اسلام میں سالِ نو پر جشن کا کوئی تصور نہیں
اسلام نے خوشی منانے کے مواقع اور طریقے دونوں کی رہنمائی فرمائی ہے جن کی تفصیلات اسلامی کتاب اور لٹریچر میں موجود ہے؛ ان مواقع میں کہیں بھی سالِ نو کی آمد پر جشن و خوشی کا کوئی تصور نہیں ہے، خواہ ہجری کیلنڈر کے مطابق ہو یا عیسوی کیلنڈر کے مطابق لیکن جب سے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے موافق زندگی کے صبح و شام گزارنے لگا ہے تب سے مغربی خرافات کے گھن چکر میں جکڑا ہوا ہے اور اسی خرافات کا ایک حصہ سالِ نو پر جشن منانا ہے.
اول تو اسلام میں اس موقع پر جشن کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، پھر اس جشن کے نام پر جتنے عیش و عشرت کی محفل سجائی جاتی ہے، اس میں ہونے والے اخلاق سوز اور حیا باختہ حرکت اسلام میں حرام تو ہے ہی بلکہ اس پر سخت قسم کی وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں، استاد محترم حضرت مولانا مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی مدظلہ العالی نے اس موقع کی مناسبت سے بہترین تحریر لکھی ہے جس کا عنوان ہے “سالِ نو کے موقع پر کیے جانے والے غیر شرعی اعمال اور ہماری ذمہ داریاں”؛ جس میں آپ نے اس موقع پر قومِ مسلم کی بے راہ روی کا بہترین نقشہ کھینچا ہے، میں آپ کی تحریر کے اقتباس پر اکتفا کرتا ہوں،آپ فرماتے ہیں:
یکم جنوری کو سال نو کے استقبال کے نام پر غیر مسلموں اور عیسائیوں کی طرف سے بہت سی غیر اخلاقی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں، حیاء و شرافت کے خلاف بہت سے کام کیے جاتے ہیں، شراب و شباب کا دور چلتا ہے، جام ومینا کھنکھناتے ہیں؛اس طرح کے مخرب اخلاق بلکہ اخلاق سوز اور حیا باختہ اعمال کا غیر مسلموں سے سرزد ہونا کوئی باعثِ تعجب امر بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ان کے پاس اس طرح کے امور کے لیے کوئی لازمی اخلاقی تعلیم نہیں ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ خیرِ امت کا مقام پانے والی امت اور مسلم شناخت رکھنے والے افراد کی طرف سے بھی پورے جوش خروش کے ساتھ ایسے امور انجام دیے جاتے ہیں جو شرافت، حیا اور تہذیب و شائستگی کے بالکل برعکس اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں؛اس موقع پر آتش بازی کرنا، مرد و زن کا اختلاط اورتفریحی مقامات پہ جا کے رنگ رلیاں منانا،خاص طریقہ سے پکنک کرنا، آتش بازی کرنا اور دوسرے ہلڑبازی کے کام کرنا، یہ سب اس موقع کے خاص اعمال سمجھے جاتے ہیں؛ ظاہر ہے کہ یہ ایسے امور ہیں جن کی شریعت اسلامیہ کسی حال میں اجازت نہیں دیتی ہے؛ یکم جنوری سے قبل ہی مسلم قوم کے بہت سے افراد “نیا سال مبارک”کے پیغامات کی ترسیل اتنی کثرت سے کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ! مسلم قوم کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ 31 دسمبر کی رات 12 بجے کا انتظار کرتا ہے اور جوں ہی گھڑی کی سوئی بارہ کے ہندسہ پر پہنچتی ہے، ایسا لگتا ہےکہ نوجوانوں کے وجود پر بھی بارہ بجنے لگا ہے اور ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی ہے؛مغربی تہذیب کے زیر اثر یہ طبقہ ایسے کام کرتا ہے جو انسانیت، تہذیب و شرافت کے خلاف ہوتے ہیں مثلاً مختلف قسم کے گانے گانا، سیٹیاں بجانا، ہلڑ بازی کرنا، ہنگامہ کرنا، ناریل پھوڑنا،شرم وحیا کے دامن تار تار کر دینا؛یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ناطےہمارے لیے کسی طور پر بھی روا نہیں ہے، ہم ایک ایسی شریعت کو ماننے والے ہیں جو جامع اور کامل و مکمل ہے اور ہر طرح کے حالات کی رہنمائی اس کے دامن میں موجود ہے.
سال نو کے جشن پر کئے جانے والے مذکورہ بالا سارے حرکات اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں اور یہ وہ گناہ ہیں جن سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین.
از قلم: امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی