الیکٹرول بانڈز اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
الیکٹرول بانڈز
بہت سے احباب نے دریافت کیا کہ یہ الیکٹرول بانڈز کیا ہے؟ اور اس کے خلاف سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ آیا ہے؟ تو آئیے الیکٹرول بانڈ اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؛ الیکٹرول بانڈ (انتخابی وابستگی) ایک بینکنگ مالیاتی نظام ہے، جو سیاسی جماعتوں کو فنڈ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ آپ اسے آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ سیاسی جماعتیں ، کارپوریٹ گھرانے سے موٹی رقم انتخاب کے وقت لیتی ہیں؛پہلے ڈائریکٹ ان سے لے لیا کرتی تھی اور اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا تھا؛ اب اسے لینے کا یہ نیا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے، جس میں مخصوص بینک ثالثی کا کام کرتا ہے، اسے ٢٠١٨ء میں قانونی شکل میں نافذ کیا گیا تھا ۔
طریقہ کار
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی بھی شخص، کمپنی یا ادارہ یہ بانڈز بینک سے خریدتا ہے، پھر یہ بانڈز رجسٹرڈ ایسی کسی سیاسی جماعتوں کو عطیہ کر دیتا ہے، جسے ما قبل کے الیکشن میں کم سے کم ایک فیصد ووٹ حاصل ہوا ہو؛سیاسی جماعتیں پندرہ دن کے اندر اندر بینک میں وہ بانڈ جمع کرتی ہے اور جتنے کا بانڈ ہوتا ہے، اتنی رقم بینک سے وصول لیتی ہے؛ یہ بانڈز ایک ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کی قیمت میں خریدا جا سکتا ہے؛ الیکٹرول بانڈز کو عطیہ کرنے کے لیے، عطیہ دہندہ کو الیکٹرول بانڈ کے نمبر اور سیاسی جماعت کا نام اور پتہ فراہم کرنا ہوتا ہے؛ اس کا فائدہ عطیہ دینے والوں کو ٹیکس میں بھاڑی چھوٹ کی شکل میں ملتا ہے ۔
فائدہ
کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لین دین کا یہ نظام اس لئے متعارف کرایا گیا تا کہ سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کو فروغ ملے اور کالے دھن کے روک تھام میں سہولت ہو؛ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سے نوٹ کے بدلے ووٹ کی سیاست پر بھی قدغن لگے گا ؛ کیوں کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق کے مطابق متعینہ فنڈز کے استعمال کی ہی اجازت دیتی ہے اور آمد و خرچ کا حساب کتاب بھی جمع کراتی ہے تو سیاسی جماعتیں غیر قانونی طور پر فنڈ کے استعمال سے بچے گی اور یوں شاف صفاف ماحول میں الیکشن کا انعقاد ہوگا ۔
نقصان
الیکٹرول بانڈز پر شروع سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں کیونکہ الیکٹرول بانڈز کے عطیہ دہندگان کی شناخت عوامی طور پر دستیاب نہیں کی جاتی ہے ، جس سے اس نظام کی شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں؛ نیز اس کے اور بھی بہت سے نقصان ہیں، مثلاً اس سے بڑے عطیہ دہندگان کا اثر و رسوخ حکومت میں بڑھا ہے؛ الیکٹرول بانڈز کے ذریعے بڑے کاروباری اور امیر افراد کا سیاسی جماعتوں پر کنٹرول ہونے لگا ہے ؛ انتخابی بدعنوانی کے خطرے میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس لئے کہ ان کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو بڑے عطیات حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ مل گیا ہے بلکہ حکمراں جماعت کے لئے تو یہ پیسے کے بدلے کارپوریٹ گھرانے کے لئے عوامی سرمایہ میں خورد برد کا بہت بڑا ذریعہ فراہم ہو گیا ہے ۔
سپریم کورٹ
ان وجوہات کی بنا پر یہ قانون شروع سے متنازعہ رہا ہے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی پٹیشن داخل تھے، جس پر آج فیصلہ آیا ہے؛ یہ درخواستیں این جی او ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز، سی پی آئی (ایم)، کانگریس لیڈر جیا ٹھاکر اور دیگر کی طرف سے دائر کی گئی تھیں؛ اس کی سماعت چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی اگوائ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی آئینی بنچ کر رہی تھی؛ عدالت عظمیٰ نے تین دن کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ دو نومبر ٢٠٢٣ء کو محفوظ کر لیا تھا اور آج اس کے خلاف فیصلہ جاری کردیا ہے ۔
فیصلہ سے دھچکا
اس کے بہت سے ایسے شق جو حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچاتی تھی،اور انتخاب میں بدعنوانی کو فروغ دیتی تھی، کالعدم قرار دے دیا ؛فیصلہ کی تفصیلی جانکاری سپریم کورٹ کے ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہے؛ چند ہفتوں میں ملک میں لوک سبھا کا الیکشن ہے اور ایسے موقع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ حد تک اطمینان بخش ہے؛ اس فیصلے نے حکمراں جماعت کو سخت دھچکا پہنچایا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو کچھ نہ کچھ راحت دی ہے کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں سیاسی جماعتوں کو ملنے والے فنڈز کا ٩٤ فیصد حصہ حکمراں جماعت کو ہی ملے ہیں اور بقیہ چھ فیصد تمام سیاسی جماعتوں کو؛ لیکن اب صاف شفاف ماحول میں الیکشن کے انعقاد کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ چلتا رہے گا ۔
:دیگر مضمون
http://عورت کی آزادی اور معاشرہ https://hamaritahzeeb.com/archives/565
https://alamir.in/press-club-of-india-ka-motaassibanah-rawayyah/