اسلام میں معاملات کی صفائی پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں؛ مسلم شریف میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟‘‘ صحابہ نے کہا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو ، نہ کوئی ساز و سامان؛ آپ نے فرمایا : میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ ( دنیا میں ) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اِس کو بھی دیا جائے گا اور اُس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے۔
مذکورہ بالا حدیث کو بار پڑھئے اور دیکھئے کہ کس قدر سخت بات ہے مگر پھر بھی ہم مسلمان اس سلسلے میں بہت لاپرواہی برتتے ہیں؛ کیا عام؟ کیا خاص؟ سب اس معاملہ میں برابر ہیں، میرے سامنے لوگوں کے معاملات کے تعلق سے بے راہ روی کے کئ واقعات پیش آئے، اس پر بیان کیا، انفرادی طور پر بھی لوگوں سے کہتا رہتا ہوں مگر ہم ہیں کہ بدلنے کو تیار نہیں ہیں، آئیے اس سلسلے کے چند تازہ واقعات آپ کے بھی گوش گزار کروں ۔
:ایک نوجوان کی کہانی
چھ ماہ قبل کی بات ہے، ایک نوجوان نے بمشکل کچھ رقم جمع کیا اور جنرل اسٹور کی چھوٹی سی دوکان کر لی؛ چند دن قبل آیا کہ امام صاحب میں دوکان بند کر دیا،کسی روزگار کے لئے دعاء کر دیجئے، پوچھا کیوں؟ کہنے لگا کہ جتنی پونجی تھی، سب ادھار لگ گیا اور مانگتا ہوں تو کوئی دیتا نہیں ہے؛ میں نے کہا کہ مجبور لئے ہوں گے، سہولت ہوتے ہی دیدیں گے، کہنے لگا نہیں امام صاحب! غريب بیچارہ تو ادھار لیتا نہیں ہے اور لیتا ہے تو ایک دو دن میں دے دیتا ہے؛ ایسے لوگوں کے یہاں باقی ہے جو ناک والے ہیں، اپنے آپ کو بڑا کہتے سمجھتے ہیں، مانگو تو الٹا جواب دیتے ہیں کہ میں بھاگا تھوڑی جا رہا ہوں ۔
:ایک بوڑھے میاں کا واقعہ
ایک بوڑھے میاں میرے مقتدی ہیں، وہ ایک جگہ نوکری کرتے ہیں، میں نے ایک دن یونہی پوچھ دیا کہ اس عمر میں ملازمت کیوں کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کیا بتاؤں، بچوں کی آمدنی خاطر خواہ نہیں ہے، اس لئے جب تک ہاتھ پاؤں سلامت ہے، سوچتا ہوں کام کرتا رہوں؛ پھر کہنے لگے کہ آج سے پچیس سال قبل کی بات ہے کہ میری راشن کی دوکان تھی اور اس علاقہ میں میری ہی ایک دوکان تھی؛ چند نام گنوائے کہ یہ سب اس زمانہ میں بہت صاحب حیثیت تھے، ادھار لیتے تھے اور جب چاہا کچھ دیدیا، اس طرح کسی کے یہاں پندرہ ہزار، کسی کے یہاں بیس ہزار اور کسی کے پاس اتنے ہزار بقایا ہو گئے، مانگوں تو دیتے بھی نہ تھے اور سخت لہجے میں بھی بات کرتے تھے، تنگ آکر بند کر دیا۔
:ایک حاجی صاحب کی حالت
ایک حاجی صاحب کا کارخانہ ہے، کئ ملازمین ان کے یہاں کام کرتے ہیں، ان کی عادت ہے کہ ملازمین کو کبھی بھی پوری تنخواہ نہیں دیتے ہیں؛ دو تین مہینے کے سب کا باقی رکھتے ہیں اور بیچارے غریب اس ڈر سے کام نہیں چھوڑتے ہیں کہ چھوڑنے پر وہ بھی نہیں ملے گا؛ اس بار پھر حج پر جا رہے تھے تو ان کے ملازمین نے کہا کہ حاجی صاحب! بقایا دے دیجئے تو کہنے لگے کہ حج پر جا رہا ہوں، مر تھوڑی جاؤں گا، واپس آؤں گا، پھر دیکھوں گا؛ یہ بات ان کے ایک رشتہ دار نے خود بتائ، جب وہ ان سے ملنے اور روانہ کرنے گئے تھے تو ان کے سامنے ہی یہ منظر پیش آیا، انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو ان پر ہی بگڑ گئے ۔
:ایک خاتون کا معاملہ
میری مسجد کے پڑوس میں ایک گھرانہ ہے، پورا گھرانہ تبلیغی ہے، عورت مرد سب چلے سال لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ گھر میں محلہ کی خواتین کی تعلیم بھی ہوتی ہے؛ ایک سال قبل اس گھر کے سربراہ کا انتقال ہو گیا، بڑی بیٹی نے زیادہ تر جائداد پر قبضہ کر لیا، حد یہ ہے کہ رمضان سے قبل ایک بھائی کا انتقال ہو گیا تو اس کے مکان پر یہ کہہ کر قبضہ کر لی کہ بھائی اپنی بیوی سے ناراض تھے اور ہمیں کہہ کر گئے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد اسے بھگا دینا، دیگر رشتہ داروں نے دباؤ ڈال کر بیوہ کو گھر میں رکھوایا؛ رمضان میں عمرہ پر جا رہی تھی، مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس پر جمعہ میں بیان بھی کیا اور انہیں کہلا بھیجا کہ پہلے سب کے حقوق ادا کریں اور بیوہ سے معافی مانگیں، پھر عمرہ پر جائیں؛ بتانے والوں نے بتایا کہ امام صاحب جب آپ کی یہ بات ان تک پہنچی تو بیوہ کو گالی دیتے ہوئے کہنے لگی کہ میں اس سے ہرگز معافی نہیں مانگوں گی ۔
:معاملات درست کر لیجئے
اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں اور آپ کے ارد گرد بھی ایسے لوگ ہوں گے؛ ایسا نہیں ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ غلط ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم معاملات کو دین کا حصہ سمجھتی ہی نہیں ہے اور سمجھائیے تو بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ مولانا اب کے زمانہ میں اسی طرح کرنا پڑتا ہے؛ گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات کا بالکل پاس و لحاظ نہیں ہے، قرآن وحدیث میں وارد وعیدوں کا خوف بھی نہیں ہے، بس اپنی مرضی سے چند اعمال کو دین کا حصہ سمجھ کر اسے کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین کا حق ادا کر دیا، ایسے میں اگر ظالم حکمراں ہم پر مسلط ہو تو پھر واویلا کیوں؟
یاد رکھیں کہ معاملات بھی دین کا حصہ ہیں، اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں اس قدر وعیدیں ہیں کہ معاملہ درست کئے بغیر آخرت میں کامیابی ناممکن ہے اور دنیا میں بھی سکون کا حصول مشکل ہے؛ اس لئے وقت رہتے معاملات درست کر لیجیے، لین دین صاف ستھرا کر لیجئے، صاحب حق کو اس کا حق دے دیجئے، تاکہ دنیا بھی پرسکون رہے اور آخرت کی رسوائی سے بھی بچ جائیں۔