zindagi mobile ke beghair
zindagi mobile ke beghair

زندگی موبائل کے بغیر

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

حادثے مکافات عمل یا آزمائش 

حادثے یا تو مکافات عمل ہوتے ہیں یا آزمائش، لیکن بہر صورت مومن کے لیے رحمت ہوتے ہیں؛ میرے ساتھ بھی پانچ روز قبل ایک حادثہ پیش آیا، میرے برادر نسبتی دہلی آئے ہوئے تھے اور انہیں مینا بازار جامع مسجد پر کچھ خریداری کرنی تھی؛ ہفتہ کا دن تھا، دوپہر کے چار بج رہے تھے، ہم اہل و عیال مینا بازار گئے، خریداری کرنے لگے، ایک دوکان پرسامان کی قیمت کی ادائیگی کے لیے موبائل نکالنا چاہا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل نہیں تھا، موبائل جیب سے نکل چکا تھا اور ابھی تک موبائل کے بغیر ہوں۔

مینا بازار جامع مسجد 

مینا بازار جامع مسجد اور اس کے آس پاس کے علاقے موبائل چور اور جیب کتروں کے حوالے سے خاصہ مشہور ہے؛ میں جب بھی وہاں جاتا تھا تو بہت احتیاط سے موبائل رکھتا تھا اور ساتھ والوں کو بھی ترغیب دیتا تھا؛ اس دن بھی برادر اور اہلیہ کو بار بار بار تاکید کر رہا تھا کہ موبائل پر توجہ رکھیں مگر خود ہی غفلت برتی اور حادثہ کا شکار ہو گیا؛ جب حادثہ ہونا ہوتا ہے تو اسباب بھی خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں، میں ہمیشہ موبائل صدری (جواہر کٹ) کے اندرونی حصہ میں رکھتا تھا لیکن اس دن پیمینٹ کرنے کے بعد باہری جیب میں ہی بدخیالی میں رکھا چلا گیا اور محض پانچ منٹ بعد دیکھا تو موبائل غائب ہو چکا تھا۔

 موبائل ضررت ہے

موبائل اب انسان کی ضرورت نہیں بلکہ مجبوری بن گیا ہےاور حال یہ ہے کہ ضرورت میں کم اور فضولیات میں زیادہ استعمال ہوتا ہے؛ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی سے ہی میرے استعمال میں موبائل رہا ہے، میں سوچتا تھا کہ اگر موبائل نہ ہو تو بڑی پریشانی ہو گی لیکن اب اس کا تجربہ ہوا کہ کچھ نہیں ہوتا ہے؛ موبائل چوری ہوئے پانچ دن گزر گئے، میں نے ابھی تک موبائل نہیں خریدا ہے، لیکن کوئی خاص پریشانی نہیں ہے؛ اہلیہ کے موبائل میں سیم لگا دیا ہے، جب گھر پر رہتا ہوں تو انہیں کے موبائل میں مسییج وغیرہ دیکھ لیتا ہوں اور جو ضروری کال سمجھتا ہوں، لوٹا لیتا ہوں۔

ڈاکٹر حامد انصاری

بلکہ موبائل نہ ہونے کا فائدہ ہی ہوا کہ بلاواسطہ کتاب سے استفادہ زیادہ کر رہا ہوں اور مطالعہ میں اضافہ بھی ہوا ہے؛ دہلی کے پرگتی میدان میں عالمی کتب میلہ سے چند کتابیں خریدی تھیں، وہ پڑھنے کا بھرپور موقع مل گیا؛ان کتابوں میں ڈاکٹر حامد انصاری سابق نائب صدر جمہوریہ ہند کی تصنیف کردہ کتاب”سفرِ آشوب” سب سے پہلے پڑھا، یہ پانچ سو چوبن صفحات پر مشتمل ہے اور مغربی ایشاء یعنی مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات پر مضامین کا مجموعہ ہے؛ یہ کتاب مشرق وسطیٰ کی زمینی سیاست اور وہاں سالوں سے چل رہے غیروں کی کارستانیوں کو جاننے میں بہترین معاون ہے۔

مغربی ایشیاء

چونکہ حامد انصاری صاحب مغربی ایشیا کے معاملات کے ماہر ہیں،وہ انڈین فارن سروس میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں ؛ آپ متحدہ عرب امارات، افغانستان، پاکستان اور سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں؛ اس لئے ان ملکوں اور مشرقِ وسطی کے سیاسی حالات پر ان کی گہری نگاہ ہے اور ان کی تحریر پر اعتماد کرکے وہاں کے سیاسی پس منظر کو سمجھا جا سکتا ہے؛ سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں اور مسلم ممالک کی مغربی غلامی کے محرکات جاننے کے خواہش مندوں کو ضرور پڑھنا چاہئے۔

میرا تجربہ

مجھے ان پانچ دنوں میں تجربہ ہوا کہ موبائل کے نہ ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ، حالانکہ میرے قریبی احباب جانتے ہیں کہ میں موبائل سے کتنا سارا کام لیتا ہوں ،اس کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا؛ بعض مواقع پر وقتی پریشانی ہوئ لیکن اندازہ ہوا کہ اگر مزاج کو ڈھال لیا جائے تو پھر موبائل کے بغیر بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی؛میں اب بھی موبائل کے بغیر ہوں، دیکھئے کب خرینا مقدر ہے؟ اللہ کے فضل سے خریدنے کی اہلیت ہے لیکن کچھ دن ایسے ہی رہنے کا من کر رہا ہے ۔

دیگر مضمون

https://alamir.in/press-club-of-india-ka-motaassibanah-rawayyah/

3 thoughts on “زندگی موبائل کے بغیر”
  1. عمدہ پیغام دیا ہے۔ خوب ماشاءاللہ
    اللہ کتابوں کا عشق نصیب کرے ہم سب کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »