ایک روزہ سفر پٹنہ کے احوال و کوائف
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:تقریب رسم اجراء
نانا محترم حضرت مولانا ہارون الرشید قاسمی نور اللہ مرقدہ سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ بہار وسابق شیخ الحدیث مدرسہ نورالعلوم گٹھامن پالن پور گجرات کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب “علم و فن کے نیر تاباں” (مرتبہ:ڈاکٹر نور السلام ندوی) کے تقریب رسم اجراء میں شرکت کے لئے ٢٣ اکتوبر کی صبح پٹنہ پہنچا؛ صبح پانچ بجے گھر (جتوکا دربھنگہ) سے نکلا تھا اور نو بجے جائے قیام پر پہنچ گیا؛ رسم اجراء کی تقریب آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام، ملی کونسل کے دفتر پھلواری شریف میں تھا؛ ضروریات اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر مولانا سفیان صاحب قاسمی صاحب زادہ حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ اور مولانا محمد جاوید مظاہری کے ساتھ تقریباً دس پینتالیس پر ملی کونسل کے دفتر پہنچا؛ داخلی دروازہ پر ڈاکٹر نور السلام ندوی اور مفتی نافع عارفی قاسمی کارگزار جنرل سیکرٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار نے استقبال کیا؛ پروگرام کی صدارت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی دامت برکاتہم قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل فرما رہے تھے، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ شمس الہدی پٹنہ، ڈاکٹر امتیاز کریمی رکن بی پی ایس سی (بہار پبلک سروس کمیشن)، ڈاکٹر شکیل قاسمی پروفیسر اردو پٹنہ یونیورسٹی اور ڈاکٹر سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور سامعین میں پٹنہ کے باذوق علماء و دانشوران کا بڑا طبقہ موجود تھا۔
حسبِ روایت تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا، مفتی نافع عارفی قاسمی نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالی؛ کتاب، صاحب کتاب اور مرتب کا مختصر اور جامع تعارف پیش کیا اور حضرت مولانا ہارون الرشید رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالنے کے لئے اس حقیر کو پہلے پہل مدعو کیا؛ تقریباً دس منٹ ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے احساسات و تأثرات کا اظہار کیا؛ پھر یکے بعد دیگرے دیگر حضرات نے بھی اپنی باتیں رکھیں،حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے جڑی یادوں کو بیان کیا اور کتاب کے مرتب ڈاکٹر نور السلام ندوی کو مبارک باد دی؛تمام اظہارِ خیال کرنے والوں نے مشترکہ طور پر نئے قلم کاروں کو اپنے اپنے علاقے کے علمی، روحانی، دینی،ملی ،قومی، سیاسی و سماجی خدمت انجام دینے والے گمنام شخصیتوں کے احوالِ زندگی پر قلم اٹھانے کے لئے ابھارا اور ہرطرح سے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی، نیز اس سمت میں کام کرنے والوں کی خوب پزیرائی و حوصلہ افزائی کی؛ ڈیڑھ بجے کے قریب پروگرام مکمل ہوا اور ہر طرح سے کامیاب رہا؛پروگرام کے کامیاب انعقاد کے لئے آل انڈیا ملی کونسل بہار کی یونٹ مبارکباد اور شکریہ کی مستحق ہے؛ واضح رہے کہ یہ کتاب حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر مشتمل مشاہیر علماء کرام اور قلم کار حضرات کی تحریروں کا مجموعہ ہے، اس میں اس حقیر کی بھی دو تحریریں شامل ہیں۔
:المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء
تقریب سے فارغ ہو کر خواہش ہوئ کہ قریب ہی معہد ہے، دیکھ لیا جائے؛ چنانچہ مع رفقاء سفر مولانا نور السلام ندوی کی قیادت میں معہد میں حاضری ہوئی؛ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ کے تاریخی و سنہرے کارناموں میں سے بڑا کارنامہ معہد کا قیام ہے؛میری معلومات کے مطابق یہ ہندوستان کا پہلا ادارہ تھا جہاں افتاء و قضاء دونوں کی تعلیم و عملی تربیت کا آغاز ایک ساتھ کیا گیا تھا؛ افتاء و قضاء کے عملی مشق کے لئے امارت کے مفتیوں اور قاضیوں کی نگرانی میں جتنا عمدہ نظام یہاں ہے، شاید کہیں اور ہو، یہ اس ادارہ کا امتیاز ہے؛ معہد میں میرے زمانہ طالب علمی کے مقابلے تعمیری ترقی بہت ہوئ ہے؛ استقبالیہ پر موجود ملازم نے درسگاہ، لائبریری، طلبہ کے لیے کانفرنس ہال وغیرہ دکھایا؛ دوپہر کا وقت تھا، طلبہ قیلولہ کے لیے آرام کر رہے تھے، اس لئے سکون سے تمام چیزیں دیکھیں اور علم کے اس مرکز کو دیکھ کر بے اختیار قاضی صاحب رحمہ اللہ کے لئے دعائیں نکلیں۔
:امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دہلی واپسی کے لئے ٹرین شام کی تھی اور میرے پاس چار پانچ گھنٹے فارغ تھے؛ اس لئے امارت شرعیہ اور دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ جاکر اساتذہ کرام اور دیرینہ تعلقات والے کرم فرماؤں سے ملاقات کی خواہش تھی؛ میری عربی کی بنیادی تعلیم یعنی فارسی سے عربی دوم تک دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ میں ہی ہوئ، یہ ٢٠٠٢ء سے ٢٠٠٤ء کا دورانیہ ہے؛ اس وقت دارالعلوم الاسلامیہ، المعہد العالی للافتاء والقضاء کے مغربی جانب حضرت مولانا بدر الحسن صاحب مقیم حال کویت کی رہائش گاہ میں چل رہا تھا؛ اس طرح سے امارت کے قریب رہنے کا اتفاق رہا اور اس اتفاق سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا؛ امارت میں قریب و دور کے رشتہ دار کے علاوہ بہت سے زمانہ طالب علمی کے کرم فرما اور شناسا حضرات بھی خدمت پر مامور ہیں، ان تمام سے ملنے کی شدید خواہش تھی؛ ویسے بھی امارت شرعیہ پٹنہ بہار والوں کے لیے عقیدت و محبت کا مرکز ہے، امارت کے شرعی نظام کے خاکہ اور غیر اسلامی حکومت میں ایک امیر کے ماتحت حتی الوسع منظم اسلامی زندگی گزر بسر کرنے کی وجہ سے ملک کے علماء و دانشوران کو بہار والوں پر رشک آتا ہے، یہ بہار والوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے؛ ایسے میں پھلواری شریف پٹنہ میں موجود رہ کر امارت شرعیہ نہ جایا جائے تو بڑی محرومی کی بات ہے۔
:امارت شرعیہ کی مرکزی عمارت
چنانچہ امارت شرعیہ کی مرکزی عمارت پہنچ گیا، امارت کی عمارت میں چند جزوی تبدیلی کے سوا سب زمانہ طالب علمی جیسا ہی تھا؛ مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی قاضی القضاۃ مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ مفتی أنظار صاحب قاسمی اور ڈائریکٹر امارت اسکول مولانا ابوالکلام قاسمی صاحب پر نگاہ پڑ گئی؛ یہ دونوں حضرات اس حقیر کو زمانہ طالب علمی سے ہی بہت عزیز رکھتے ہیں، بے لوث محبت اس حقیر پر لٹاتے ہیں؛ دیکھتے ہی پہچان لئے، ظہرانہ کا وقت تھا، بڑی محبت سے امارت کے کینٹین میں لے گئے، حالانکہ ہم لوگوں کو کھانے کی خواہش بھی نہیں تھی اور دعوت بھی کہیں اور تھی مگر ان بزرگوں کے حکم کی تعمیل کرنی تھی سو کی؛ یہ دونوں حضرات نیک طینت، کم گو، صاف گو، خاموشی سے اپنی ذمہ داری کی حسن ادائیگی میں مگن رہنے والے ہیں؛ تقریباً بیس سال سے ان دونوں حضرات کو جانتا ہوں؛ ملنے ملانے کا وہی جاذبانہ انداز، خوش گفتاری کا وہی طرز اور خورد نوازی کی وہی ادا،دفتر دارالقضاء میں ایک گھنٹہ ان کی صحبت میں رہا؛ امارت میں ہوئے ترقیاتی کاموں کو جانا اور آئندہ ہونے والے پیش رفت کے سلسلے میں معلومات حاصل ہوئی جن کی تفصیل پھر کبھی، اللہ دونوں بزرگوں کو سلامت رکھے۔
