دہلی میں دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ، شمس العلوم شاہدرہ
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
:دہلی میں مدارس
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے یہ شعر دہلی کے اجڑے ہوئے حالات سے رنجور ہو کر کہا تھا، مرحوم کا یہ رنج بجا تھا، انہوں نے “عالمِ خواب” کے اس حسین و آباد شہر کو اپنی نگاہوں سے اجڑتے دیکھ کر دل میں ٹیس محسوس کی، اور اس ٹیس کو شعر کے جامہ میں ڈھال کر اظہارِ غم کیا؛ ١٨٥٧ء میں ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف پورے ملک میں منظم بغاوت کیا اور آزادی کی لڑائی لڑی،اس کا مرکز دہلی تھ؛بدقسمتی سے ہندوستانیوں کی شکست ہوئی،جس کے پاداش میں انگریز نے ہندوستانی بالخصوص مسلمان اور علماء کے خلاف قتل و خون کا بازار گرم کر دیا؛دہلی کو تاراج کیا، شعائر اسلام مدارس و مساجد، مراکز و خانقاہوں پر تالے جڑ دئیے، وہی دہلی جس کی پہچان قال اللہ و قال الرسول سے تھی، اب وہاں اللہ و رسول کا نام لینا جرم بن گیا تھا۔
مگر ایمان کے متوالوں نے ہمت نہیں ہاری اور جونہی خدا خدا کر کے ظالمانہ روش میں کمی آئی، باحوصلہ افراد پھر اٹھے، ایک طرف آزادئ ملک کے لئے سرگرمِ عمل ہوئے، دوسری طرف پھر بادہ و مینا تھاما، میخانئہ علم و عرفاں سجایا، شرابِ عشق و سرور پلانا شروع کر دیا اور تشنگانِ علم و عرفاں کی تشنگی بجھانے میں مصروف ہو گئے؛ پھر ١٩٤٧ء میں ملک آزاد ہوا اور ہم ہندوستانی آزاد فضاء میں سانس لینے لگے، اس دوران دہلی میں بہت سے دینی مدارس ہمارے بزرگوں نے قائم کئے اور آزادی کے بعد بھی یہ مبارک سلسلہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے، مگر چند ادارے اپنی کارکردگی اور تعلیم وتربیت کے اعتبار سے نمایاں ہیں، ان میں مدرسہ رحیمیہ مہدیان، مدرسہ حسین بخش مٹیا محل، مدرسہ عالیہ فتحپوری، مدرسہ عبد الرب کشمیری گیٹ، مدرسہ امینیہ دہلی ،شمس العلوم شاہدرہ، بیت العلوم جعفر آباد اور باب العلوم جعفر آباد قابلِ ذکر ہیں؛ مگر “شمس العلوم شاہدرہ دہلی” کو تعلیمی، تربیتی، اصلاحی، معاشرتی کارکردگی میں سب پر فوقیت حاصل ہے، جس کے صدر جناب قاری اسجد زبیر صاحب ہیں۔
:شمس العلوم شاہدرہ
شمس العلوم کا جائے وقوع جمناپار شاہدرہ ضلع میں شاہدرہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے، اسٹیشن سے بمشکل پانچ منٹ کی مسافت پر ہے، قریب ہی میٹرو اسٹیشن کا گیٹ نمبر دو بھی ہے، نیز کچھ فاصلے پر بس ٹرمنل بھی ہے، جس سے شب و روز ہر گھڑی سفری سہولیات میسر رہتی ہے اور مدرسہ میں آنا جانا بالکل آسان رہتا ہے، اجنبی شخص بھی بآسانی پہنچ جاتا ہے، اس اعتبار سے مدرسہ کا جائے وقوع شاندار ہے، مدرسہ کی عمارت چاروں طرف سے گراؤنڈ فلور سمیت سہ منزلہ ہے، جس میں ایک شاندار مسجد بھی ہے اور یہ کم و بیش ١٣٠٠ گز اراضی پر محیط ہے؛ اس کا سن قیام ١٩٧١ء ہے اور اس کے بانیان حضرت مولانا شعیب انجم صاحب مد ظلہ، قاری زبیر صاحب رحمہ اللہ اور مولانا حبیب الرحمن صاحب مد ظلہ ہیں، قاری زبیر صاحب تو مرحوم ہو گئے، بقیہ دو حضرات حیات سے ہیں، اللہ ان کی حیات میں برکت دے، تینوں حضرات ہندوستان کے مردم خیز خطہ “بہار” کے ضلع مدہوبنی سے تعلق رکھتے ہیں، جامع مسجد امروہہ کے فیض یافتہ ہیں اور قوم وملک کی خدمت و مستقبل کے معماروں کی علمی وعملی تعمیر کا جذبہ رکھتے ہیں، یہی جذبہ ادارہ کے قیام کا محرک بنا۔
:احقر کا تعلق بحیثیت استاد
٢٠٠٨-٢٠٠٩ء میں احقر جب دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھا تو اس وقت بہار کے ان طلبہ سے اس ادارہ کا ذکرِ خیر سنا، جو دہلی یا اطرافِ دہلی کے مدارس میں تعلیم حاصل کر کے دارالعلوم پہنچے تھے مگر کبھی نہ آنے کا اتفاق ہوا اور نہ اس قسم کی کوئی خواہش پیدا ہوئی البتہ تعلیم وتعلم میں نیک نامی، بانیان و ذمہ داران اور اساتذہ و طلبہ سے علاقائی نسبت کی بنیاد پر دل میں ادارہ کے تئیں نیک جذبات تھے اور یہ ارادہ بھی تھا کہ کبھی دہلی بغرضِ سیر و تفریح آنا ہوا تو بچشم دیکھنے کی سعادت حاصل کی جائے گی؛ اس دوران دہلی آنا جانا تو لگا رہا مگر دیکھنے کا موقع ہاتھ نہیں آیا،٢٠١٦ء میں ایک موقع پر والد صاحب کے علاج کے لیے دہلی آنا ہوا اور لمبا رکنا تھا، اس لئے تعلیم وتعلم سے الگ ہو گیا تھا، تقریباً ایک سال الگ رہا،اور اب پیشہ درس و تدریس سے علاحدگی کا بھی ارادہ کر لیا تھا، اللہ جزائے خیر دے ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دامت برکاتہم العالیہ (میرے خالو) استاذ عربی دارالعلوم دیوبند کو، آپ ہی کی تحريض پر پھر تعلیم و تعلم کا ذوق پیدا ہوا اور آپ ہی کے حکم پر شمس العلوم شاہدرہ میں بحیثیت استاد منسلک ہو گیا، یوں مدتوں سے بطورِ سیاحت دیکھنے کی آرزو بشکلِ مدرسی پوری ہوئی، احقر سے عربی دوم سے لے کر عربی ہفتم تک کی کتابیں متعلق ہوئیں، ویسے تعلیم درجہ اطفال سے لے کر دورہ حدیث شریف تک تھی، اور ہر درجہ میں خاطر خواہ طلبہ تھے، حفظ قرآن کریم کی بھی پانچ درسگاہیں تھیں، جن میں ٢٠-٢٥ طلبہ تھے؛ اساتذہ میں قدیم و جدید فضلاء تھے، سب کے سب تعلیم وتعلم میں غایت درجہ انہماک رکھنے والے تھے اور اپنے ذمہ داری کی ادائیگی میں ہمہ وقت مشغول رہنے والے تھے۔
جب کسی بھی ادارہ سے کوئی بھی کسی بھی حیثیت سے نیا نیا جڑتا ہے تو مثبت و منفی ہر طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہے،انتظام سے لے کر ذمہ داران تک، اساتذہ سے لے کر طلبہ تک، سب کے متعلق ہر طرح کی باتیں ہوتی ہیں، اکثر لوگ اسے برا سمجھتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرنے والے کو ناپسند کرتے ہیں مگر میرا ذاتی نظریہ ہے کہ یہ صحیح ہے، کیونکہ اس سے باشعور کے سامنے ہر شخص کی حقیقت کھل جاتی ہے، جس سے اسے تعلق و دوری بنانے میں اول دن سے ہی آسانی ہو جاتی ہے، خیر احقر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا لیکن میرا معاملہ سنی سنائی باتوں پر کوئی نظریہ قائم کرنے کا نہیں ہے بلکہ خود سے دیکھنے، برتنے، صحیح غلط کی تمیز کرنے کے بعد ذاتی تجربے کی روشنی میں کوئی نظریہ قائم کرنے کا ہے، کسی کے کچھ بھی کہہ لینے سے احقر پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ چنانچہ احقر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں یکسوئی کے ساتھ لگ گیا، میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کتنا کامیاب ہوا، یہ تو احباب ،ذمہ داران اور طلبہ بتائیں گے یا پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
:شمس العلوم کی خدمات
جس زمانہ میں ہم آپ جی رہے ہیں، یہ انحطاط کا دور ہے، ہر میدان میں انحطاط ہے، جس کا اثر مدارس کی تعلیم وتعلم پر بھی پڑا ہے، مگر اس کے باوجو مدارس آج بھی اپنے مشن پر رواں دواں ہے اور مستقبل کے نو نہالوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے قوم وملت کی فلاح میں مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں، اور اس مشن کی تکمیل میں شمس العلوم شاہدرہ بھی بحسن و خوبی اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، ماضی میں اس کے تعلیم وتربیت کا کیا معیار رہا ہے؟ میں کچھ نہیں کہ سکتا مگر جب سے احقر اس ادارہ سے منسلک ہے، اس وقت سے اب تک کہ تجربات کی بنیاد پر کہ سکتا ہوں کہ یہ دہلی کا سب سے بڑا اور سب سے معیاری تعلیمی، تربیتی اقامتی تعلیم گاہ ہے؛ تاریخ اور قدامت کے اعتبار سے یقیناً دیگر ادارے اس پر برتری حاصل کر لیں لیکن طلبہ کی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے کوئی بھی ادارہ اس کے مقابل نہیں ہے۔
اس کا نصابِ تعلیم و نظامِ تعلیم دونوں دارالعلوم دیوبند کے معیار کے عین مطابق ہے، اوقات تعلیم بھی دارالعلوم کی طرح صبح وشام دونوں ہے،مغرب وعشاء کے بعد معقول وقت تک طلبہ اساتذہ کی نگرانی میں مذاکرہ و مطالعہ کرتے ہیں، سارے داخل طلبہ کا قیام وطعام مدرسہ ہی میں ہوتا ہے، ذمہ داران و اکثر اساتذہ بھی احاطئہ مدرسہ ہی میں رہتے ہیں،صبح و شام کی مسنون دعائیں اور مسنون سورتوں کی تلاوت کا اجتماعی اہتمام ہوتا ہے، جس میں سارے طلبہ و اساتذہ شریک ہوتے ہیں، تقریر و تحریر کی مشق کے لئے باضابطہ اساتذہ کی نگرانی میں ہفتہ واری پروگرام کا اہتمام ہوتا ہے، یہ وہ نظام الاوقات ہے جس سے تعلیم وتعلم اور تربیت و تزکیہ کا روحانی ماحول بنا رہتا ہے، طلبہ اس روحانی ماحول میں علمی وعملی کمالات کے حصول میں مشغول رہتے ہیں اور اساتذہ انہیں تعلیم وتعلم کی بھٹی میں تپاکر قوم وملت کے لئے مفید اور کارآمد انسان بنانے میں تن من دھن کی بازی صرف کر دیتے ہیں، یہ اس ادارہ کے وہ امتیازی خصوصیات ہیں جو دہلی کے اور ادارے کو حاصل نہیں ہے، اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے یہ دہلی کا واحد ادارہ ہے جو اکابر کے خوابوں کی سچی تعبیر بُننے میں مصروفِ عمل ہے اور دہلی میں دینی تعلیم وتربیت کی آبرو ہے۔
:شمس العلوم اکابر علماء کی نظر میں
