عقل مندى اور راحت و سكون
امام ابن حزم قرطبی رحمۃ اللہ علىہ (٣٨٤-٤٥٦) پانچویں صدی ہجری کے عالمِ اسلام کے نامور عالم، فقىہ، حافظ حدىث اور محقق گزرے ہیں، آپ کی کتاب “كتاب مداواة النفوس”(یہ كتاب الأخلاق والسير كے نام سے بھى مشہور ہے) کا اردو ترجمہ “تزکئہ نفس” کے نام سے کیا گیا ہے، تزکیہ پر یہ ایک زبردست کتاب ہے، جسے اہلِ علم کو ضرور پڑھنا چاہئے، اسی کتاب سے یہ اقتباس پیش خدمت ہے ۔۔۔امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
٭ عقل مندى اور راحت و سكون كا واحد ذرىعہ ىہ ہے كہ لوگوں كى باتوں كى قطعاً پرواہ نہ كى جائے اور خالقِ كائنات كے ساتھ تعلق كو مدنظر ركھا جائے۔
٭ جو شخص ىہ سمجھتاہے كہ وہ لوگوں كے طعن و تشنىع سے محفوظ رہ جائے گا وہ ’’دىوانہ ‘‘ ہے۔
٭ جو شخص حقىقت بىن نگاہ كا حامل ہو اور حقائق كے ذرىعے سكون حاصل كرنے كا رسىا ہو، اگرچہ ان كى پہلى ضرب اس كے لىے درد ناك ہى كىوں نہ ہو، اسے لوگوں سے اپنى مدح و توصىف كى نسبت تنقىد سن كر كہىں زىادہ خوشى ہوتى ہے كىونكہ اگر ان كى تعرىف و توصىف بجا ہو اور ىہ اس كے علم مىں آجائے تو اس مىں ’’ خود پسندى‘‘ سراىت كر جائے گى، اس طرح اس كى خوبىاں مكدر ہو جائىں گى؛ اگر ان كى تعرىف غلط اور بے جاہو اور وہ اس سے آگاہ ہو جائے تو اسےخوشى محسوس ہوگى، حالانكہ اس كا خوش ہونا جھوٹ پر مبنى ہوگا اور ىہ بہت بڑى خامى ہے۔
٭ اگر لوگوں كى تنقىد برحق ہو اور آدمى كو اس كا پتہ چل جائے تو ہوسكتا ہے كہ ىہ چىز اس كے لىے اس خامى سے بچنے كا باعث بنے؛ ىہ اىك اىسى بڑى ’’خوش نصىبى‘‘ ہے كہ كم عقل ہى اس سے بے نىاز ہوتا ہے۔
٭ اگر وہ تنقىد و مذمت ناحق ہو اور پتہ چل جانے كے باوجود متعلقہ آدمى اس پر صبر كا مظاہرہ كرے، تو اس نے بردبارى اور صبر كے ذرىعے اىك اضافى خوبى حاصل كر لی، غنىمت كا حصول اس كے علاوہ ہے؛ اىسا كرنے سے وہ ناحق مذمت كرنے والے كى نىكىاں لے لے گا اور دارالجزاء مىں اس وقت محظوظ ہوگا جب نجات پانے كے لىے محنت و مشقت كے بغىر حاصل ہونے والے عملوں كى شدىد ترىن ضرورت ہوگى؛ ىہ اىك اىسى بڑى خوش نصىبى ہے كہ بے عقل ہى اس سے بے نىاز رہ سكتا ہے۔
٭ اگر اسے لوگوں كى ’’ مداح سرائى‘‘ كا علم نہ ہو تو ان كى تعرىف و توصىف اور خاموشى دونوں اس كے لىے برابر ہىں، جب كہ ان كى طرف سے ہونے والى تنقىد كى صورت حال ىہ نہىں ہے، تنقىد كا علم ہو ىا نہ ہو ہر حال مىں اسے اجر و ثواب حاصل ہوگا۔
٭ اگر ’’مدح و توصىف‘‘ كے بارے مىں رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم كا ىہ فرمان نہ ہوتا کہ “تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِن یہ مومن كے لىے پىشگى بشارت ہے” تو اس كا لازمى نتىجہ ىہ ہوتا كہ عقل مند شخص ناحق مذمت كىے جانے كى بنسبت بجا طور پر مدح و توصىف كا زىادہ خوگر ہوتا؛ چونكہ ہمىں آپ صلى اللہ علىہ وسلم كا ىہ فرمان معلوم ہوچكا ہے ،اس لىے ىہ بشارت حق كى بنا پر ہوگى باطل كے ذرىعے نہىں؛ ىوں سمجھئے كہ ىہ بشارت ممدوح مىں پائى جانے والى خوبى كى وجہ سے ہوتى ہے، محض مدح و توصىف كى بنا پر نہىں ہوتى۔
https://alamir.in/intekhab-ke-taalluq-se-ek-mashwirah/