اولاد کی کردار کشی میں والدین کا کردار
اولاد کی کردار کشی میں والدین کا کردار

اولاد کی کردار کشی میں والدین کا کردار

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

بچوں کی تربیت

بچوں کی تربیت میں سب سے بڑا دخل والدین کا ہوتا ہے، والدین جس مزاج و مزاق کے ہوتے ہیں، بچے بھی غیر محسوس طریقے سے اسی مزاج و مزاق میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں؛بریں بناء قرآن و حدیث میں بار بار والدین کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے آگاہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ والدین کا بچوں کے تئیں سب سے بڑی ذمہ داری اور اہم فریضہ ہے لیکن والدین اپنی اس ذمہ داری کو نہ سمجھ رہے ہیں اور نہ ادا کرنے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں بلکہ حالات اس قدر دگرگوں ہے کہ والدین اولاد کی کردار سازی کے بجائے کردار کشی کر رہے ہیں؛ چنانچہ بارہا تجربہ ہوا کہ بہت سے نوجوان افہام و تفہیم کے نتیجے میں اور عالمی و ملکی سطح پر مسلمانوں کے حالات سے متأثر ہو کر جب گناہوں کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہوئے ہیں تو خود والدین اور اپنے لوگ اس کے لئے راہ کا روڑا بنے ہیں؛ چند ماہ قبل کی بات ہے ایک نوجوان لاپرواہی کی زندگی سے توبہ کرکے نماز کا پابند ہو گیا اور تین دن کی جماعت میں چلا گیا، اس کے والدین اس کے پیچھے ایسا پڑے کہ وہ تنگ آکر سب کچھ چھوڑ دیا، پھر اس حقیر نے اسے سمجھایا تو وہ پھر پلٹ کر آیا؛ ایک نوجوان نے شرعی ڈاڑھی رکھ لی تو خود اس کے والدین چڑھانے کے لئے اسے ملا جی کہنے لگے، اور یہ طعنہ دینے لگے کہ تمہارا رشتہ اچھے گھرانے میں نہیں ہوگا۔

فحش کاری اور بے حیائی 

یہ تو نماز اور ڈاڑھی کی بات تھی، معاملہ اس سے بہت آگے پہنچ چکا ہے کہ والدین خود فحش کاری اور بے حیائی کی ترغیب ہی نہیں دلاتے ہیں بلکہ مواقع فراہم کرتے ہیں؛ پرانی دہلی کا عام رواج ہے کہ تیس کے آس پاس تو لڑکے لڑکی کا رشتہ لگاتے ہیں اور پھر کم از کم ایک دو سال یونہی چھوڑ دیتے ہیں؛ اس دوران انہیں ملنے جلنے اور ساتھ میں گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی دیتے ہیں، جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اکثر جوڑے نکاح سے قبل ہی جسمانی تعلقات قائم کر لیتے ہیں؛ جب انہیں سمجھاتے ہیں کہ ابھی رخصتی نہ کرنا چاہتے ہیں تو نکاح کر دیں، تاکہ حرام کاری سے بچے رہیں تو صاف منع کر دیتے ہیں؛ کوئی ایک سال قبل کی بات ہے، مغرب سے قبل بیس بائیس سال کا ایک نوجوان میرے پاس آیا، کرتا پائجامہ میں ملبوس، چہرے پر ہلکی پھلکی ڈاڑھی اور سر پر ٹوپی، حلیہ نوجوان کے دیندار ہونے کو ظاہر کر رہا تھا؛ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا کہ امام صاحب میرا نکاح پڑھا دیں گے؟ میں نکاح نہیں پڑھاتا ہوں اور یہ بات علاقے میں سبھی کو معلوم ہے، پھر بھی وہ نکاح کے لئے میرے پاس آیا، میں سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے؛ خیر تھوڑے توقف سے میں نے کہا کہ پڑھا تو دوں گا لیکن نکاح کس نوعیت کا ہے؟ اس کی وضاحت کریں ۔

ایک نوجوان کا واقعہ 

نوجوان نے بتایا کہ میرا خاندان کی ایک لڑکی سے دو سال سے رشتہ لگا ہوا ہے،نکاح نہیں ہوا ہے، ہم آپس میں گھومنا پھرنا، ملنا جلنا سب کرتے ہیں اور یہ آزادی ہم دونوں کو ہمارے گھر والوں نے ہی دے رکھی ہے؛ اتفاق سے ایک جمعہ آپ نے اسی موضوع پر بیان کیا کہ نکاح سے قبل کسی طرح کا بھی تعلق جائز نہیں ہے خواہ رشتہ پختہ ہی کیوں نہ کر لیا گیا ہو؛ میں جماعت میں بھی جاتا ہوں مگر یہ سب مجھے معلوم نہیں تھا، جب سے معلوم ہوا تو گھر والوں سے کہہ رہا ہوں کہ میرا نکاح کروا دو تو وہ تیار نہیں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی عمر ہی کیا ہے؟ پچیس پورا ہونے دو، پھر رخصتی کرائیں گے ؛ امیر صاحب کے ذریعے بھی کہلوایا مگر وہ راضی نہیں ہو رہے ہیں اور میں اس سے بالکل دوری بنا لوں، یہ اب ممکن نہیں ہے؛ اس لئے میں چھپ کر نکاح کرنا چاہتا ہوں، آپ میری اس سلسلے میں مدد کریں ۔

