اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست... قسطِ ثانی
اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست... قسطِ ثانی

اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست… قسطِ ثانی

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

مجلس کے قیام کا پس منظر

      ماقبل کی تحریر میں اسد الدین اویسی صاحب کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی تھی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسد  صاحب جس جماعت کے صدر اور ایم پی ہیں، اس پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے؛ کیوں کہ اس جماعت کا ماضی بہت متنازعہ رہا ہے، اس پر ہندوؤں کے خلاف سازش اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا الزام لگایا جاتا ہے؛ بالخصوص بھارت سے حیدرآباد کے الحاق کے وقت اس کے کارکن کی آزاد ریاست کے لئے جد و جہد کو منفی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر فرقہ پرست جماعتیں ہندوستان کے تئیں اس کی وفاداری پر سوال اٹھاتی رہتی ہیں؛ اسی لئے ضروری ہے کہ اس جماعت کی مختصر تاریخ ہمارے سامنے آ جائے، تاکہ جب ہم موجودہ سیاست کے پس منظر میں اس جماعت سے سیاسی وابستگی یا عدم وابستگی اور طریقۂ سیاست پر گفتگو کریں تو درست سمت میں گفتگو ہو۔

انڈیا ایکٹ

برطانوی سامراج میں جب ہندوستانیوں کی طرف سے آزادی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو انگریز نے ١٩١٩ء میں ایک قانون بنایا، جسے  انڈیا ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے؛ اس قانون کا مقصد ہندوستانیوں کو محدود سیاسی اختیارات دینا اور برطانوی راج کو مزید مضبوط کرنا تھا؛ اس قانون کے تحت پہلی بار ہندوستانیوں کو حکومت میں شامل کیا گیا اور صوبائی حکومت کے اختیارات محدود کرکے زیادہ تر اختیارات مرکز کو دے دیا گیا؛ اس وقت ہندوستان کی تقریباً تمام ریاستیں بالواسطہ یا بلاواسطہ انگریزی حکومت کے ماتحت تھیں سوائے ایک دو آزاد ریاست کے؛ ان آزاد ریاست میں دکن بھی تھا، جس کا پایۂ تخت حیدرآباد تھا؛ سلطنت آصفیہ کے ساتویں تاجدار نظام میر عثمان علی خان بہادر اس وقت شہ نشیں تھے، کہا جاتا ہے کہ ان کی حکومت برطانیہ سے دوستانہ مراسم تھے اور جنگ عظیم دوم میں انہوں نے خطیر رقم سے مدد بھی کی تھی۔

نظام حکومت

یہ بات کچھ فرقہ پرست طاقتوں کو  بالکل ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض پندرہ فیصد ہے، زمامِ حکومت ان کے ہاتھ میں ہو اور آزاد ہو؛ چنانچہ انہوں نے نظام حکومت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ شروع کیا، اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں آریہ سماج تحریک نے جنم لیا، اس تحریک کا مقصد مسلمان اور نظام حکومت کو بطورِ ہندو مخالف پیش کرکے ہندو عوام کو ورغلانا اور ریاست کے امن و امان اور بھائی چارہ کو ختم کرنا تھا؛ اس تحریک کو ہوا دینے میں کانگریسیوں کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ انڈیا ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے تمام ریاستوں میں کچھ نہ کچھ دخل ان کو حاصل ہو گیا تھا لیکن ریاست حیدر آباد میں کانگریس کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی طرح کی کسی سیاسی سرگرمی کی انہیں اجازت تھی؛ اسی لئے کانگریسیوں نے اندرونِ ریاست موجود تنظیم”ہندو مہا سبھا“ اور”آریہ سماج تحریک“ کی مدد سے ریاست میں شورش و فساد برپا کرنے کے لیے ہندوؤں کے خلاف مظالم کی فرضی داستان سنا کر ہندو مسلمان کے درمیان بعد پیدا کرنا شروع کر دیا۔
مجلس اتحاد المسلمین
ان حالات نے باشعور مسلمانوں میں بے چینی پیدا کر دی، بالخصوص مسلمان جاگیر دار اور نوابوں کو ریاست میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے  تشویش لاحق ہوئی؛ چنانچہ مسلمانوں کے تحفظ اور مستقبل میں پیش آمدہ حالات سے نبرد آزمانے ہونے اور آپس میں اتحاد و اتفاق کی غرض سے متحدہ پلیٹ فارم بنانے کی حکمت پر غور کرنا شروع کیا، جس کی سرپرستی نواب بہادر یار جنگ  کر رہے تھے؛ انہوں نے نواب محمود نواز خان، مولوی فتح اللہ خان اور عبد القدير صدیقی حسرت کے ذمے اس کام کو سپرد کیا اور نواب محمود کو اس کا سربراہ بنایا؛ ان حضرات نے باہمی مشورہ سے سرکاری ریکارڈ کے مطابق نومبر ١٩٢٧ء (بعض تاریخ میں سال ١٩٢٦ء) میں مجلس اتحاد بین المسلمین کے نام سے تنظیم کی بناء ڈالی اور بالاتفاق نواب محمود نواز خان کو صدر منتخب کیا، نواب بہادر یار جنگ اس کے سرپرست رہے؛ ١٩٢٩ء میں اس تنظیم کے نام میں جزوی تبدیلی کرتے ہوئے اسے مجلس اتحاد المسلمین کردیا گیا، اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا اور تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعور بیدار کرنا تھا۔

رضار کار

١٩٣٥ء میں نواب بہادر یار جنگ مجلس کے صدر بنے، انہوں نے اپنے دور صدارت میں مجلس کو منظم کیا اور ”رضار کار“ کے نام سے خدمت گاروں کی ایک جماعت تیار کی اور باضابطہ انہیں ٹریننگ دی تاکہ حیدرآباد کی آزادی کی بقاء کے لئے مسلح جدوجہد کی ضرورت پڑے تو یہ اس کے لئے کام آ سکیں؛ پھر ١٩٤٦ء میں قاسم رضوی اس کے صدر بنے، انہوں نے اپنے زبان و بیان سے شعلہ بیانی کا کام لیتے ہوئے ان میں اپنی ریاست کے تحفظ کے لئے قربانی کا جذبہ بھر دیا؛ ادھر ملک میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی رہی تا آنکہ بٹوارہ کے ساتھ ملک کی آزادی کا فیصلہ ہو گیا اور اس کا مسودہ تیار ہو گیا؛مسودہ میں حیدر آباد کی خود مختاری کے معاہدہ سے بد عہدی کی وجہ سے ١١جون ١٩٤٧ء کو نظام فرماں رواں میر عثمان علی خان بہادر نےپاکستان و ہندوستان دونوں سے الحاق کے بجائے اپنی آزادی اور حیدرآباد کے خودمختار ریاست ہونے کا اعلان کردیا۔

