بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر: کرنے کے کام
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی ✍️
:بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر
بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے کو ہے اور حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر اس کے جشن کی تیاری ہے؛ ایک تو جبراً مسجد چھینی گئ، پھر اس پر مندر بنایا گیا اور اب اس کے افتتاح میں اس قدر جوش و خروش کا اظہار، مزید برآں یہ کہ مسلمانوں سے اس جشن میں شریک ہونے اور خوشی کے اظہار کا مطالبہ ہو رہا ہے ، یہ صورت حال ایک مسلمان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور حد یہ ہے کہ ہمیں اپنے تکلیف کے اظہار کی اجازت بھی نہیں ہے، علامہ اقبال کی زبانی… .. ع
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
:ہمارے کرنے کے کام
ان حالات میں ہمارے کرنے کے دو کام ہیں، اول یہ کہ ہم اپنے سجدوں سے مسجدوں کو آباد کرنا شروع کردیں ،ہر فرد نمازوں کے پابند ہو جائیں، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کریں، بالغ مرد و عورت، جوان و بوڑھا سب نماز کے قائم کرنے کا عزم مصمم کرلیں، جمعہ کی طرح ہمہ وقت مسجدیں بھر دیں۔
دوسرا کام جو کرنے کا ہے وہ یہ کہ مسجدوں کے کاغذات درست کر لیں، وقف بورڈ اور ڈی ایم آفس میں رجسٹرڈ کرائیں، ان سے نماز کے علاوہ دیگر اسلامی پروگرامز کے مسجدوں میں انعقاد کی پرمیشن لے کر رکھ لیں؛ مسجدوں کی کمیٹی میں دینداروں اور دین کے بہی خواہوں کو شامل کریں، بطورِ خاص جو لوگ جس مسجد میں پانچوں وقت نماز ادا کرتے ہیں، اس مسجد کی کمیٹی میں انہیں ضرور رکھیں کیونکہ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو نمازی ایک ہی مسجد میں نمازوں کے پابند ہیں، وہ اس کی ضرورت اور رکھ رکھاؤ کا خیال رکھتے ہیں ۔
:مساجد کی بقاء و تحفظ
مذکورہ بالا کام مساجد کی بقاء و تحفظ کے لئے فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے، یہ دونوں کام ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، سورہ توبہ آیت نمبر اٹھارہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے”ہاں الله کی مسجدوں کو آباد کرنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو الله پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاویں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور بجز الله کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع (یعنی وعدہ) ہے کہ اپنے مقصود تک پہنچ جاوینگے”(ترجمہ از بیان القرآن)۔
احادیثِ شریفہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات ثابت ہے کہ یہاں مساجد کے آباد کرنے سے مراد ہمیشہ عبادت، ذکر الٰہی اور علم و قرآن کی تعلیم سے مسجدوں کو آباد رکھنا نیز مسجدوں کو بنانا، سجانا، روشن کرنا اور غیر مناسب امور سے اس کی حفاظت کرنا ہے۔
:سبق آموز واقعہ
پس اگر ہمیں واقعی بابری مسجد کا غم ہے اور خانۂ خدا کے بت خانہ میں بدل جانے کا درد ہے تو ہمیں یہ دو کام فوراً شروع کر دینا چاہیے؛ اپنی غفلت کی زندگی سے فوری توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور اسلام کے احکامات پر صد فیصد عمل پیرا ہو جانا چاہیے؛ ڈر، خوف کو باہر نکال کر عملاً اسلام کے پیغام کا پرچارک بن جانا چاہیے؛ کمالِ تعجب ہے کہ بت پرست تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہم توحید پرست ملتجیانہ رویہ دکھا رہے ہیں؛ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ایک واقعہ منقول ہے کہ
گوالیار کے راجہ کے یہاں فوجی لوگ داڑھی منڈائیں یا نہیں، اس کے متعلق کوئی قانون نہ تھا؛ اس کی فوج کا ایک نوجوان مسلمان داڑھی منڈا یا کرتا تھا، سب برا بھلا کہتے کہ تو داڑھی منڈاتا ہے، وہ جواب میں کہتا کہ میاں گناہ کرتا ہوں اللہ میاں معاف کر دے گا؛ پھرا تفاق ایسا ہوا کہ راجہ کی طرف سے حکم ہوا کہ فوج میں رہنے والا کوئی شخص داڑھی نہیں رکھ سکتا؛ جتنے لوگ اس شخص کو ڈاڑھی رکھنے کی تلقین کرنے والے تھے، ایک دم سب نے داڑھی منڈا ڈالی اور اس شخص سے کہا کہ لو میاں مبارک ہو تیرا ہی چاہا ہو گیا؛ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کہا کہ اب تو راجہ کا حکم ہوگیا کہ کوئی فوجی داڑھی نہیں رکھ سکتا، اس لیے بھائی ہم سب کو منڈانی پڑیں؛ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میاں اب تک تو جو داڑھی منڈائی، وہ خدا کی نافرمانی اور نفس کے کہنے سے مگراب خدا کے ایک نافرمان کا حکم ہے تو اب سے منڈانا بے حمیتی ہے؛ کہا گیا کہ فوج سے برخاست کر دیے جاؤ گے، اس نے کہا کہ اللہ رازق ہے وہ کہیں اور سبیل فرمادیں گے، چنانچہ اس نے ڈاڑھی رکھ لی اور فوج سے نکال دیا گیا۔(اصلاح المسلمین صفحہ نمبر ٧٠٦)
:غیرت و حمیت کا تقاضہ
یہ ہے قوت ایمانی، یہ ہے جوش اسلامی، یہ ہے غیرت اسلامی اور حمیت اسلامی کہ دشمن نے اسلام کے ایک حکم سے روکا تو اسے اپنانے کا تہیہ کر لیا؛ آج ہمیں بھی اسی غیرت و حمیت کی ضرورت ہے کہ خود سے عہد کر لیں کہ اب ایک بھی نماز نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی ایک مسجد کو ہاتھ سے جانے دیں گے۔:
دیگر مضمون
https://alamir.in/masnoi-zihaanat-ke-nuqsanaat/
http://قاضی مجاہدالاسلام قاسمی: ایک عہد ساز شخصیت https://hamaritahzeeb.com/archives/787
[…] https://alamir.in/babri-masjid-ki-jagah-par-ram-mandir-karne-ke-kaam/ […]