دارالافتاء امارت شرعیہ میں صدر مفتی، مفتی سہیل صاحب اور مفتی سعید الرحمان صاحب سے بھی قدیم شناسائی تھی، ان حضرات سے بھی ملاقات ہوئی؛ مفتی سہیل صاحب مرنجا مرنج طبیعت کے مالک ہیں، طبیعت میں بے باکی ہے، جو کچھ سوچتے، سمجھتے ہیں، کھلم کھلا اس کا اظہار کرتے ہیں؛ مفتی سعید صاحب خاموش مزاج اور کام سے کام رکھنے والے ہیں، ان حضرات سے مل کر طبیعت کو بڑی شادمانی حاصل ہوئ؛ ان حضرات کے علاوہ مولانا شمشاد رحمانی صاحب نائب امیر شریعت، مفتی وصی صاحب نائب قاضی القضاۃ، مولانا رضوان احمد ندوی نائب مدیر “نقیب” اور مولانا قمر انیس صاحب معاون ناظم امارت شرعیہ سے ملاقات کی تمنا تھی مگر ان حضرات کے سفر میں ہونے کی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔
مولانا شمشاد رحمانی صاحب جامعہ عربیہ شمس العلوم شاہدرہ دہلی میں سالوں سے امتحان لینے کے لئے تشریف لاتے رہے ہیں تو تعلق تھا، یہی تعلق ملاقات کی داعی تھی؛ مفتی وصی صاحب دارالعلوم الاسلامیہ کے ہمارے خاص استاد اور مربی تھے، بے پناہ لگاؤ رکھتے تھے، حقِ استادی کا تقاضہ تھا کہ ملاقات کیا جائے اور مولانا رضوان احمد ندوی رشتہ کے ماموں ہیں، دوران طالب علمی مضمون نگاری سیکھنے کے لئے شوق دلاتے اور مفید مشوروں سے نوازتے رہتے تھے اور جیسی تیسی تحریر پر بھی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے؛ کئی بار عربی اول، دوم میں نقیب میں اس حقیر کی تحریر بھی شائع کی، ان احسانات کے شکریہ میں ملاقات کی خواہش تھی؛ مولانا قمر انیس صاحب رشتہ کے نانا ہیں لیکن ان کی شفقت و عنایت ہمیشہ اپنے نانا جیسی رہی ہیں، دور طالب علمی سے آج تک لطف و کرم کے بے شمار واقعات اس محسن سے ملنے کے لیے دل کو بے چین کر رہی تھی لیکن سوءِاتفاق ان سب حضرات کی ملاقات سے محرومی رہی۔
:دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ
دارالعلوم الاسلامیہ میری مادر علمی ہے، یہیں شعور و آگہی ملی،لکھنے پڑھنے کا ذوق حاصل ہوا،علم و تحقیق سے آشنائی ہوئ؛ امارت شرعیہ سے قریب ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً علمی، روحانی اور سیاسی شخصیات کو سننے اور ان سے ملنے کا موقع ملا؛ مختلف الخیال شخصیات کی ملاقات سے سوچ و فکر کو پروان ملا،ذہن کشادہ ہوا، دل دماغ میں وسعت پیدا ہوئ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کے حالات و معاملات کو قریب سے جاننے کا موقع ملا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شعبئہ حیات کے بڑوں سے شرفِ باریابی نے بہت سے ایسے سبق سکھادیئے جو شاہراہِ زندگی کے نشیب و فراز میں بہت کام آتے ہیں۔
دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ محتاج تعارف نہیں ہے،یہ بہار کے معروف و مقبول چنندہ اداروں میں سے ایک ہے؛ یہاں کے تعلیم و تعلم کا معیار بہت بلند ہے اور تربیت وتزکیہ مثالی ہے؛ قاضی القضاۃ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ سابق صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ و سابق نائب امیر شریعت امارت شرعیہ پٹنہ اس کے بانی و اول سرپرست تھے، ٢٠٠٠ء میں آپ نے اس کی بنیاد ڈالی تھی؛ آپ اسے تعلیم وتعلم اور تربیت و تزکیہ کے اعتبار سے بہار کا معیاری مرکزی ادارہ بنانا چاہتے تھے؛ آپ چاہتے تھے کہ اس کو دینی و دنیوی علوم وفنون کا ایسا منفرد ادارہ بنائیں کہ جہاں تشنگانِ علوم و معارف ایک ہی چھت کے نیچے اپنی تمام تر علمی پیاس بجھا سکیں اور اس کے لئے مختلف امراض کے باوجود ہمہ تن کوشاں تھے مگر ہائے حرماں نصیبی کہ ابھی آپ کا خواب شرمندہ تعبیر بھی نہیں ہوا تھا کہ آپ ہی سفرِ آخرت کو سدھار گئے،لیکن اس کے باوجود آپ کے خلوص نے ادارہ کو شاہراہ ترقی پر گامزن رکھا اور آج تک ترقی کی طرف رواں دواں ہے؛ ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دو چار سال اور حیات سے رہتے تو ادارہ کیفیت و کمیت کے اعتبار سے موجودہ حیثیت سے بہت آگے نکل چکا ہوتا، خیر اللہ رب العزت ادارہ کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔
جس وقت یہ حقیر وہاں زیر تعلیم تھا، اس وقت حضرت مفتی جنید صاحب قاسمی ندوی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ پٹنہ دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری تھے؛ مفتی خالد حسین نیموی قاسمی ناظم تعلیمات و صدر المدرسين تھے؛ مفتی منت اللہ قاسمی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ، مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی القضاة امارت شرعیہ پٹنہ، مفتی شکیل احمد قاسمی استاد حدیث و تفسیر ، مفتی نیر قاسمی استاد حدیث و تفسیر اور مفتی محبوب قاسمی حفظہم اللہ جیسے جبالِ علم اساتذہ تھے، حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ نے خود ان حضرات کی تربیت فرمائ تھی؛ یہ سب حضرات صلاحیت وصالحیت کے جامع تھے، علم وعمل اور ورع و تقویٰ کے پیکر تھے، فقہ و فتاویٰ اور درس و تدریس کے ماہر تھے، تعلیم وتعلم اور تربیت و تزکیہ کے مشاق تھے؛ ان کے شب و روز کی محنت اور دعاء نیم شبی کی وجہ سے مدرسہ میں ہمہ وقت تعلیمی گہما گہمی رہتی تھی،ہر ایک کی تربیت پر باریک نگاہ ہوتی تھی؛ تعلیم و تربیت کا ایسا نورانی ماحول بنا رہتا تھا کہ اس ماحول میں رہنے والا لکھنے پڑھنے کے ذوق و شوق سے بے بہرہ ہو، ا یسا ممکن نہ تھا؛بفضل اللہ ان تمام حضرات سے اس حقیر کو شرف تلمذ حاصل ہے اور ان کی شفقت و محبت کے سایے میں تعلیم و تربیت پانے کی سعادت پائ ہے۔
حضرت مفتی جنید صاحب تو دارالعلوم الاسلامیہ سے الگ ہو گئے؛ مفتی وصی صاحب امارت میں قاضی کی ذمہ داری سنبھال لئے؛ مفتی خالد حسین نیموی صاحب اور مولانا محبوب صاحب مدرسہ بورڈ کے ادارے سے منسلک ہو گئے؛ مفتی منت اللہ صاحب ،مفتی شکیل صاحب اور مفتی نیر صاحب اب بھی دارالعلوم الاسلامیہ کے اساتذہ حدیث و تفسیر ہیں؛ پس ان حضرات سے ملاقات کے لئے اپنے ایک سینئر ساتھی ڈاکٹر سرفراز قاسمی جالے دربھنگہ کی معیت میں دارالعلوم الاسلامیہ پہنچا، عصر کے بعد کا وقت تھا، اساتذہ اپنے مقامی گھروں پر گئے ہوئے تھے؛ وقت کی قلت کے باعث مفتی شکیل صاحب اور مفتی نیر صاحب کے گھر پر ہی حاضر ہو گیا ؛ دونوں حضرات نے بڑے تپاک سے استقبال کیا، محبتیں نچھاور کیں، حال احوال دریافت کئے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازے؛ میری اپنی ایک عادت ہے کہ میں اساتذہ کے سامنے بس ضروری بات ہی اور ایک دوسرے سے متعلق ہی گفتگو کرتاہوں، نہ ادھر ادھر کی اور نہ احوالِ عالم کی، اس لئے مجلس مختصر ہی سہی مگر پر کیف و پر سرور رہی؛ مفتی منت اللہ صاحب آبائی وطن سوپول گئے ہوئے تھے جس وجہ کر ان سے ملاقات کی حسرت لئے ہوئے واپس لوٹ آیا؛ کبھی موقع آیا تو فرداً فرداً ان مربیین حضرات کی خوبیوں کو قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا انشاء اللہ العزیز۔
پٹنہ کا یہ ایک روزہ دینی،علمی،روحانی سفر احقر کے لئے بےحد یادگار اور دل و دماغ کے لئے فرحت بخش رہا، مختصر سہی مگر پر کیف رہی اور بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں،اللہ رب العزت منتظمین کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔
:یہ بھی پڑھیں
https://alamir.in/talaba-e-madaaris-ki-ghatti-taadad-ke-asbaab-
http://جدید سائنسی ترقی کے غیر فطری اثرات https://hamaritahzeeb.com/archives/796