میرا تجربہ

یہ ایک واقعہ نہیں ہے،اس قسم کے بے شمار واقعات میرے سامنے آتے رہتے ہیں، چونکہ میں نوجوانوں کے ساتھ بہت بےتکلف اور فرینڈلی رہتا ہوں تو سب آ آ کر اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں؛ امامت کے ان چار سالوں میں میرا تجربہ ہے کہ پرانی دہلی میں اکثر نوجوانوں (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) کا یہی حال ہے اور اس میں ماں باپ سب سے بڑے مجرم ہیں؛ جب میں موجودہ مسجد میں امامت کے لیے آیا تھا تو ایک نوجوان تبلیغی جماعت سے جڑا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ امام صاحب میں جماعت میں بھی جاتا ہوں، نماز بھی پابندی سے پڑھتا ہوں اور کئی لڑکیوں کے ساتھ بات چیت، گھومنا پھرنا بھی ہے، سوچتا ہوں کہ چھوڑ دوں لیکن چھوٹتا نہیں ہے؛ خیر میں نے اسے سمجھایا، ترکیب بتلائ اور کہا کہ گھر والوں سے کہو کہ جلد نکاح کرا دیں؛ چار سال سے گھر والوں کو کہتا رہا، اب جاکر انہوں نے رشتہ لگایا ہے، اسی رمضان کے پندرہویں روزہ میں اور رخصتی میں ابھی چھ مہینے مزید انتظار کرنا ہوگا، مزے کی بات یہ ہے کہ گھر والوں نے خود لڑکی کا نمبر دیا کہ خیر خیریت معلوم کرتے رہنا؛ لڑکے نے رابطہ نہیں کیا مگر جب کئ دن گزر گئے تو خود لڑکی کے فون اور میسیج آنے لگے اور بات شروع ہو گئی جبکہ لڑکا اعتکاف میں تھا؛ خیر میں نے اسے سمجھایا کہ گھر والوں کو کہو کہ ابھی نکاح کردیں، رخصتی بعد میں کروا لیں مگر اس پر راضی نہیں ہوئے؛ میں نے اسے تدبیر بتائ کہ کہو کہ نکاح کردیں ورنہ خود ہی کرلیں گے تو جاکر مانے اور اب آج کل میں نکاح ہے ۔

رمضان المبارک کی بات ہے کہ ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا کہ آپ سے کچھ پرسنل بات کرنی ہے؛ میں نے کہا کہ کہو تو کہنے لگا کہ میرا ایک لڑکی سے تعلق تھا، ہم لوگ آپس میں ملتے رہے، غلطی سے وہ حاملہ ہو گئی ہے، اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ پہلے تو اللہ سے توبہ کرو اور پھر اس سے نکاح کرلو؛ کہنے لگا کہ گھر والے نہیں مانیں گے، میں نے کہا کہ کیوں؟ کہنے لگا کہ وہ لڑکی شادی شدہ ہے، اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں؛ شادی سے قبل ہی سے میرا اس سے تعلق ہے، اس وقت گھر والوں سے کہا کہ اس سے نکاح کرا دو، نہیں کرایا تو اب کہاں کرائیں گے؟ متعدد نوجوانوں نے بتایا کہ ان وجوہات سے شادی شدہ خواتین کے شادی کے باوجود اپنے سابق دوست سے تعلقات باقی رہتے ہیں اور موقع بموقع جسمانی تعلقات بھی قائم کرتے رہتے ہیں، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم

ایک نوجوان بائیس تئیس سال کا ہے، نماز کا پابند، دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا، اس کا بھی لڑکی سے تعلق تھا؛ سمجھانے سے باز آ گیا، اس کے والدین کو خبر بھجوایا کہ اس کا نکاح کردیں تو جواب آیا کہ ابھی تو ننھا یعنی کم عمر ہے جبکہ لڑکا اچھے روزگار سے جڑا ہوا ہے، والدین کا اکلوتا ہے، گھر بھی کشادہ ہے، ظاہری اسباب میں نکاح سے مانع کوئی چیز نہیں ہے اور لڑکے کو شدید خواہش بھی ہے مگر والدین بالکل آمادہ نہیں ہیں۔

اس قسم کی بے شمار کہانیاں ہیں، کہاں تک گناؤں؟ میں نے اس پر جمعہ کے بیان میں بھی بارہا توجہ دلائی، فرداً فرداً بھی کہتا رہتا ہوں مگر خاطر خواہ تبدیلی نہیں دکھ رہی ہے؛ اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کہ اس ذہنیت کا فروغ ہے کہ نماز اور اسلام کے چند ظاہری کام کرتے رہو، یہی دین ہے باقی جو چاہو اور جیسے چاہو کرتے رہو؛ یہی وجہ ہے کہ یہ صورت حال ان والدین کا بھی ہے جو نماز کے پابند ہیں اور ظاہری وضع قطع میں اسلامی احکام کے تابعدار ہیں؛ کیا کہیں جب کبھی اس قسم کے واقعات سننے کو ملتا ہے تو دل دکھتا ہے اور قوم کی بےحسی پر رونا آتا ہے، بس اللہ رب العزت سے ہی فریادہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے… آمین یارب العالمین

 

دیگر مضمون

https://alamir.in/jamhuri-nizam-me-election-islami-nuqta-e-nazar/

3 thoughts on “اولاد کی کردار کشی میں والدین کا کردار”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »