انتخاب کے تعلق سے ایک مشورہ
انتخاب کے تعلق سے ایک مشورہ

انتخاب کے تعلق سے ایک مشورہ 

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

عوامی رجحان 

ملک میں اٹھارہویں لوک سبھا کے لئے انتخاب جاری ہے، دو مرحلہ کی ووٹنگ ہو گئ ہے اور پانچ مرحلے کا باقی ہے ؛ان دو مرحلوں کی ووٹنگ میں عوامی رجحان حزب مخالف کے حق میں دیکھنے کو ملا ہے، جس سے حکمراں جماعت کے شکست کی امیدیں بندھی ہیں لیکن دو سیٹوں پر خرد برد کر حکمران پارٹی کی بلا مقابلہ جیت ،حزب مخالف کے امیدواروں کی پرچئہ نامزدگی کی واپسی اور ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار میں گڑبڑی کی خبروں سے اپوزیشن کے جیت کی امیدیں ٹوٹتی نظر آتی ہیں،؛ ان حالات میں حکمراں اور حزب مخالف میں سے کسی ایک کے فتح و شکست کے بارے میں فی الحال کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا، لہذا میرا انتخاب کے تعلق سے مشورہ ہے کہ مسلمان انتہائی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھائے  ۔

ملک اور عوامی مفاد

 یہ انتخاب ملک اور عوامی مفاد کے پس منظر میں بہت اہم ہے، ایسا مانا جا رہا ہے کہ اس بار حکمران جماعت کی واپسی کی صورت میں ملک کا تنظیمی ڈھانچہ بالکل بدل جائے گا اور ملک کا نظام جمہوریت سے ہندوازم  میں بدل دیا جائے گا؛چند سرمایہ داروں کو ملکی وسائل پر قبضہ دے دیا جائے گا اور غریب عوام مزید غریبی کی کھائ میں گرتی چلی جائے گی، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور پسماندہ برادریوں  کے بنیادی حقوق چھین لئے جائیں گے ؛ ایسا اس لیے کہ حکمران جماعت کے ممبران و وزراء برسرِ عام اس کا اظہار کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں، بلکہ ملک کے سب سے اہم عہدہ پر فائز صاحب نے بھی اشاروں اشاروں میں اس کا عندیہ دیا ہے؛ اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاسی مبصرین  بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں اور اس کے لئے بہت فکرمند ہیں؛ اس لحاظ یہ انتخاب بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ ملک کے مستقبل کا رخ طے کرنے والا ہے ۔

افسوس ناک پہلو 

 اس انتخاب کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسے حکمران جماعت بمقابلہ مسلمان بنانے اور دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، خود حکمران جماعت کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیر اعظم مسلمانوں کا نام لے کر زہر اگل رہے ہیں اور اکثریت کے ووٹ کو متحد رکھنے کے لئے ان کے دل دماغ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت انڈیل رہے ہیں؛ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملک کے وزیراعظم نے کسی ایک کمیونٹی کا نام لے کر برسرِ اسٹیج اسے نشانہ بنایا ہو مگر اس وقت ملک کے وزیر اعظم ساری حدیں پاڑ کرتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں ؛ دوسری طرف ہم مسلمان بھی اپوزیشن سے زیادہ اپوزیشن موڈ میں ہیں، ہمارے چوٹی کے بعض علماء کھل کر ہر پلیٹ فارم پر مسلمانوں کو حکمراں جماعت کے خلاف ووٹ کرنے پر ابھار رہے ہیں، جو سیاسی حکمت و بصیرت کے بالکل خلاف ہے اور اس کے مسلمانوں پر دوررس نقصان کے امکانات ہیں ۔

حکمت عملی

ضرب المثل ہے کہ “سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے”،بحیثیت مسلمان ہمیں اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے؛ یقیناً ہم سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ حکومت بدلے، ممکنہ حد تک جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، ہمیں کرنا چاہیے لیکن حکمت و تدبر کے ساتھ کرنا چاہیے؛ کھلے عام خاص پارٹی یا فرد کو نامزد کرکے اپیل کرنا کہ فلاں کو ووٹ  دیا جائے اور فلاں کو نہ دیا جائے، یہ ذاتی اور ملی دونوں حیثیت سے نقصان دہ ہے؛ اس سلسلے میں ہماری خالص مذہبی قیادت اور مسلم تنظیموں نے جو رخ اپنایا ہے، وہ لائقِ ستائش اور عینِ حکمت ہے، یہی طریقہ عام علماء اور عوام کو اپنانا چاہیے؛  پس مشورہ ہے کہ خاموشی کے ساتھ ووٹ فیصد بڑھانے کی کوشش کی جائے ، بعض صوبہ میں مسلم ووٹ بکھرنے کا اندیشہ ہے، اسے متحد رکھنے کے لیے زمینی سطح پر کام کیا جائےاور اللہ سے دعاء کی جائےکہ ظالم حکمراں سے اللہ رب العزت نجات عطاء فرمائے۔

:دیگر تحریر

https://alamir.in/madrasatul-banaat-ka-mukhtasarul-miaad-nisaab/

http://لوکی ،قرآن، احادیث اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں https://hamaritahzeeb.com/archives/742

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »