وقف اجلاس کے بہانے برتری کی لڑائی
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اتحاد کی دعوت انتشار کے ساتھ
بہت پہلے کہیں پڑھا تھاکہ ١٩٦٧ء کے عرب اسرائیل جنگ کے زمانہ میں ایک انگریز سیاح ہندوستان آیا، وہ دہلی کی سیر کرتے ہوئے ایک جگہ سے گزرا تو دیکھا کہ ایک جلسہ ہو رہا ہے جس میں بہت سارے علماء ہیں اور سب عرب حکمرانوں کو للکارتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اےعربو! متحد ہو جاؤ، اب بھی متحد نہ ہوئے تو تباہ ہو جاؤگے؛ تھوڑا آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک اور جلسہ ہو رہا ہے اور وہاں بھی علماء، اہلِ عرب کو چیخ چیخ کر اتحاد و اتفاق کی دعوت دے رہے ہیں، پہلا جلسہ کسی اور مسلک والوں کا تھا، دوسرا کسی اور مسلک والوں کا؛ یہ منظر دیکھ کر انگریز سیاح نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ایک شہر میں رہتے ہوئے ایک ساتھ مشترکہ اجلاس کرنے پر اتحاد و اتفاق نہیں کر سکتے ہیں، وہ یہاں سے ہزاروں میل دور رہنے والوں کو اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں تو اس کا کیا اثر ہوگا؟
قائدین کا حال
یہ کہاں پڑھا تھا؟ یہ تو یاد نہیں ہے لیکن اس میں ہماری ملی تنظیموں اور اس کے قائدین کے قول و عمل میں تضاد کی سچی تصویر کشی ہے؛ یہ حضرات رات و دن عوام کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں مگر جب معاملہ اپنے پر آتا ہے تو انتشار پھیلانے سے باز نہیں رہتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اس پر دین کا لیبل لگا کر اپنے مذموم حرکت کو عین موافقِ اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ان باتوں کے لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ آج جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں ایک وقف کانفرنس ہو رہا ہے، اس میں بعض مسلم ایم پی، جوائنٹ پارلیمنٹ کمیشن کے مسلم ممبران کے علاوہ امارت شرعیہ پٹنہ کے امیر شریعت جناب احمد ولی فیصل صاحب مد ظلہ العالی شرکت فرما رہے ہیں؛ آج سے ٹھیک دو دن بعد اسی شہر میں ایک اور وقف کانفرنس ہونے والا ہے، جس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کے علاوہ جنرل سیکرٹری مولانا فضل الرحمن مجددی صاحب اور دیگر ارکانِ بورڈ شریک ہوں گے؛ پہلا کانفرنس عبد الرزاق انصاری ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سنٹر اربا کے بینر تلے ہو رہا ہے، اس کے کنوینر جناب انوار انصاری ہیں اور دوسرا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت ہو رہا ہے اور اس کے کنوینر ڈاکٹر مولانا یاسین قاسمی رکن بورڈ ہیں۔
تحفظ اوقاف کانفرنس
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے ہونے والے کانفرنس کی تاریخ دس ستمبر کو کلکتہ میں ہوئے کانفرنس میں طے ہو گیا تھا، پھر اچانک کیا ہو گیا کہ اسی شہر میں تین دن قبل ایک غیر معروف تنظیم کے تحت ایک دوسرے کانفرنس کا اعلان کر دیا گیا؟ اس کا واقعی سبب تو اللہ رب العزت بہتر جانتا ہے لیکن اخباری رپورٹ، دونوں جانب کے سوشل میڈیا پر وضاحتی بیانات اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری صاحب کی جانب سے امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کے نام خط سے حاصل ہونے والی معلومات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ دونوں کانفرنس کا مقصد تحفظ اوقاف کم اور اپنی طاقت و قوت کا مظاہرہ زیادہ ہے اور کانفرنس کے بہانے اپنی برتری ثابت کرنے کی جدوجہد ہے؛ ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ ان دونوں کانفرنس کے انعقاد میں پیش پیش رہنے والے افراد کے حرکت و عمل سے ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے، مثلاً چھ اکتوبر کے کانفرنس میں امیر شریعت فیصل صاحب کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ وہ بورڈ کے سکریٹری ہیں اور امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے تحفظ اوقاف کے سلسلے میں ہر طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں؛ مزید یہ کہ یہ کانفرنس ایک ایسے صوبہ میں ہو رہا ہے، جہاں کے وہ امیر شریعت ہیں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری بھی ہیں، پھر بھی مدعو نہ کیا جائے تو کیا سمجھا جائے گا؟ اس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اعلیٰ قائدین کی بھی کوتاہی ہے کہ بورڈ کے ماتحت ارکان کے اس قسم کے عمل پر گرفت کیوں نہیں کی گئی؟
دوسری طرف امیر شریعت کے چاہنے والوں نے بھی اسی کا ترکی بترکی جواب دیتے ہوئے اس سے قبل ہی ایک کانفرنس رکھ دیا، اس پروگرام کے تعلق سے جب سوال اٹھے تو کنوینر صاحب نے صفائی پیش کی کہ چھ اکتوبر والے پروگرام کے مقابلہ میں یہ پروگرام نہیں رکھا گیا ہے اور نہ ہی اس میں امارت شرعیہ کا کوئی دخل ہے بلکہ یہ پروگرام پہلے سے طے تھا؛ اگر کنوینر صاحب کی بات مان لی جائے تب بھی یہ سوال ہے کہ اس میں ان ہی لوگوں کو کیوں مدعو کیا گیا؟ جنہیں چھ اکتوبر میں مدعو نہیں کیا گیا تھا اورانہیں کیوں مدعو نہیں کیا گیا جو بعد والے پروگرام میں مدعو ہیں؟ مزید یہ کہ اس پروگرام کا تعلق امارت سے نہیں ہے تو پھر اس کی کامیابی کے لیے امارت شرعیہ اور خانقاہ رحمانی کے اساتذہ و ملازمین کو کیوں استعمال کیا گیا؟ پھر یہ کہ اگر دونوں کا مقصد نیک ہے تو اگر ایک ہی شہر میں دو دو کانفرنس ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اور دونوں جانب کے لوگ ایک دوسرے پر الزام کیوں لگا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پروگرام میں شرکت سے عوام کو کیوں منع کر رہے ہیں؟
وقف کے مسئلہ کا حل
اول تو یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ اوقاف کا تحفظ کانفرنس سے کیسے ہوگا؟ ملی تنظیموں کی جانب سے کانفرنس کا یہ کھیل سوائے وقت اور پیسہ کے ضیاع کے کچھ نہیں ہے؛ چلئے مان لیتے ہیں کہ مسلمانوں میں بیداری کی غرض سے اور حالات کے مطابق اگلا قدم اٹھانے میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ خود ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے ہیں، ان کی بات کا اثر عوام پر کیا پڑے گا اور اس سے امت متحد ہوگی یا مزید منتشر ہوگی؟ ظاہر ہے کہ دوسری بات کا زیادہ امکان ہے؛نیز امت میں بیداری اور بورڈ کے پیغام کو پہنچانے کا کام بغیر کسی خرچ اور شور شرابہ کے اماموں سے لیا جا سکتا ہے تو انہیں کی رہنمائی کرکے ان سے ہی کام لیا جائے اور امام حضرات ہمہ وقت اس کام کے لیے تیار ہیں؛ تیسری بات یہ ہے کہ بورڈ کے ارکان کے اس قسم کے حرکات سے بورڈ کا وقار مجروح ہوتا ہے، بورڈ کے اعلیٰ عہدے داران ان سب پر نگاہ کیوں نہیں رکھتے ہیں؟ اور اس طرح کی حرکت کرنے والوں کی سخت باز پرس کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اس معاملہ بھی وقت رہتے دونوں فریق کو سمجھانے بجھانے کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے تھی، جو نہیں کی گئی، کیوں نہیں کی گئی؟یہ کئی طرح کے سوالات پیدا کرتے ہیں ۔
ان سب باتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب قوم و ملت کے مفاد کے لئے نہیں ہو رہا ہے، بس اپنی قیادت کا سکہ جمانے اور اپنی انا کی تسکین کے لیے ہو رہا ہے؛ لہذا یہ کانفرنس والا کھیل بند ہونا چاہیے، وقف املاک کا معاملہ بہت حساس اور نازک مسئلہ ہے اور حکومت کا اصرار بتا رہا ہے کہ وہ ہر حال میں پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بل پیش کرکے پاس کروانے کی کوشش کرے گی؛ پس اس کو روکنے کے لیے مؤثر اقدام پر غور و فکر کرنا چاہیے اور جلد از جلد اس پر عمل درآمد شروع کر دینا چاہیے۔