سیلاب زدگان کی امداد میں علماء و أئمہ کا مثالی کردار
سیلاب زدگان کی امداد میں علماء و أئمہ کا مثالی کردار

سیلاب زدگان کی امداد میں علماء و أئمہ کا مثالی کردار

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

بہار میں بھیانک سیلاب

اس وقت  بہار کے شمال مشرق کے تقریباً گیارہ اضلاع بھیانک سیلاب کی زد میں ہے، اس سیلاب نے جان و مال کا بڑا نقصان کیا ہے، پوری کی پوری بستی غرق ہو گئ اور لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پانی کی نذر ہو گئی؛ اس میں ضلع دربھنگہ اور سہرسہ بہت زیادہ متاثر ہے، کوسی ندی سے لگی بستیوں میں اس حقیر کا نانیہال جمال پور اور اس سے متصل بستی جھگڑوا، بھبھول، کھینسا، جلئ وغیرہ میں زیادہ نقصان ہوا ہے؛ قدرتی آفت کی اس گھڑی میں عوام بالخصوص علماء کرام و أئمہ عظام نے مصیبت زدہ لوگوں کی جس فراخ دلی سے مدد کی ہے اور کر رہے ہیں، یہ قابلِ صد آفریں ہے اور ماضی میں اس طرح باہمی تعاون کا جذبہ بہت کم دیکھنے کو ملا ہے؛ حکومتی سطح پر راحت کاری کا کام نہ کہ برابر ہو رہا ہے، جو کچھ راحت کا کام ہو رہا ہے، اس میں ملی تنظیمیں امارت شرعیہ پٹنہ اور ملی کونسل کے علاوہ  ارد گرد کے غیر متأثرہ علاقوں کی عوام پیش پیش ہے اور اس میں بڑا رول  علماء کرام و أئمہ عظام ادا کر رہے ہیں۔

خدمت خلق کی فضیلت

تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، جس سے حسن سلوک دنیوی و اخروی فلاح کی ضمانت ہے، حضرت انس ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مخلوق اللہ کی عیال (زیر کفالت) ہے اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے“؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمتِ خلق کی فضیلت بیان نہیں فرمائی بلکہ خدمت کے حوالے سے ایسا نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اعلانِ نبوت سے قبل اور بعد کی آپ ﷺ کی پوری زندگی خدمت انسانی سے عبارت ہے؛ معاشرے کے یتیموں، بے کسوں، بیواؤں، مجبوروں اور مقہور افراد کی داد رسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تھا اور کیوں نہ ہو؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت قرار دیا ہے، مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی، انسان کہے گا تو سارے جہاں کا پروردگار ہے، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گیا، اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا؛ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے کھانا نہیں دیا، انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا، اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا؛ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، انسان عرض کرے گا: اے دونوں جہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے کیسے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا“۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلاة، باب فضل عیادة المریض)

خدمت رضائے الہی کا سبب

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مخلوق کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کی خدمت کرنا ہے، جس طرح اللہ کی عبادت دین ہے اسی طرح بندوں کی خدمت بھی دین ہےاور  حاجت مندوں کی مدد کرنا، مشکل حالات سے دو چار انسانوں کو سہارا دینا، رضائے الٰہی کا سبب ہے؛ خدمتِ خلق کے ذریعے بندوں کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے، باہمی قربت حاصل ہوتی ہے، آپس کی رنجش دور ہوتی ہے اور انسانیت کو فروغ ملتا ہے؛ علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارثین ہیں، ان وارثین نے ہر دور میں اپنے کردار و عمل سے نبیوں والے کردار کا نمونہ پیش کیا ہے؛ یوں تو ان کا کام علم و معرفت کی محفل سجا کر طالبانِ علوم نبویہ کو اخلاق نبوی ﷺ کے پیکر میں ڈھال کر انسانوں کی کھیپ تیار کرنا ہے لیکن جب کبھی ضرورت محسوس کی  خدمتِ خلق کی تو اس کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کی، جس کے انمٹ نقوش تاریخ کے اوراق میں بھرے پڑے ہیں۔
علماء و آئمہ کی محنت
اس موقع پر بھی ہم  علماء و أئمہ کی خدمتِ خلق کا مظاہرہ سر کی آنکھوں دیکھ رہے ہیں، کتنے سارے ائمہ و علماء کے فون اس حقیر کے پاس آئے کہ آپ رہنمائی فرمائیں کہ ہم لوگ کیا کیا سامان لے کر جائیں اور کیسے ضرورت مندوں تک پہنچیں؟ اس حقیر نے ہر ایک کی رہنمائی کی؛ رات ایک فون ایسی بستی کے امام صاحب کا آیا، جہاں مسلمان بہت کم ہیں اور خستہ حال ہیں، مجھے وہاں کے لوگوں کے جذبہ پر بہت رشک آیا؛ اسی پر بس نہیں کہ یہ ائمہ و علماء عوام کو خدمت کے لئے ابھار رہے ہیں بلکہ خود ہی فنڈز بھی اکٹھا کر رہے ہیں، سامان پیک بھی کر رہے ہیں اور خود جا کر تقسیم بھی کر رہے ہیں؛ ایک تصویر ایسی بھی نظر سے گذری کہ ایک عالم دین کشتی سے سامان تقسیم کر رہے ہیں، جب کشتی رک گئی تو خود کمر تک کے پانی میں اتر گئے اور دونوں ہاتھوں میں تھیلا اٹھائے مستحقین تک پہنچا رہے ہیں؛ خدمت کا یہ جذبہ قابلِ رشک ہے؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ علماء کچھ نہیں کرتے ہیں، وہ دیکھیں کہ اسلام کی تعلیم نے  آقائے نامدار تاجدارِ مدینہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے سچے جانشینوں کے دلوں میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ کس قدر بھر دیا ہے کہ اپنی جانوں کا پرواہ کیے بغیر حقِ خدمت ادا کر رہے ہیں۔
کس مپرسی کے اس عالم میں جو لوگ بھی مخلوقِ خدا کی خدمت کر رہے ہیں، یقیناً یہ انسانی ہمدردی کا اعلیٰ و بےمثال نمونہ پیش کر رہے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تبارک و تعالٰی کا وعدہ ہے کہ اس کے بندوں کی فکر کرنے والوں کی محنت کو وہ رائیگاں نہیں فرمائے گا بلکہ دونوں جہاں میں اس کی ضرورت پوری کرے گا؛  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس سے کنارہ کرتا ہے، جو آدمی اپنے بھائی کا کوئی مسئلہ حل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بھی حاجت پوری کرتا رہتا ہے اور جس نے اپنے بھائی کے دکھ میں حصہ لیا، اللہ قیامت کے دن اس کی مشکل میں سے ایک مشکل کو دور کردے گا اور جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی، اللہ قیامت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم)
اللہ رب العزت ان خدمت گاروں کے حوصلے سلامت رکھے، سفر کٹھن ہے اور منزل ابھی بہت دور ہے، اس قدر تباہی ہے کہ مہینوں لگیں گے سب کچھ اپنے معمول پر آنے میں؛ اس لئے مخلوقِ خدا کی خدمت کا سلسلہ جاری رہے اور جو لوگ کنارے بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں، ان سے بھی درخواست ہے کہ آپ بھی جس طرح تعاون کر سکتے ہیں، ضرور کریں؛ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سیلاب زدگان کے تعاون میں جن لوگوں نے حصہ لیا، جس قدر بھی حصہ لیا اور لے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور انہیں دارین کی سعادت سے مالا مال فرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »