امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
بچے قوم کے مستقبل ہوتے ہیں، مستقبل انہیں کے دم سے منور ہوتا ہے مگر یہ تب ہوتا ہے جب انہیں تراش خراش کر مستقبل کے چیلنجز سے نبردآزماں ہونے کے لئے تیار کیا جائے، تربیت کی بھٹی میں تپاکر آنے والے مشکلات سے نپٹنے کا ہنر سکھایا جائے، زمانے کے نشیب و فراز کو حسنِ تدبیر سے حل کرنے کا علم وفن دیا جائے اور صحیح تعلیم وتربیت دی جائے؛ تعلیم وتربیت کے یہ فرائض قوم کے اساتذہ نبھاتے ہیں،یہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں جو اپنے خون جگر سے نونہالوں کی آبیاری کرکے قوم وملک کے لئے مفید اور کارآمد شہری بناتے ہیں، یہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں جو تن من دھن کی بازی لگا کر نسلِ نو کے ذہن ودماغ میں اخلاق و کردار کی معنویت بسا کر مہذب انسان بناتے ہیں،اس لئے تمام پیشوں میں پیشئہ تعلیم وتربیت کو اولیت وافضلیت حاصل ہے،نیز اساتذہ کے لیے مقام ومرتبہ و برتری ہر قوم میں مسلم ہے،اور کیوں نہ ہو جبکہ معلمِ کائنات سرکارِ کونین وثقلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم فداہ ابی وامی نے”إنما بعثت معلما” میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں” ارشاد فرما کر اپنی نسبت اساتذہ کو عطاء کردی اور اساتذہ کے مقام و مرتبہ میں چار چاند لگا دی؛ مگر اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کی زبون حالی بیان سے باہر ہے، ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ اساتذہ کے فضائل ومناقب پر خوب بحث کی جاتی ہے مگر عملاً انہیں وہ مقام عطاء نہیں کی جاتی، جن کے وہ مستحق ہیں،کتابیں لکھیں جاتی ہیں، مضامین چھاپے جاتے ہیں، سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں،٥ ستمبر کو “یومِ اساتذہ” پر تقریبات بھی منعقد کئے جاتے ہیں اور دوچار کو میڈلز بھی دے دئیے جاتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں ان کے مقام و مرتبہ کا خیال اس طور پر کہ انہیں ایک راحت بخش زندگی کی سہولیات دی جائے، ہم نہیں کرتے ہیں، ان کے معیارِ زندگی بلند کرنے کی بات ہو تو پھر سارے فضائل ومناقب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں،اور ہم عملی منافقت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں، نہ معیاری تنخواہ دیتے ہیں اور نہ معیاری سہولیات، بس کام چلاؤ اشیاءِ خورد ونوش دیدیتے ہیں اور سمجھتے ہیں بہت بڑا تیر مار لیا؛ کیا دینی ادارے؟ کیا جدید تعلیمی ادارے؟ سب جگہ یکساں صورتحال ہے، قوم کا سب سے معزز یہ طبقہ معاش کے تعلق سے سب سے زیادہ پریشان حال رہتا ہے، ہوش ربا مہنگائی کے دور میں معمولی سی تنخواہ پر خدمت لی جاتی ہے، جس سے گھر چلنا تو دور، بچوں کی تعلیمی فیس بھی بمشکل ادا ہوتی ہے،جبکہ ان اداروں کے ذمہ داروں کے اے سی کا بجلی بل بھی استاد کی تنخواہ سے زائد ہوتا ہے؛ جدید پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کم سے کم یہ سہولت ہے کہ تعلیمی اوقات کے علاوہ اساتذہ آزاد ہوتے ہیں، جس میں دیگر ذریعئہ معاش اختیار کر کے وہ اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں، مگر مدارس میں تو خارجی اوقات میں بھی اساتذہ کے لیے آزادی شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، اور تعلیمی امور کے علاوہ بھی ہزار ذمہ داریوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، جس کا از خود وظیفہ دیا جانا تو دور، مطالبہ کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے اور شانِ اقدس میں گستاخی تصور کیا جاتا ہے؛ بیچارے اساتذہ اگر تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کی درخواست کردیں تو کبھی خلوص کی تسبیح دے کر توکل کا ورد تھما دیاجاتا ہے، اور کبھی اکابر کی سادگی و بے لوثی کی دہائی دے کر جذبات و احساس کی دھجیاں ادھیڑ دی جاتی ہے، اچھا بو العجبی تو یہ ہے کہ یہ وعظ و نصیحت وہ شخص دے رہا ہوتا ہے، جن کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خلوص کے “خ”، توکل کے “ت” اور سادگی کے “س” سے ہو کر نہیں گزر رہی ہوتی ہے؛ ہمارے یہاں اساتذہ کے قدر کا یہ حال بھی دنیا نے دیکھا کہ لاک ڈاؤن لگا اور ہم نے اساتذہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا، اکثر ادارے کے ذمہ داروں نے تنخواہ دینا تو کجا، پلٹ کر خبر خیریت تک دریافت نہیں کیا،اساتذہ کے دینے کی بات آئی تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے مالی بحران کا رونا رویا گیا اور خود کی تن عیشی میں کوئی کمی نہیں رکھی گئی، ان ایک ڈیڑھ سال میں اساتذہ نے جس کسمپرسی اور بے بسی میں زندگی گزاری ہے، اس سے ہر صاحبِ دل کا دل چھلنی ہو گیا مگر سخت دل ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگا، اس صورت حال سے دل برداشتہ ہوکر ہزاروں علم کے بادہ کشوں نے تعلیم وتعلم کے مقدس پیشے سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اور چھوٹے موٹے کام میں لگ گئے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ دل تو چاہتا ہے کہ یہ داستانِ غم جم کر سناؤں،نام بنام سناؤں، پھر سوچتا ہوں کہ زیادہ تفصیل سے سناؤں گا تو بہت سی مقدس ہستیاں بھی اس زد میں آئیں گی اور پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ سنا کر بھی کیا فائدہ؟ یہ لوگ تو اِس کہاوت “زمیں ٹَلَّٹْ زماں ٹلٹ مگر گل محمد نہ ٹلٹ” کی طرح بدلنے والے ہیں نہیں۔

بہرحال ایسے میں ٥ ستمبر کو “یومِ اساتذہ” پر محض تقریبات منعقد کرنا اور زبانی جمع خرچ کرنا بے معنی ہے، اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں حقیقی اعزاز تو یہ ہے کہ انہیں زندگی کی تمام تر سہولیات کم سے کم متوسط طبقہ کے بقدر فراہم کی جائے، ان کی بنیادی ضروریات کا خیال کیا جائے، تنخواہ کے علاوہ اساتذہ کی ہنگامی ضرورت مثلاً بیماری وغیرہ کے لئے بھی فنڈ مختص کیا جائے، سرکاری اداروں کی طرح مکمل نہیں تو کچھ نہ کچھ مراعات ضرور دی جائے تاکہ اساتذہ یکسوئی و فارغ البالی کے ساتھ تعلیم و تعلم میں لگے رہیں ورنہ یاد رکھئے ابھی تو اساتذہ مل بھی جاتے ہیں مگر وہ دن دور نہیں کہ چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے، ایسے میں کاروبارِ چندہ اور اس پر عیش کیسے ہوپائے گا؟

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »