گرمی کی شدت، جہنم اور عبرت
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:ریکارڈ توڑ گرمی
آج کل ریکارڈ توڑ گرمی پڑ رہی ہے ، ماہرین موسمیات کی مانیں تو پچھلے اسی سال کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور آگے اس سے بھی سخت گرمی پڑنے کے امکانات ہیں؛ سال بسال :گرمی میں شدت کے بہت سارے سائنسی وجوہات ہیں، مثلاً کل کارخانوں کی زیادتی، پیڑ پودوں کی تیزی سے کٹائی، بڑھتی فضائی آلودگی وغیرہ؛ یہ سارے وجوہات مسلم ہیں مگر حدیث شریف میں ایک اور حقیقت کی طرف رہنمائی کی گئی ہے، جسے عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بحیثیت مؤمن ہمیں اسے جاننا چاہئے اور اس سے سبق لیتے ہوئے آخرت کی فکر کرنی چاہیے ۔
:بخاری شریف کی حدیث
بخاری شریف میں ہے، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ :”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کرو، ٹھنڈا کرو، یا یہ فرمایا کہ انتظار کرو، انتظار کرو، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کے بھاپ سے ہے؛ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے“؛ ( بخاری شریف، حدیث نمبر :۵ ۳ ۵)۔
:مسلم شریف کی حدیث
ایک دوسری روایت میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :” جہنم نےاپنے رب کے حضور شکایت کی اور کہا، اے میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصہ کو کھارہا ہے، تو اللہ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت عطا کردی؛ ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں، پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا :گرمی اور سردی کے موسم میں جو تم شدید تر گرمی اور شدید تر سردی محسوس کرتے ہو تو یہ وہی (چیز )ہے “؛ (مسلم شریف، حدیث نمبر :۱ ۰۴ ۱)
:حدیث شریف کی تشریح
دونوں حدیث کو اکثر علماء و فقہاء نے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے فرمایا کہ واقعی گرمی کی شدت جہنم کی آگ کے اثر سے ہے؛ حدیث کے مفہوم و مراد کی مزید تشریح کے سلسلے میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری نور اللہ مرقدہ (سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسين دارالعلوم دیوبند) کی تشریح نقل کرتا ہوں، جس سے حدیث کا مفہوم بالکل واضح ہو جائے گا ؛ آپ حدیث کی تشریح کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ
غرض آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت گرمیوں میں وقت ٹھنڈا ہونے کے بعد ظہر پڑھنے کا حکم دیا ہے، اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ گرمی کی شدت جہنم کے پھیلاؤ سے ہے، اس لئے ایسے نامناسب وقت میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے؛ اور گرمی کی شدت جہنم کے پھیلاؤ سے ہے، اس میں مجاز بالحذف ہے یعنی جہنم کے اثرات کے پھیلاؤ سے ہے، جہنم بذات خود نہیں پھیلتی بلکہ اس کا اثر پھیلتا ہے۔
مزید وضاحت کے لیے آپ نے اپنے مخصوص انداز سوال و جواب کے پیرایہ میں فرمایا، سوال : گرمی کی شدت کا تعلق سورج سے ہے، جہنم کے اثر اور اس کے پھیلاؤ سے نہیں ہے؛ چنانچہ جب سورج سر کے قریب آتا ہے تو گرمی بڑھ جاتی ہے اور جب وہ دور ہو جاتا ہے تو گرمی ہلکی پڑ جاتی ہے؛ پس یہ کہنا کیسے صحیح ہے کہ گرمی کی شدت جہنم کی وسعت سے ہے؟
جواب: انسان عالم مشاہدہ یعنی اس دنیا کے احوال اپنی عقل سے سمجھ سکتا ہے مگر دوسری دنیا کے یعنی ماورائے طبیعہ کے احوال کما حقہ نہیں سمجھ سکتا، مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتماد کرناضروری ہے، جنت میں دودھ کی نہریں ہیں، دودھ کہاں سے آتا ہے، کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس کا تصور ہم نہیں کر سکتے ، چونکہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باتیں بتلائی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں؛ اسیطرح جہنم، اس کے اثرات اور ان کا پھیلنا بھی دوسری دنیا سے تعلق رکھتا ہے، وہ اثرات عالم مشاہدہ تک کیسے پہنچتے ہیں ہم نہیں جانتے، ممکن ہے سورج جہنم کے اثر کو قبول کرتا ہو پھر اس کے روزن (سوراخ) سے وہ اثرات اس دنیا میں پھیلتے ہوں(تحفۃ القاری، جلد ثانی، صفحہ نمبر :۵ ۹ ۳)۔
مذکورہ بالا حدیث سے ایک تو یہ بات صاف ہو گئی کہ گرمی کی شدت جہنم کے اثرات سے ہے،نیز یہ بات بھی معلوم ہوئ کہ گرمی اور اس کی شدت اللہ رب العزت کے غضب کا اظہار ہے، چنانچہ حضرت الاستاذ اسی حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ :حضور اقدس صلی اللہ علیہ کا یہ ارشاد (شِدَّةُ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ) حقیقت کا بیان ہے، یعنی گرمی کی شدت واقعی جہنم کے اثر کےپھیلاؤ سے ہے، اور چونکہ جہنم اللہ کی صفت غضب کا مظہر ہے، جس طرح جنت اللہ کی صفت رحمت کا مظہر ہے، پس جہنم کے اثرات بھی صفت غضب کا مظہر ہونگے۔
:مسلمانوں کی غفلت
حدیث مذکور کے مفہوم کو ذہن میں رکھئے اور ذرا تصور کیجئے کہ جس جہنم کے سانس لینے کے اثر سے اس قدر شدید گرمی پڑ رہی ہے اور یہ ہمارے برداشت سے باہر ہے، جب کہ وہ ہم سے نامعلوم میلوں دور ہے تو جہنم کی شدت کا کیا حال ہوگا؟ اور کیا ہم اس کی تپش برداشت کر پائیں گے؟ اسی طرح جب گرمی کی شدت رب کی ناراضگی کا اظہار ہے تو کیا ہم رب کی ناراضگی کے ساتھ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو پائیں گے؟ظاہر ہے نہیں! مگر ہائے افسوس! آج کا مسلمان کتنا غافل ہے کہ دنیا کی گرمی سے بچنے کی تدبیریں تو کرتا ہے لیکن آخرت میں جہنم سے حفاظت کے لیے تدبیریں نہیں کرتا ہے، انسان کو خوش کرنے کی فکر تو کرتا ہے لیکن رب کو خوش کرنے کی فکر نہیں کرتا ہے، عارضی دنیا کی آسائش کے لئے جتن تو کرتا ہے لیکن آخرت کے آرام کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتا ہے ۔
:آخرت کی فکر کیجئے
اس لئے بھائیو! وقت رہتے ہمیں رب کو راضی کرنے اور آخرت کو سنوارنے کی فکر کرنی چاہیے، رب کی مرضیات پر چلنا چاہیے اور اس کی منہیات سے بچنا چاہیے؛ جس طرح ہم گرمی سے پہلے گرمی سے بچاؤ کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں، اسی طرح آخرت کے حساب و کتاب سے پہلے آخرت کی تیاری کر لینی چاہیے؛رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
عقل مند ہے وہ شخص جو اپنا محاسبہ کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے؛ اور بیوقوف ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دے، یعنی نفس کی خواہشات کے مطابق زندگی گزارےاور اللہ سے ( جھوٹی ) امیدیں وابستہ کرے، یعنی یہ کہہ کر مطمئن ہو جائے کہ اللہ بہت بخشنے والا ہے لیکن عمل ایسے کرے جس سے اس کی رحمت کے بجائے اس کا غضب حاصل ہو ؛ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر :۰ ۶ ۲ ۴)۔
:یہ بھی پڑھیں
https://alamir.in/nanhi-bachchi-school-aur-walidain-
2 thoughts on “گرمی کی شدت، جہنم اور عبرت”