دہلی انتخاب اور مسلمان
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
صبح ووٹنگ ہے اور فی الحال رات کا ایک بج رہا ہے اور اس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ووٹنگ سے قبل آپ تک یہ تحریر پہنچ جائے بالخصوص دہلی کے مسلم ووٹر تک تاکہ سوجھ بوجھ کے ساتھ ووٹ کا استعمال کریں؛ مسلمان کشمکش میں ہیں کہ کسے ووٹ کریں؟ بی جے پی کو دے نہیں سکتے ہیں، عآپ نے مسلمانوں کے ساتھ گزشتہ پانچ سال میں جو چھلاوا کیا ہے، وہ جگ ظاہر ہے؛ مسلمان اس پارٹی سے بطورِ خاص پارٹی کے مکھیا کیجریوال سے دکھی ہے اور ووٹ دینے سے کترا رہے ہیں، رہی بات کانگریس کی تو وہ سرکار بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کسے ووٹ کریں؟ لیکن اگر زمینی حقائق اور فیڈ بیک سامنے رکھیں اور سیاسی شعور سے کام لیں تو فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا؛ دیکھئے! اصل مقابلہ عآپ اور بی جے پی کے درمیان ہے، تمام غیر جانبدار صحافی اور سیاسی مبصرین کے تبصرے اور تجزیے بھی یہی کہتے ہیں؛ چنانچہ انتخاب اگر صاف شفاف ماحول میں ہوا اور کوئی دھاندلی نہیں کی گئی تو عآپ کی سرکار بنے گی البتہ سیٹ گھٹ جائے گی، بی جے پی مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھرے گی اور کانگریس دس سے بارہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؛ اوکھلا اور مصطفی آباد کی بات کریں، جہاں سے مجلس نے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے، یہاں بھی عام آدمی پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔
یہ حالات ہیں اور حالات کا تقاضا ہے کہ جہاں کانگریس کے امیدوار کی کامیابی یقینی ہو، وہاں تو کانگریس کو ووٹ دیا جائے اور جہاں عام آدمی پارٹی کی کامیابی یقینی ہو تو کانگریس کو یا کسی اور کو ووٹ دے کر ووٹ ضائع نہ کیا جائے؛ دیکھئے مسلمانوں کے لیے تمام پارٹیاں کم و بیش یکساں ہے، انیس بیس کا فرق ہے لیکن جن پارٹی کے نظریات کھلے عام مسلم مخالف نہیں ہے، اس سے بھی دوری بنا لی جائے، یہ دانشمندی نہیں ہے؛ اس طرح تو آپ ہر ایک سے دور ہو جائیں گے اور پھر آپ کے حق میں پھس پھسے انداز میں بھی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
دیکھئے! ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے اور یہاں کی اکثریت کے ساتھ رہنا ہے، چنانچہ سیاست بھی انہیں کے ساتھ کرنی ہے اور انہیں کے ساتھ مل کر اپنی قیادت کھڑا کرنے کی کوشش کرنی ہے؛ اس لئے محض نعروں اور جذباتوں کی رو میں مت بہکیے، سیاسی شعور کام میں لائیے، ووٹ کے بکھراؤ سے بچئے اور کسی کو ہرانے کے بجائے کسی کو جتانے کے لئے ووٹ کیجئے۔