کوئی یہ نہ سمجھے کہ مذکورہ بالا باتیں لاف ہیں یا “منہ میاں مٹھو” بننے کی کوشش ہے، بلکہ حقیقت ہے جس کی دلیل سالانہ امتحان میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند اور دیگر بڑے ادارے سے بحیثیت ممتحنین آنے والے علیا کے اساتذہ کے تأثرات ہیں جو مدرسہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ لے؛ ایسے ہی ختمِ بخاری کی محفلِ مسعود میں تشریف لانے والے اکابرِ دارالعلوم مثلاً مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری، حضرت مولانا سالم صاحب، شیخ عبد الحق صاحب، قاری عثمان صاحب نور اللہ مرقدہم ،مولانا ارشد مدنی صاحب، مفتی ابوالقاسم صاحب، علامہ قمر الدين صاحب دامت برکاتہم العالیہ جیسے صاحبِ فضل وکمال اور یکتائے زمانہ شخصیت کے تعلیم وتربیت پر زبانی وتحریری اظہارِ اطمینان مضبوط و مستند سند ہے، جس کا انکار کوئی کور مغز یا تنگ دل ہی کرسکتا ہے۔
اس موقع سے میں کورونائ آفت سے قبل کے آخری ختم بخاری کا ذکر کرنا چاہوں گا، اس ختمِ بخاری کی محفل میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے فقہ و فتاویٰ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا قاضی القضاۃ امارت شرعیہ پٹنہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری نور اللہ مرقدہ کو ادارہ نے مدعو کیا، حضرت والا نے دعوت قبول کی اور تشریف لائے، تقریباً دو دن قیام رہا، اس دوران آپ مختلف درجات کے مختلف طلبہ سے اپنے مخصوص انداز میں نحو و صرف و دیگر موضوعات کے سوالات بھی کئے اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیتے رہے، جاتے وقت جب ہم لوگ الوداعی ملاقات کر رہے تھے، تو آپ نے صدرِ جامعہ قاری اسجد زبیر صاحب کا ہاتھ پکڑ کر مخصوص لب ولہجہ میں یوں تأثر پیش کیا کہ “بھائی! میں تو سمجھتا تھا کہ دہلی میں کوئی بھی ادارہ تعلیم وتربیت کے اعتبار سے قابلِ ذکر نہیں ہے مگر یہاں آکر اندازہ ہوا کہ آپ لوگ بہت بڑا اور اچھا کام کر رہے ہیں” اور فرطِ جزبات سے آپ نے قاری اسجد زبیر صاحب کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔
اسی طرح احقر جب اس ادارہ سے منسلک ہوا تو نانا محترم حضرت مولانا ہارون الرشید قاسمی نور اللہ مرقدہ سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ و سابق شیخ الحدیث نورالعلوم گٹھامن پالن پور گجرات کا فون آیا، خبر خیریت دریافت کی، پوچھا کہاں پڑھاتے ہو؟ میں نے بتایا شمس العلوم شاہدرہ میں، بولے دہلی میں پڑھنے پڑھانے کا کہاں ماحول ہے؟ خیر بات آئی، گزر گئ لیکن میں نے یہ ارادہ کیا کہ ایک بار نانا محترم کو ضرور لانے کی کوشش کروں گا، چنانچہ ایک موقع پر گجرات سے گھر جاتے ہوئے باصرار چند گھنٹوں کے لیے تشریف لائے، چند گھنٹے کے قیام میں ہی آپ تعلیم وتربیت سے متأثر ہو کر فرمایا “یہاں کی فضاء علمی ہے، لگے رہو”، حسنِ اتفاق دیکھئے کہ حضرت مولانا شعیب انجم صاحب بانی و مہتمم جامعہ نانا جان سے ملاقات کے لئے تشریف لائے اور تعارف کا تبادلہ ہوا تو نانا جان کے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے شاگرد نکلے، پھر تو مزید خوش ہوئے دعائیں دیں؛ علماءِ راسخین کے ادارہ کے تئیں مذکورہ بالا “سنہرے کلمات وجذبات” ادارہ کے تعلیم و تربیت کے معیاری اور قابلِ اطمینان ہونے کے شاہدِ عدل ہیں۔
