ہدیۃً ضرور پیش کرتے تھے۔

 اسی طرح مولانا میں رشتوں کا پاس و لحاظ بہت تھا، قریب و دور کے تمام رشتہ داروں کے یہاں آنا جانا اور اپنی حیثیت کے مطابق سب کو کچھ نہ کچھ دینا، مولانا کی فطرت تھی؛ مولانا کی مالی حیثیت بہت اچھی نہیں تھی مگر دل کشادہ تھا اور ظرف وسیع تھا، بہنیں جن کے بچے جوان ہو گئے، پھر بھی تا حال ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور بقدرِ وسعت تعاون کرتے تھے؛ ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر اور اس کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہتے تھے؛ گاؤں میں عموماً ہر ایک کو کسی نہ کسی سے کبھی نہ کبھی کوئی ناچاقی ہو جاتی ہے مگر میں نے مولانا کے بارے میں کبھی اس طرح کی کوئی بات نہیں سنی۔

میانہ قد، درمیانہ قامت، گول چہرہ، صاف رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، آنکھوں پر عینک، چوڑی پیشانی اور چہرے پر گھنی ڈاڑھی، یہ مولانا کا سراپا تھا؛ مولانا کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی و تدریسی زندگی کے متعلق اس حقیر کو زیادہ معلومات نہیں ہے، بس مولانا سے تعلقِ خاطر کی بنیاد پر  چند سطر قلمبند کر دیا ہے، اللہ رب العزت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی خوشنودی عطاء فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل و نعم البدل عطاء فرمائے۔ آمین

1 Comment

  1. Mohd Aktar khan

    Allah marhum ke darje ko Buland kare
    Aur Jannat mein Ala se Ala makam ata Karen

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *