غریبوں کے منہ پر طمانچہ
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی ✍️
:تین روزہ جشن
ان دنوں ملک کے سب سے مالدار اور دنیا کے مالدار ترین لوگوں میں سے ایک مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے کی شادی سے پہلے کے پروگرام کا خوب چرچہ ہے؛ میڈیا، سوشل میڈیا اور چمک دمک کے دلدادوں کی زبان پر اس کے ایک ایک جھلک اور منظر کی کہانی ہے؛ اس کے چرچہ کی وجہ بھی ان پروگراموں کا انوکھا پن اور اس پر دولت کی بےبہا صرفہ ہے؛ شادی تو جولائی میں ہونی ہے مگر اس وقت شادی سے پہلے تین روزہ جشن رکھا گیا اور اس پر جو دولت لٹائ گئ ہے، اس کا ہم آپ تصور نہیں کر سکتے ہیں، ایک نیوز رپورٹ کے مطابق اس فنکشن کا خرچہ ایک ہزار کروڑ یعنی دس ارب روپے ہیں؛ ایک امیر شخص کا اپنی ہوس بجھانے کے لئے دولت کا اس قدر بے جا استعمال ملک کے کروڑوں غریبوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔
:مکیش امبانی
مکیش امبانی ملک کے امیر ترین شخص ہیں، ان کا کل سرمایہ بیالیس بیلین ڈالر یعنی چونتیس کھرب، بیاسی ارب، بارہ کروڑ اور تیرہ لاکھ روپے ہیں؛ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی شادی سے پہلے تفریحی پروگرام سجایا اور اس میں دنیا کے مانے جانے بارہ سو شخصیات کو مدعو کیا؛ یہ سب دنیا کے کارپوریٹ گھرانے، ہالی وڈ و بالی وڈ انڈسٹری، کھیل جگت اور سیاست کے چوٹی کے افراد تھے؛ جن میں چند نام یہ ہیں، مائکروسافٹ کے مالک اور دنیا کے دوسرے سب سے مالدار بل گیٹس، میٹا (فیسبک ،واٹس اپ ،انسٹا گرام) کے مارک زکربرگ، بلیک راک کے شریک بانی لیری فنک،گوگل اور الفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی، کینیڈا کے سابق وزیراعظم اسٹیفن ہارپر، آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم کیون رڈ،سابق امریکی صدر ڈونالد ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور قطر کے امیر تمیم بن احمد الثانی ہیں۔
:پروگرام
یہ پروگرام گجرات کے ایک ضلع جام نگر میں رکھا گیا، یہ بحر عرب سے متصل صنعتی شہر ہے، یہ مکیش امبانی کی ماں کا پیدائشی گاؤں بھی ہے اور یہیں سے ان کے کاروبار کے آغاز کی کہانی بھی شروع ہوتی ہے؛ یہاں ملک اور دنیا کا سب سے بڑا ریلائنس تیل ریفائنری کمپنی ہے،اسی شہر میں ریلائنس سیٹی ہے اور سارا پروگرام اسی سیٹی میں منعقد کیا گیا؛ یہاں آنے والے مہمانوں کے اعزاز میں الگ الگ عارضی محل نما (لگزری) خیمے لگائے گئے، جس میں دنیا کی جدید ترین تمام تر سہولیات کی چیزیں موجود تھیں؛سو سے زائد ماہر ترین طباخ (شیف) مہمانوں کے پسندیدہ پکوان تیار کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود تھے؛ مختلف پروگرامز ہوئے،ہر پروگرام انوکھا اور بالکل الگ، ایک پروگرام کے لئے امریکہ میں رہائش پذیر پاپ سنگر رِہانا کو بھی بلایا گیا، جس کی محض فیس ستر کروڑ روپے تھی، باقی فنکشن اور معاون (سپورٹنگ اسٹاف) کے خرچے الگ؛ ان تفصیلات سے آپ خرچے کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر بےدردی کے ساتھ دولت بہائی گئ ہے جبکہ شادی ابھی باقی ہے ۔
:ملک کی حالت
یہ اس ملک کے ایک شخص کی شادی سے قبل کے فنکش کی کہانی ہے، جس کے اسی کروڑ باشندے ہر ماہ مفت کے اناج پر گذر بسر کرتے ہیں؛ ملک کی حالت یہ ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس ٢٠٢٣ء یعنی بھوک کے تازہ عالمی شمار میں ہندوستان ایک سو پچیس ملکوں میں ایک سو گیارہویں مقام پر ہے، سب سے زیادہ بھوک کے شکار باشندوں کی فہرست میں ہمارے ملک کی حالت مصیبت زدہ سری لنکا (٦٤)، نیپال (٨١)، بنگلہ دیش (٨٤) اور پاکستان (٩٩) سے بھی بدتر ہے؛ پوری دنیا کی غریب آبادی کا سب سے زیادہ حصہ ١٢.٢٠فیصد آبادی ہمارے ملک میں ہے، بایں اعتبار غربت کے معاملہ میں یہ ملک پہلے نمبر پر ہے؛ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے فنانشل سروسز کمپنی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک کے اسی فیصد لوگ محض ایک سو تریسٹھ روپے روزانہ سے بھی کم خرچ کر پاتے ہیں؛ ذرا ہم سوچیں کہ کیا ڈیڑھ سو روپے یومیہ میں کوئی آدمی ا پنے کھانے‘ کپڑے‘ رہائش‘ دوائی اور تفریح کا انتظام کر سکتا ہے؟ بچوں کی تعلیم‘ سفر اور شادی بیاہ وغیرہ کے خرچوں کو تو رہنے ہی دیجئے، اس اعداد و شمار کو مانیں تو ملک کے تقریباً سو کروڑ لوگ غریبی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
:آکسفیم انڈیا
آکسفیم انڈیا (این جی او) کی رپورٹ کے مطابق سب سے امیر اکیس ہندوستانی ارب پتیوں کے پاس ستر کروڑ ہندوستانیوں سے زیادہ ملکیت ہے، صرف پانچ فیصد ہندوستانیوں کے پاس ملک کی ملکیت کا ساٹھ فیصد حصہ ہے جبکہ نیچے کے پچاس فیصد کے پاس ملک کی ملکیت کا محض تین فیصد حصہ ہے ؛ آکسفیم کی جدید رپورٹ ’سروائیول آف دی ریچسٹ: دی انڈیا اسٹوری‘ نے جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ان ارب پتیوں کے اَن ریئلائزڈ گینس( غیر محسوس شدہ منافع یعنی وہ منافع جو کسی اثاثے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہو لیکن وہ ابھی تک نقد رقم میں تبدیل نہ ہوا ہو) پر اگر ٹیکس وصولا جائے تو ایک پوائنٹ آٹھ لاکھ (1.8)کروڑ روپے حاصل ہوں گے اور یہ رقم پرائمری اسکولوں کے پچاس لاکھ اساتذہ کے سال بھر کے تنخواہ کے لئے کافی ہوگا، آکسفیم نے اس رپورٹ کے متعلق حوالے اور ذرائع بھی جاری کئے ہیں ۔
:امیر و غریب کے درمیان خلیج
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج مسلسل گہری اور وسیع تر ہوتی جارہی ہے، امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے، غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے؛سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والی حکومت سرمایہ دارانہ مفادات کی خدمت کرنے والے چند صنعت کاروں کے ادارے میں تبدیل ہوگئی ہے اور معاشی پالیسی غیر رسمی طور پر سرمایادارانہ نظام میں بدل گیا ہے؛ جب سے مغربی معاشی نظام نے دنیا کو اپنے شکنجہ میں لیا ہے، تب سے دنیا کے ہرخطہ میں تقسیمِ معیشت کی یہ ناہمواری ہے؛ کہنے کو مساوات اور برابری کا دعویٰ ہے مگر یہ دعوے کھوکھلے ہیں، حقیقت سے کوسوں دور ہے کیونکہ مغربی نظامِ معیشت کی بنیاد جن اصولوں پر ہے، وہ اصول ہی مفاد پرستی اور خود غرضی کو ترجیح دیتی ہے، ظاہر ہے ایسے میں اس سے انصاف کی امید بے معنی ہے ۔
:یہ بھی پڑھیں
http://یہ رسومات ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے https://hamaritahzeeb.com/archives/721
https://alamir.in/madrasatul-banaat-chand-qabil-e-islah-pahloo/