بے حیائی کے مناظر اور ہمارے معاشرے کا المیہ
بے حیائی کے مناظر اور ہمارے معاشرے کا المیہ

بے حیائی کے مناظر اور ہمارے معاشرے کا المیہ

                    امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

حیاء انسان کی فطری خوبیوں میں سے ایک ایسی عظیم صفت ہے جو نہ صرف اخلاقی بلندی عطاء کرتی ہے بلکہ روحانی پاکیزگی اور معاشرتی حسن کا ذریعہ بھی بنتی ہے؛ حیاء نام ہے شرم، جھجک یا نفسانی ناپسندیدگی کا اور شریعت میں حیاء دل کی وہ کیفیت ہے جو انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکی کی طرف مائل کرتی ہے؛ اسی لئے شریعت مطہرہ میں حیاء پر بہت زور دیا گیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:” الحیاء شعبة من الإيمان “یعنی حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (صحیح بخاری)

حیاء کا تعلق صرف لباس یا ظاہری رکھ رکھاؤ سے نہیں بلکہ یہ ایک باطنی کیفیت ہے جو انسان کے قول، فعل، نظر، نیت حتیٰ کہ سوچ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے؛ حیاء انسان کو فحاشی، جھوٹ، چغل خوری، بدزبانی اور ہر قسم کی برائی سے بچاتی ہے؛ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا ہر ایک کے لیے حیاء ایمان کا حصہ اور انسانیت کا زیور ہے؛ مگر افسوس امت سے جس طرح خیر کی دیگر چیزیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی جا رہی ہیں اور شر پاؤں پسارے جا رہا ہے؛ اسی طرح حیاء بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے اور بے حیائی جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔

بے حیائی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب جدید فیشن اور مغربی تہذیب و طرزِ معاشرت کی اندھی تقلید ہے، حالانکہ خود مغربی معاشرہ اسی غیر فطری طرزِ زندگی کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے اور فطرت سے بغاوت کا انجام یہی ہوتا ہے؛ مغربی تہذیب کی بربادی کے بے شمار واقعات روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں، ہم انہیں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن افسوس! اس کے باوجود ہماری قوم اسی گمراہ کن تہذیب کے پیچھے اندھی اور بہری بن کر دوڑی چلی جا رہی ہے۔

حالیہ دنوں بے حیائی کے دو ایسے عبرت انگیز واقعات دیکھنے سننے کو ملے کہ گھنٹوں یقین کرنا مشکل رہا، آپ بھی پڑھئیے اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگائیے!اتوار کا دن تھا، چھٹی کا موقع تھا، سر اور ڈاڑھی کے بال بے ترتیب تھے، سوچا حجامت بنوا لی جائے؛ حجام (غیر مسلم) کو فون کیا، اس نے کہا آجائیں؛چنانچہ سیلون پہنچا اور بال درست کروانے لگا؛ اسی دوران دوسرا کاریگر آیا تو وہ بولا: فلاں جگہ ایک مسلمان کے گھر جا کر لڑکیوں کی بھنویں (ابرو) بنانی ہیں، کیا تم چلے جاؤ گے؟اس نے جواب دیا:نہیں! آپ ہی جائیں، مجھ سے لڑکیوں کا بنانا نہیں ہوگا۔

وہیں ایک مسلم نوجوان بھی بیٹھا تھا، اُس نے فوراً سوال کیا: تم ابرو بناتے ہو یا تمہارے گھر کی لڑکیاں؟ اس پر اُس نے کہا: میں ہی بناتا ہوں اور تمہارے لوگوں کے گھروں میں لڑکیوں کی بھنویں بنانے جاتا رہتا ہوں؛ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی، حیرت سے گم صم رہ گیا؛ بعد میں اُسے فون کر کے بارہا اصرار کیا کہ بتاؤ وہ گاؤں اور گھر کون سا ہے تاکہ اصلاح کی کوشش کی جا سکے مگر اس نے کچھ نہیں بتایا؛ ذرا سوچیے! بے حیائی ہمارے معاشرے میں کہاں تک سرایت کر چکی ہے؛ اب غیر مسلم مرد مسلمان گھرانوں میں جا کر ہماری بہنوں، بیٹیوں کے چہروں پر حسن سازی کر رہے ہیں اور گھر کے ذمہ دار افراد خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

ایک واقعہ ہفتہ عشرہ قبل اور پیش آیا وہ بھی پڑھ لیجئے! ہم دفتر سے واپسی پر مدھوبنی میڈیکل کالج کے سامنے ایک چائے خانہ پر رکے، سامنے صحن میں ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا،وہاں اور دیگر لوگ بھی موجود تھے؛ لڑکی نے جدید فیشن کا شرٹ نما لباس پہن رکھا تھا، جس پر سفید ڈاکٹری کوٹ بھی تھا، سر پر اسکارف تھا لیکن چہرہ مکمل نمایاں تھا؛ بات چیت سے وہ مسلمان لگ رہی تھی، وہ دونوں آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے؛ لڑکا بار بار اس کے رخسار کو چھو رہا تھا اور انہیں اردگرد موجود افراد کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں تھا۔

یہ دونوں واقعات ہماری نئی نسل کی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی کھلی تصویر ہے، جب سے یہ سب دیکھا ہوں، تب سے میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ آخر اس امت کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے اور دانستہ یہ کس تاریکی، کس پستی اور کس ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ والدین اور سرپرست حضرات کی طرف سے بھی سنجیدگی کے ساتھ اس بے حیائی پر کوئی روک ٹوک نظر نہیں آتی؛ یاد رکھئیے! یہ بے حیائی صرف بداخلاقی تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہی وہ چور دروازہ ہے، جہاں سے ارتداد اور دین سے دوری داخل ہوتی ہے۔

یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اس سیلاب کو کیسے روکا جائے؟ اگر آج ہم نے اس کے آگے بند نہ باندھا تو کل یہ ہمارے گھروں، خاندانوں اور معاشرے کو تباہ کر دے گا اور پھر دنیا و آخرت دونوں جگہ رسوائی ہمارا مقدر بنے گی؛ اللہ تعالیٰ ہمیں غیرت، بصیرت اور عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Translate »