:ذمہ داران و اساتذہ کی قربانی
ادارہ کی یہ تعلیمی و تعمیری ترقی تمام بانیان کی مخلصانہ جد و جہد کے ساتھ جامعہ کے موجودہ صدر جناب قاری اسجد زبیر صاحب کی شب و روز کی تگ و دو اور کدو کاوش کا نتیجہ ہے، قاری صاحب ادارہ کو ظاہری و معنوی خوبیوں سے آراستہ کرنے کے لئے فکر مند رہتے ہیں، سنجیدہ کوشش کرتے رہتے ہیں اور ذاتی ضرورت پر ادارہ کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں جو ادارہ کے تئیں فکر مندی و دردمندی کے واضح ثبوت ہیں؛ دینی اداروں میں وسائل و ذرائعِ آمدنی محدود ہوتے ہیں مگر تجربہ کار منتظم کی خوبی یہ ہے کہ انہیں محدود وسائل کا صحیح استعمال کر کے ادارہ کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھے اور قاری صاحب میں یہ صلاحیت اتم درجہ میں موجود ہے، کورونائ وبا کے دوران ادارہ بہت سی مشکلات سے گزرا مگر صدرِ جامعہ کی انتھک کوششوں سے ایک بار پھر ادارہ اپنی تعلیمی و تعمیری سفر پر رواں دواں ہو گیا ہے، علم وعمل کی محفل پھر سج گئی ہے، علم وعرفاں کے متوالے پھر سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں دینے لگے ہیں اور پروانئہ شمعِ علم پھر سے دیوانہ وار قربان ہو رہے ہیں۔
مگر کسی بھی ادارہ کی تعلیمی، تربیتی اور تعمیری ترقی میں جہاں منتظم حضرات کے سوزِ دروں کا دخل ہوتا ہے، وہیں اساتذہ حضرات کے شب و روز کی جدوجہد، اخلاص وللہیت، دردمندی و درد سوزی، طلبہ وادارہ کے تئیں خلوص و وفا، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں فکر مندی و تندہی اور قوم کے نونہالوں کو تراش خراش کر کندن بنانے کا جذبئہ وفور بھی شامل ہوتا ہے؛ شمس العلوم کی ظاہری وباطنی ترقی و نیک نامی میں بھی اساتذہ کی بڑی قربانی ہے، قدیم و جدید سارے فضلاء صلاحیت وصالحیت، علم وعمل، ورع و تقویٰ، فقہ و فتاویٰ،درس و تدریس، تعلیم وتعلم، تربیت و تزکیہ کے میدان کے شہسوار ہیں، طلبہ میں علمی وعملی ذوق و شوق کو مہمیز دے کر نورِ نبوت ان کے سینوں میں منتقل کرنے کا ہنر رکھتے ہیں اور اس کا بہتر استعمال کرتے ہیں، یہی وجوہات ہیں، جن کی بنیاد پر آج اس ادارہ کو دہلی میں تعلیم وتعلم، تربیت و تزکیہ، اور خدمتِ قوم وملت کے باب میں امتیاز اور مرکزیت و اولیت حاصل ہے، بس دعاء یہی ہے کہ اللہ اس چمن کو یونہی آباد رکھے، چمکتا دمکتا رکھے، تشنگانِ علوم نبویہ آتے رہیں اور اپنی علمی پیاس اس سرچشمہ سے بجھاتے رہیں؛ اساتذہ و منتظمین، بانیان و ذمہ داران بالخصوص صدرِ جامعہ قاری اسجد زبیر صاحب کو صحت و سلامتی عطاء فرمائے، دارین کی سعادت سے مالا مال فرمائے،ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، دنیا و آخرت میں بہتر بدلہ سے نوازے اور دونوں جہاں میں نیک نام رکھے، آمین یارب العالمین۔
https://alamir.in/aulaad-ki-kirdar-kushi-me-walidain-ka-kirdaar/
http://سب سے بے کاردعوت – مفتی ناصرالدین مظاہری https://qindeelonline.com/sab-se-bekar-dawat/