پانی پلانا:عظیم خدمتِ خلق
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اس وقت قومی راجدھانی دہلی سمیت ملک کے مختلف خطوں میں پانی کی شدید قلت ہے اور لوگ پانی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں ، ایسے میں صاحبِ حیثیت لوگوں کو آگے آنا چاہیے اور ضرورت مندوں کے لئے پانی کا نظم کرنا چاہیے؛ اسلام میں پیاسوں کو پانی پلانا اور ضرورت مندوں تک پانی پہنچانا، بڑے ثواب کا کام ہے، بظاہر یہ ایک معمولی عمل ہے لیکن احادیث میں اس پر غیر معمولی ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور جنت کی بشارت دی گئی ہے ؛ احادیث شریفہ میں پانی کے ذریعے خدمتِ خلق اور ثواب پانے کی کئی جہتوں کا بیان ہے ، آئیے! جانتے ہیں ۔
:جنت میں دخول کا سبب
ضرورت مندوں کے لئے پانی کا نظم کرنا اور پیاسوں کی پیاس بجھانا، اللہ رب العزت کو بہت محبوب ہے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنت میں داخلہ عطاء فرمائیں گے اور اسے جنت کے پانی سے سیراب کریں گے؛ حضرت ابوسعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ”جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے گا، تو اللہ تعالی اس کو جنت کا ہرا لباس پہنائے گا، اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالی جنت کی شراب پلائے گا“ (ابوداوٴد: باب فی فضل سقی الماء )۔
بعض علاقے ایسے ہیں، جہاں پانی کی کثرت ہوتی ہے اور بعض علاقے ایسے ہیں، جہاں پانی کی قلت ہوتی ہے، حدیث شریف میں دونوں جگہوں پر پانی پلانے پر ترغیب دلائی گئی ہے؛ چنانچہ اما عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا :”جہاں پانی کی کثرت ہو ، ایسی جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تواس کو غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا، اور جہاں پانی کی کثرت نہ ہو یعنی بمشکل پانی ملے ، ایسی جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے، جیسے اس نے زندگی بخش دی ہو “ ( ابن ماجہ:باب المسلمین شرکاء فی الثلث)۔
:گھر گھر پانی پہنچانا
ایک روایت میں ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیجیے، جو مجھے اللہ عزوجل کی اطاعت سے قریب اور جہنم سے دور کردے ، فرمایا: کیا تم ان دونوں پر عمل کرو گے ؟ تو اس نے کہا : ہاں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصاف کی بات کہو اور زائدچیز دوسروں کو دے دو، اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہ تو انصاف کی بات کرسکتا ہوں اور نہ زائد چیز کسی کو دے سکتا ہوں؛ فرمایا: کھانا کھلاوٴ اور سلام کرو، اس نے کہا : یہ بھی مشکل ہے؛ فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا:ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اونٹنی اور ایک مشکیزہ لو، پھر ان لوگوں کے گھر جاوٴ جن کو پانی کبھی کبھی ملتا ہے ، انھیں پانی پلاوٴ، شاید کہ تمہاری اونٹنی ہلاک ہواور تمہارے مشکیزہ پھٹ جائے اس سے پہلے تمہارے لیے جنت واجب ہوجائے گی؛ راوی کہتے ہیں کہ : وہ دیہاتی تکبیر کہتا ہوا چلا، کہتے ہیں : اس کے مشکیزہ کے پھٹنے اور اس کی اونٹنی کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہادت سے مشرف ہوگیا (السنن الکبری للبیہقی، باب ما ورد فی سقی الماء) ۔
:بہترین صدقہ
پانی پلانا اور پیاسوں کو سیراب کرنا بہترین صدقہ ہے ، جس پر احادیث میں بہت زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عمل کے اعتبار سے معمولی ہے، مگر اجر کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے؛ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے سعد! کیا میں تمہیں ایسا ہلکا صدقہ جس میں بوجھ بالکل کم ہو، نہ بتاوٴں؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! فرمایا: ”سقی الماء“ یعنی پانی پلانا، چنانچہ حضرت سعد نے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا(المعجم الکبیر للطبرانی)۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ :کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :”سقی الماء“ یعنی پانی پلانا؛غور کیجئے کہ حدیث میں اس کو کتنی اہمیت دی گئی ہے اور اسے افضل صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
:صدقئہ جاریہ
انسان جب مرجاتا ہے، اعمال کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے مگر انسان اپنے حیات میں ایسا کوئی کام کر جائے، جس سے بعد والے اس کے مرنے کے بعد بھی فائدہ اٹھائیں، تو اس سے مرنے والے کو ثواب ملتا رہتا ہے، اسے صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے ؛ پانی پلانا بھی صدقہ جاریہ میں سے ہے۔
چنانچہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول : میری والدہ وفات پاگئی ہیں،ان کی طرف سے کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی کا صدقہ؛ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا کر وقف کردیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کے لیے ہے (ابوداوٴد: باب فی فضل سقی الماء)۔
:حیوان کو پانی پلانا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ایک شخص جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی ، اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا؛ پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے؛ اس نے اپنے دل میں کہا ، یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی؛ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے کو پانی سے بھر کر اسے اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اوپر آیا ، اور کتے کو پانی پلایا؛ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرما دی؛ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ہمیں چوپاؤں پر بھی اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا ، ہر جاندار میں ثواب ہے “(بخاری شریف : باب فضل سقی الماء)۔
ان روایات سے ثابت ہوا کہ پیاسوں کو پانی پلانا، تشنہ لبوں کو سیراب کرنا، انسانوں اور حیوان کے لئے پانی کی فراہمی کا سامان مہیا کرنا، اللہ کی رضاء کا سبب ، جنت کے حصول کا ذریعہ اور بعد از مرگ کام آنے والاہے؛ لہذا اہل ثروت کو چاہئے کہ سمر سیور، بوریل، ٹنکی اور ٹینکر وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے پانی کا نظم کرے، تاکہ دارین میں سرخروئی حاصل ہو۔
:یہ بھی پڑھاجائے
https://alamir.in/paani-ka-bohraan-aur-islami-taleemaat-
http://صنعتی انقلاب اور ماحولیات https://hamaritahzeeb.com/archives/828
[…] https://alamir.in/paani-pilana-azeem-khidmaat-e-khalq/ […]
اس مضمون سے ثابت ہوا کہ پیاسوں کو پانی پلانا، تشنہ لبوں کو سیراب کرنا، انسانوں اور حیوان کے لئے پانی کی فراہمی کا سامان مہیا کرنا، اللہ کی رضاء کا سبب ، جنت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ہم سب کو اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔۔( امین)