خود کو بدلیں،حالات خود بدل جائیں گے
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:ہماری بے بسی
اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے؛ وجہ دلی بے چینی، احساسِ افسردگی اور مستقبل کے حوالے سے امیدیں اور اندیشے؛ اوپر سے بت کے پرستاروں کا پٹاخوں کے شور سے ہنگامہ آرائی؛ یقین مانیں کہ دن بھر مشرکین کے گاجے باجے، مذہبی نعرے اور اب کچھ گھنٹے قبل سے پٹاخے کے ذریعے چِڑھانے کی کوشش سے جو دلی صدمہ ہو رہا ہے، وہ بیان سے باہر ہے؛ ایک تو مسجد کے زمین بوس کئے جانے کا غم، پھر اس پر مندر کی تعمیر کا درد اور پھر مشرکانہ جشن کے ننگا ناچ کا مظاہرہ ، یہ سب برداشت سے باہر ہو رہا ہے؛ خیر اپنا دکھرا اپنے رب کے سامنے رکھتے ہیں، وہی بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں؛ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر تا ہوں۔
اس پس منظر سے ہندوستان میں مسلمانوں کی بے بسی و بے کسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور حالات یہ بتاتے ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں یہ صورتحال مزید بد تر ہو سکتی ہے؛ بے بسی کے اس عالم میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث یاد آ رہی ہے، جس میں ہماری زبوں حالی کا سبب اور اس کے دور کرنے کا نسخہ بتایا گیا ہے؛ آئیے رات کے اس پہر آپ کی خدمت میں وہ حدیث پیش کروں جس کے آئینے میں ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ یہ حالات کیوں کر ہوئے؟ اور منصوبہ بنائیں کہ ان حالات سے باہر کیسے نکلیں؟ کیوں کہ اسی ایک حدیث میں ہمارے مرض کی تشخیص بھی ہے اور علاج بھی۔
:حدیث شریف
حدیث شریف ہے عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ اللَّهَ تعالى يقولُ أَنا اللَّهُ لا إلَهَ إلّا أَنا؛ مالِكُ الملوكِ وملِكُ الملوكِ قُلوبُ الملوكِ، في يَدي وإنَّ العبادَ إذا أطاعوني حوَّلتُ قلوبَ مُلوكِهِم عليهِم بالرَّحمةِ والرَّأفةِ وإنَّ العبادَ إذا عصَوني حوَّلتُ قلوبَهُم بالسُّخطةِ والنِّقمةِ فساموهم سوءَ العذابِ فلا تَشغلوا أنفسَكُم بالدُّعاءِ على الملوكِ ولَكِنِ اشغَلوا أنفسَكُم بالذِّكرِ والتَّضرُّعِ كَي أَكْفيَكُم ملوكَكم، (رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء)؛ حضرت ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں ، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں ، اور جب بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دل رحمت و شفقت کے ساتھ ان پر پھیر دیتا ہوں ، اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے دل ناراضی اور سزا کے ساتھ پھیر دیتا ہوں پھر وہ انہیں بُرے عذاب سے دوچار کرتے ہیں ، اپنے آپ کو بادشاہوں پر بددعا کرنے میں مشغول نہ رکھو بلکہ اپنے آپ کو ذکر اور تضرع میں مصروف رکھو تاکہ میں تمہیں تمہارے حکمرانوں سے محفوظ کروں۔
:حدیث کی وضاحت
یہ حدیث قدسی ہے، قدسی کا مطلب ہے کہ حدیث کے معانی ومطالب تو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ہی، الفاظ بھی اللہ رب العزت کے ہیں؛ یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے مگر اس میں بیان کردہ مضمون کی تائید متعدد آیات و احادیث میں موجود ہے؛ یہ تو ہوئ حدیث کے تعلق سے کچھ وضاحت، اب آئیے حدیث کے مفہوم میں غور کرتے ہیں؛ حدیث میں اللہ رب العزت نے حالات کے موافق و ناموافق ہونے کے وجوہات اور پھر اپنی طرف سے نصرت و حمایت کے شرائط بیان کئے ہیں، مسلمانوں کے بنتے بگڑتے حالات کے اسباب و عوامل بیان کئے ہیں ، بالفاظ دیگر مسلمانوں کے کرنے اور نہ کرنے کے کام کی وضاحت فرمائی ہے ؛چنانچہ اللہ رب العزت نے مرض کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم اللہ کے نافرمان ہوں گے اور ان کے احکام سے بغاوت کریں گے تو ہم پر ظالم کی حکمرانی ہوگی اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹیں گے؛ پھر اللہ نے دوا بھی تجویز کی کہ ایسے وقت میں بد دعاء نہ کریں بلکہ اس کی طرف لوٹیں، توبہ واستغفار کریں، نماز و ذکر میں اپنے آپ کو لگائیں، اس کے تمام احکامات کو اپنائیں، منہیات سے اجتناب کریں اور اللہ کے سامنے گرگرائیں، آنسوؤں کا نذرانہ پیش کریں، پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے ظالموں سے نمٹتا ہے؟
:ہمارا حال
اس حدیث کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کریں اور بحیثیت مجموعی امت کا جائزہ لیں، اس وقت اعمال و أخلاق میں امت کی اکثریت کا جو حال ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے؛ عوام تو عوام خواص کا حال بھی دگرگوں ہے، ہر ایک خواہشات و نفسیات کا قیدی بنا ہوا ہے؛ دنیا کی محبت، مال و دولت کی ہوس، جاہ و منصب کی طلب اور نام و نمود کی چاہت میں دیوانہ بنا ہوا ہے؛ جائز و ناجائز کا پاس نہیں، اپنوں کے دکھ درد کا احساس نہیں، بڑوں چھوٹوں کی تمیز نہیں، رشتوں کی قدر نہیں، ہمسایوں کے حقوق کا لحاظ نہیں،بات ماننے کا جذبہ نہیں، والدین کی فرماں برداری نہیں، زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں، پڑھنے لکھنے سے واسطہ نہیں، حقوق اللہ و حقوق العباددونوں کا لحاظ نہیں اور تو اور اب تو آخرت کی بھی پرواہ نہیں، آسانی سے کہہ دیتے ہیں دیکھی جائے گی۔
یہ تو عوام کا حال ہے، خاص دیندار حضرات نے بھی دین کو چند ظاہری اعمال تک محدود کردیا ہے، ہمارے ایک پڑوسی ہیں، پنج وقتہ نمازی ہیں، عموماً اسلامی لباس میں ہی ملبوس رہتے ہیں، گزشتہ ماہ نکاح کیا ہے، شادی کے پندرہ دن پہلے سے روز شب میں نو بجے سے دو تین بجے تک تیز تیز آواز میں گانا بجاتے رہے، منع کرنے کے باوجود نہیں مانے؛ ایک اور دین دار اور نمازی کی کہانی سنئے، انہوں نے اپنی جوان بیٹی کا یومِ پیدائش منایا، دینداروں کو دعوت دی، بیٹی نے سب کے سامنے کیک کاٹا، اور جس وقت یہ عمل ہو رہا تھا، دوپٹہ کاندھے پر نہیں تھا اور لباس بھی بھرکیلا تھا؛ اس قسم کی بے شمار داستانیں ہیں، جو ہم آپ کے ارد گرد بکھڑی پڑیں ہیں۔
:خدو کو بدلیں
ان حالات میں مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں ہم جس حیثیت میں ہیں اور جس ذلت و خواری کے شکار ہیں،یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کمائی ہوئی ہے؛ حدیث نے ہماری ایک اور نفسیاتی کمزوری کو بھی بتایا ہے کہ جب ہم پر حالات آتے ہیں تو ہم فوراً دوسروں پر الزام دھر دیتے ہیں، اس کی تباہی و بربادی کی دعاء کرنے لگتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا بلکہ اپنے آپ کو بدلنے اور بجائے بددعاء، دعاء کرنے کا حکم فرمایا ۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سچے دل سے اپنا محاسبہ کریں، کمیوں کی نشاندہی کریں، اسےدور کرنے کے طریقوں پر غور کریں، پھر ان طریقوں کو اپنانے کا منصوبہ بنائیں اور پھر منصوبہ کے مطابق عملی کوشش شروع کردیں؛ جو انفرادی خرابی ہے، اسے انفرادی طور پر دورکریں اور جو اجتماعی خرابی ہے، اسے اجتماعی طور پر دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، سب مل کر کریں، عوام بھی خواص بھی، چھوٹے بھی بڑے بھی، دیندار بھی غیر دیندار بھی، مرد بھی عورت بھی، عالم بھی جاہل بھی، تب جا کر بات بنے گی اور حالات کا رخ بدلے گا ۔
١٠ رجب المرجب ١٢ بجے شب
دیگر مضامیں
https://alamir.in/babri-masjid-ki-jagah-par-ram-mandir-karne-ke-kaam/