جمعیت اور سیاست
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اسلام اور سیاست
سیاست کوئی بری چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسلام میں یہ ممنوع ہے بلکہ منصفانہ نظامِ حکومت کے قیام کے لئے سیاست میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے؛ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اور خود آقا ﷺ نے سیاست کی ہے، حدیث شریف میں ہے:”بنی اسرائیل کی سیاست اس کے نبی کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہو جاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے؛ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: آپ ان کے بارہ میں کیا حکم فرماتےہیں؟ ارشاد فرمایا: یکے بعد دیگرے ہر بیعت پر وفا کرو“(بخاری، مسلم، مسند احمد)؛ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ﷺ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :”اللہ تعالٰی نے آپ کی ذات گرامی میں کردار کی بلندی اور سیاست کی جامعیت رکھ دی تھی ورنہ آپ امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنا“۔(احیاء العلوم جلد دوم، کتاب آداب المعیشۃ و أخلاق النبوۃ)
جمعیت کی سیاسی خدمت
انبیاء کرام علیہم السلام کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے علمائے کرام نے ہر زمانہ میں ملکی سیاست میں کسی نہ کسی صورت میں حصہ لیا اور اسلام کے دوسرے شعبوں کی طرح سیاست کے اس شعبہ میں بھی لوگوں کی رہبری اور رہنمائی کی؛ لادینی اور گندی سیاست کی غلاظتوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لایا اور اس سلسلے کے راہ کی صعوبتوں کو برداشت کیا؛ جمعیت علماء ہند کا قیام بھی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے ساتھ سیاسی رہبری کی ضرورت کی تکمیل کے لئے ہوئی تھی، چنانچہ ٢٨؍دسمبر ١٩١٩ء کے امرتسر کے جمعیت کے پہلے اجلاس میں عارضی صدر مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ نے جمعیت کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں کہ اقتصادیات و شخصیات کی اصلاح تو علماء کا فرض ہو اور سیاست سے علیحدہ رہنے کی انہیں ہدایت کی جائے، اور سیاسیات کو مذہبی دائرہ سے خارج سمجھ کر ان لوگوں کے لیے چھوڑدیا جائے جو مذہبی معلومات پر چنداں عبور نہیں رکھتے“۔(علماء میدان سیاست میں، صفحہ نمبر ٣٩٥، مطبوعہ بیت العلوم لاہور)
جمعیت کی سیاست سے علیحدگی
جمعیت علماء ہند آزادی سے قبل مسلمانوں کی مذہبی و شرعی رہبری کے ساتھ سیاسی امور میں بھی رہنمائی کرتی رہی اور آزادی کے تمام سیاسی تحریکوں میں شامل رہی تا آنکہ ملک آزاد ہو گیا؛ پھر اچانک کیا ہو گیا کہ ملک کی آزادی کے معاً بعد جمعیت علماء ہند نے عملی سیاست سے کنارہ کشی کا بڑا فیصلہ لے لیا؟ اس فیصلہ کے محرکات کیا تھے؟ یہ تو اس وقت کے اربابِ جمعیت بہتر جانتے ہیں یا اللہ رب العزت مگر یہ سوال ضرور ہوگا کہ ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کو بعد از تقسیم والے بھارت میں سیاسی قدم جمانے کی شدید ضرورت تھی، عین اس وقت سیاست سے الگ تھلگ رہنے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟ اور کس امید پر کڑوڑوں مسلمانوں کے سیاسی تقدیر کا فیصلہ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں میں د ے دیا گیا، جس کی مسلم دشمنی کی گواہی قرآن کریم دے رہا ہے کہ”تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو ( کھل کر ) شرک کرتے ہیں“۔(سورہ مائدہ، آیت نمبر ٨٢)
جمعیت پر الزام
یہی نہیں کہ جمعیت سیاست سے الگ تھلگ رہی بلکہ یہ حقیقت بھی قبول کرنا چاہیے کہ آج تک جمعیت نے مسلمانوں کی اپنی لیڈر شپ کو مضبوط کرنے کے لئے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوشاں افراد و جماعت کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ اس کی اعلیٰ قیادت پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ یہ لوگ پس پردہ ایسی کسی بھی تحریک کو ناکام بنانے میں شامل رہے ہیں؛ جمعیت کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کو علیحدگی پسند سیاست سے نفع کم اور نقصان زیادہ ہوگا اور تھوڑی بہت سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص ملک کے نفرتی ماحول میں تن تنہا مسلم سیاست کی حمایت نہیں کرے گا لیکن برادران وطن کے پسماندہ اور مظلوم طبقات کے ساتھ مل کر بھی اپنا سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی جمعیت کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ ہے کہ ہم سیاسی غلام بن چکے ہیں؛ اسلام میں زندگی کے تمام شعبوں کی رہنمائی موجود ہے، پھر یہ کیسے مناسب ہے کہ ہم سیاسی رہنمائی کسی غیر سے لیں یا اسے ہی اپنا سیاسی قائد و لیڈر بنائیں؟
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا موقف
حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضرت اگر ایک شخص سیاست کا ماہر ہے مگر ہے کا فر، اگر اس میں اس کی اقتداء کر لی جائے کیا حرج ہے؟ فرمایا کہ اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ اگر کافر نماز خوب جانتا ہو اور مسلمان نہ جانتا ہو تو کیا اس کافر کی اقتداء جائز ہے؟ شبہ کا منشاء یہ ہے کہ سیاست کو لوگ دین نہیں سمجھتے، خود یہی سخت غلطی اور جہل اعظم ہے، سیاست بھی تو دین ہی ہے؛ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اسلام نے سیاست کی تعلیم نہیں کی، سو یہ کتنی بڑی تحریف ہے؟ پھر دین میں کافر کی اقتداء کرنا کیا معنی؟ نیز کیا اس میں اسلام اور مسلمانوں کی اہانت نہیں ہے اور کیا کوئی شخص کہیں یہ بات دکھلا سکتا ہے کہ اسطرح سے اسلام اور مسلمانوں کی اہانت کرانا اور ان کو ذلیل کرانا جائز ہے اور کیا مسلمانوں میں ایسا کوئی نہیں کہ وہ سیاست جانتا ہو؟ البتہ اس طریق سے ان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں کہ کافر تابع ہوں اور مسلمان متبوع اور یہاں بالکل عکس ہے کہ مسلمان تابع اور کافر متبوع اور مجھ کو عوام کی اور لیڈروں کی شکایت نہیں، وہ جہل میں مبتلا ہیں ہی، شکایت تو علماء کی ہے کہ وہ اس غلطی میں پھنس گئے؛ حق تعالی ہدایت فرمائیں اور جہل سے محفوظ رکھے؛ مجھ کو ایسی باتیں سن کر بے حد قلق اور صدمہ ہوتا ہے جب لکھے پڑھوں کی نسبت سنتا ہوں کہ وہ ایسی خرافات کے حامی اور دلدادہ ہیں؛ انا للہ وانا اليه راجعون! عجيب بات ہے کہ خسران کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں مگر جس بات کی پچ ہو گئی اس سے نہیں بنتے اور ایسے ایسے لچر استدلالات اور تاویلات کرتے ہیں جو اہل علم کی شان کے بالکل خلاف ہے۔(ملفوظات حکیم الامت جلد ٣،ملفوظ نمبر ٢٤٥)
اب بھی موقع ہے
جمعیت اس ملک میں مسلمانوں کی سب سے قدیم اور سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے اور مسلمانوں کی سب سے مضبوط آواز ہے، ملک بھر کے کونے کونے میں اس کے ممبران و ارکان موجود ہیں؛ اگر اس کے پلیٹ فارم سے اس پر قدم اٹھایا جاتا تو کامیابی یقینی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں ہم نے غیروں کو ہی اپنا لیڈر بنانے میں اپنی توانائی صرف کی اور کبھی اِس کو اور کبھی اُس کو سر پر بٹھاتے رہے لیکن اب بھی وقت نہیں گیا ہے، اب بھی لمبی پلاننگ کے ساتھ اس سمت میں قدم بڑھایا جائے تو کامیابی ضرور ملے گی۔
https://alamir.in/ihaanat-e-rasool-saw-aur-hamara-ghair-motadil-rawayya/