میر عثمان علی اور قاسم رضوی 

آزادی کے بعد سے مستقل بھارتی حکومت کی جانب سے حیدرآباد کے بھارت میں ضم کا مطالبہ ہوتا رہا، جسے میر عثمان علی اور قاسم رضوی  صاف صاف ٹھکراتے رہے؛ دور اندیش مسلم قائدین نے انہیں اپنی شرائط پر ہندوستان سے الحاق کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے اسے لائقِ توجہ نہیں سمجھا؛ مشورہ دینے والوں میں مولانا مودودی بھی تھے، انہوں نے نظام کے نام باضابطہ خط لکھا لیکن قاسم رضوی نے یہ خط نظام تک پہنچنے نہیں دیا، آپ نے لکھا کہ: ”حیدر آباد کے مسلمانوں پر اگر ایک طرف خود گھر کی اکثریت دوسری طرف گردو نواح کے علاقوں کے مسلح ہندو جتھے اور تیسری طرف انڈین یونین کی فوجیں ٹوٹ پڑیں اور خود ریاست کے نظم و نسق نے ان کا ساتھ نہ دیا تو ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی نہ کہیں سے وہ مدد پاسکیں گے اور نہ وہ کہیں جا سکیں گے؛ اسی بنا پر میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ لوگ اس فرق کو جو سردست آپ کی حالت اور ہندستان کے مسلمانوں کی حالت میں پایا جاتا ہے کوئی بہت بڑا پا ئیدار اور قابل اعتماد فرق نہ سمجھیں اور ان چند مہینوں کی مہلت کو جو خوش قسمتی سے آپ کو مل گئی ہے، ضائع کرنے کے بجائے ایسا لائحۂ عمل بنانے میں صرف کریں، جس سے مسلمانانِ حیدر آباد کی نہ صرف یہ کہ جان و مال اور آبرو بچ جائے بلکہ ان کو ایک بہتر اور زیادہ شاندار مستقبل تک پہنچنے کا راستہ مل جائے“؛ (خطوطِ مودودی، صفحہ ٣١١،مطبوعہ منشورات لاہور پاکستان)۔
نظامِ حیدرآباد
بھارتی حکومت اور نظامِ حیدرآباد کے درمیان صورت حال اسی طرح کشمکش کی بنی رہی، معاہدے ہوتے رہے ٹوٹتے رہے اور نظام  اقوام متحدہ کے ذریعہ خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے؛ اسی رسہ کشی میں وقت گزرتا رہا اور آزادی کے ٹھیک ایک سال بعد ١٣ ستمبر ١٩٤٨ء کو بھارتی فوج نے حیدرآباد پر حملہ کر دیا اور ہر چہار جانب سے حیدرآباد کو گھر لیا؛ نظام نے تیس ہزار ٹرینڈ اور چالیس ہزار نیم ٹرینڈ فوج کے باوجود مقابلہ نہیں کیا، قاسم رضوی نے اپنے  نہتے رضاکاروں کے ساتھ مقابلہ تو کیا لیکن بھارتی فوج کے سامنے جم نہ سکے؛ چالیس ہزار سے زائدرضاکار مارے گئے، پانچ دن کی جنگ کے بعد ١٨ ستمبر کو رضاکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے؛ اس بیچ نظام کے فوجی سربراہ نے بھارتی فوج کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور یوں ایک آزاد مسلم ریاست کو بھی بھارتی حکومت بزور طاقت اپنے ساتھ ضم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
پولیس ایکشن
حیدرآباد پر بھارتی حملہ کو تاریخ میں”پولیس ایکشن“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پولیس نے کامیابی کے نشہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ مل کر عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے؛ بعض تاریخی حوالوں سے تقریباً پانچ لاکھ مسلمان اس موقع پر شہید کئے گئے اور بےشمار خواتین کی عفت و عصمت کو تار تار کیا گیا؛ قاسم رضوی کو گرفتار کر لیا گیا اور مجلس اتحاد المسلمین پر پابندی لگا دی گئی؛ ١٩٥٧ء میں قاسم رضوی کو جیل سے اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ حیدرآباد میں نہیں رہیں گے اور پاکستان چلے جائیں گے؛ چنانچہ وہ جیل سے رہا ہوئے اور پاکستان جانے سے قبل کالعدم مجلس اتحاد المسلمین کی باگ ڈور مجلس کے ایک قدیم رکن عبد الوحيد اویسی کےسپرد کر دیا؛ عبدالوحید اویسی نے  مجلس کے نام میں جزوی تبدیلی کی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے نام سے دوبارہ متعارف کرایا، یہ مجلس کی نشأۃ ثانیہ تھی؛ اس کے ارکان نے بھارتی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے نئے اصول وضع کیے اور بھارتی آئین میں اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق کے تحفظ کے لئے فعال سیاست میں حصہ لے کر از سرِ نو جدوجہد شروع کی اور یہ جدوجہد آج تک جاری ہے۔
:مصادر و مراجع
زوالِ حیدرآباد اور پولیس ایکشن از محمد مظہر الدین
حیدر آباد کا عروج و زوال از بدر شکیب
زوالِ حیدر آباد کی ان کہی داستان از محمد احمد ترازی
حیدر آباد جو کبھی تھا از رئیس احمد جعفری
...جاری
One thought on “اسد الدین اویسی کی شخصیت اور سیاست… قسطِ ثانی”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »