امارت شرعیہ: امانت کا تحفظ یا اقتدار کی کشمکش…؟
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
بائیس اور پچیس تاریخ کو پٹنہ کی سرزمین دو مختلف جلسوں کی گواہ بنی، مقامات جداگانہ تھے، شرکاء بھی مختلف مگر دعویٰ یکساں کہ امارتِ شرعیہ کے اصل ذمہ دار ہم ہیں اور اکابرِ امت کی اس عظیم امانت کے سچے امین و پاسبان بھی ہم ہی ہیں؛ جب کہ دوسرا گروہ بددیانت، بدنیت اور امارتِ شرعیہ کی ساکھ کو مجروح کرنے والا ہے، جو اس مقدس ادارہ کو محض اپنے ذاتی و خاندانی مفادات کی نذر کرنا چاہتا ہے؛ شرکاء کی اکثریت اسی دعوے کی مالا جپتی رہی إلا ماشاء اللہ ۔
امارتِ شرعیہ جو کبھی اتحادِ ملت کی علامت ہوا کرتی تھی، آج اسی عظمت شعار ادارے کے پرچم تلے مناصب کی خواہش میں جکڑے ہوئے علماء ایک دوسرے کو گمراہ، نااہل اور زر پرست قرار دینے میں نہ شرم محسوس کر رہے ہیں نہ ہی ان میں خدا کا کوئی خوف باقی رہ گیا ہے؛ زبان کی آلودگی اور طرزِ کلام کی پستی جس درجہ کو پہنچی، وہ کسی بھی شرعی ادارے کے ذمہ داران کے شایانِ شان نہیں کہی جا سکتی، اگر یقین نہ آئے تو دونوں اجلاسوں کی ویڈیوز ملاحظہ فرما لیجیے۔
حضرت امیر شریعت سابع رحمہ اللہ کے مسند نشیں ہوتے ہی امارت میں گروپ بندی شروع ہو گئی تھی مگر ان کے دور میں دوسرا گروپ کمزور تھا تو خاموشی میں عافیت جان کر خاموش رہا اور اندرون خانہ کھچڑی پکتی رہی؛اسی گروپ بندی کا اثر تھا کہ آپ کے انتقال کے بعد امیر شریعت کے انتخاب کے وقت کئی شرمناک واقعات رونما ہوئے البتہ کسی نہ کسی طرح ووٹ کی طاقت سے ایک گروپ غالب آ گیا اور امیر شریعت ثامن کی حیثیت سے امیر کی کرسی پر براجمان ہو گئے، یہ الگ بات ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے شریعت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا۔
شکست خوردہ دوسرا گروپ امیر شریعت سادس کے اخیر دور میں جب کہ آپ علیل تھے، ان کی علالت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امارت کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ؛ امارت کے اصول و ضوابط ایک طرف اور موصوف کی من مرضی ایک طرف، ذاتی خواہشات کے مطابق فیصلے صادر کرنے کے لیے امارت کے اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا اور سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لئے تحریف سے بھی باز نہیں آئے ؛ کہتے ہیں نا” چاہ کن را چاہ در پیش “، امیر شریعت سابع نے انہیں کے تحریف شدہ اصول کا سہارا لے کر موصوف کو امارت سے بے دخل کردیا تھا، اسی بات کی کسک دل میں تھی اور باپ کا انتقام بھی بیٹے سے لینا تھا۔
چنانچہ اس نے اپنے داؤ پیچ سے اس گروپ کے خواص کو ساتھ ملایا، زمین تیار کی اور حملہ آور ہو گئے؛ پھر شروع ہوا رکیک الزامات کا دور، ہر ایک اپنے آپ کو پاک و منزہ اور دوسرے کو پراگندہ ثابت کرنے میں مصروف ہے؛ وقف کے خلاف احتجاج کے بہانے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے عنوان بدل بدل کر جلسے کئے جا رہے ہیں، عقیدت مندوں کی بھیڑ لگا کر جے جے کار کے نعرے لگوائے جا رہے؛ ہر قدم کو تاریخی کہا جا رہا ہے اور زندگی کے ہر لمحے کی ویڈیو اور تصویری جھلکیاں سوشل میڈیا پر خوب نشر کی جا رہی ہیں اور بیچاری قوم ہے کہ حیرت کے عالم میں تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
دونوں گروہوں کے حامیوں کا حال اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہے؛ گالم گلوچ، بہتان تراشی، دشنام طرازی، یہ سب کچھ اب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے؛ ہر واٹس ایپ گروپ میدانِ کارزار بن چکا ہے اور ایسی بازاری زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ شیطان بھی شرما جائے؛ عالم و مفتی، قاضی و مصلح جیسے محترم القابات رکھنے والے حضرات بھی ماں بہن کی گالیاں دینے سے نہ صرف گریز نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس طرزِ عمل کو دین کی خدمت اور حق کی حمایت کے لبادے میں لپیٹ کر فخر سے بیان کر رہے ہیں، أعاذنا اللہ منہ۔
یہ سب منظر دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ دین کے وارث کہلانے والے وہ علماء جن کے علم، حلم ، تقویٰ اور اخلاص کی کبھی قسمیں کھائی جاتی تھیں، آج وہی جاہ و منصب کے اسیر ہو کر آپس میں دست و گریباں ہیں ؛ اقتدار و عہدہ اور شہرت و قبولیت کی طلب نے انہیں بے بصیرت، بےمغز اور بے عمل بنا دیا ہے، سچ فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ ” دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں اتنا فساد نہیں کرتے جتنا حرصِ مال و جاہ انسان کے دین کو برباد کرتی ہے“۔(ترمذی)
افسوس! جب امت کے تعلیمی، دینی اور روحانی ادارے ہر سمت سے نشانے پر ہیں؛ مدارس ہوں یا مساجد، مزارات ہوں یا مقابرہر طرف بلڈوزر کی گرج سنائی دے رہی ہے اور ہم ہیں کہ اپنی داخلی رنجشوں سے ہی نکلنے کو تیار نہیں؛ ہم اپنی تمام توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کر رہے ہیں اور قوم کو مزید معاشی و سماجی ابتری کی طرف ڈھکیل رہے ہیں۔
خدارا! اب بھی وقت ہے، ان فضول جھگڑوں سے نکل آئیے، خودفریبی کے پردے کو چاک کیجیے اور خلوصِ دل سے اصلاحِ امت اور خدمتِ دین کے لیے کمر بستہ ہو جائیے؛ ان شاء اللہ یہ سعی خالص انجامِ خیر کا ذریعہ بنے گی اور دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخروئی نصیب ہوگی۔