ہندوتوا پولیس
مجھے کل گاؤں جانا ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ سفر میں موبائل ہونا چاہیے؛ چھوٹے بھائی کا ایک موبائل خراب پڑا تھا، سوچا فی الحال اسے ہی ٹھیک کرا لوں اور اسی سے کام چلا ؤں؛چنانچہ دو روز قبل موبائل درست کرانے کے لئے دہلی گیٹ دریا گنج میں ایک شناسا موبائل مستری کے پاس گیا؛ دیکھا مرجھایا ہوا ہے اور پریشان سا منہ لئے بیٹھا ہے، پہلے کی طرح نہ گرمجوشی ہے اور بشاشت؛ دریافت کرنے پر جو بات بتلائ،وہ ہندوتوا پولیس کا مکروہ چہرہ، ہندوستانی مسلمانوں کی بےبسی اور ہندوتوا دہشت گردی کی انتہاء کو بیان کرتا ہے ۔
وہ صاحب روہانسی ہو کر کہنے لگے کہ تین ماہ قبل کی بات ہے؛ ایسے ہی دوکان پر بیٹھا موبائل ٹھیک کرنے میں مصروف تھا؛ اچانک پولیس کی ایک بڑی تعداد آئ، آتے ہی موبائل چھینا، میرا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹ کر پولیس وین میں بیٹھا لیا؛ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ دیر بعد ایک پولیس اسٹیشن میں اتارا، جو بعد میں پتہ چلا کہ فلاں پولیس اسٹیشن ہے؛ ایس ایچ او نے گالی دیتے ہوئے کہا کہ موبائل چوری کرکے بیچتا ہے، دیکھ تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں؛ پھر اس نے ایک شخص(غیر مسلم) کا نام لے کر کہا کہ فلاں کو جانتا ہے، میں نے کہا، ہاں! وہ میرے پاس موبائل ٹھیک کروانے آتا ہے اور اب بھی اس کے تین موبائل میرے پاس ہیں؛ ایس ایچ او نے کہا کہ وہ چوری کا موبائل ہے اور تو اس میں شامل ہے ۔
پولیس
اس نے بتایا کہ سر ایسی بات نہیں ہے بلکہ میں تو جس کا موبائل بھی ٹھیک کرتا ہوں، اس کے آدھار کی کاپی جمع لیتا ہوں اور اس کے بھی آدھار کی کاپی میرے پاس دوکان میں موجود ہے؛ لیکن اس کی ایک بات بھی نہیں سنی گئی اور اسے رات و رات کورٹ میں پیش کر کے دس دن کے لیے پولیس کسٹڈی میں لے لیا گیا؛ پولیس کسٹڈی میں ایس ایچ او نے موبائل کے تعلق سے کچھ پوچھ تاچھ نہ کی، سیدھے کہا کہ تو ہندو دھرم قبول کرلے، چھوڑ دوں گا؛ اتنا سنتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے اور کوئی جواب نہیں دے سکا، جواباً پولیس والے نے بھدی بھدی گالی دی، دو چار تھپڑ جڑے اور کہا کہ دیکھ تجھے کیسے جیل میں سڑاتا ہوں۔
ادھر ان کے گھر والوں کو خبر ہوئی تو وہ تھانے پہنچے، پہلے پہل تو ملنے نہیں دیا گیا؛بڑی کوششوں کے بعد ملنے دیا گیا، بے گناہی کے ثبوت دکھائے گئے؛ دلالوں کے ذریعے چھوڑنے کے لئے موٹی رقم کی پیشکش بھی کی گئی لیکن اس نے صاف منع کر دیا اور ہندوتوا ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے جیل میں سڑا دینے کی بات کہی اور اس دوران مستقل دباؤ بناتا رہا کہ ہندو مذہب قبول کر لے؛ خیر کورٹ میں مضبوط پیروی کی بنیاد پر فی الحال ضمانت تو مل گئی مگر وہ کافی سہما ہوا ہے کیونکہ ایس ایچ او نے رہائی کے وقت دھمکی دی تھی کہ دہشت گردی کا کیس بناؤں گا؛ اس واقعہ کو تین ماہ ہو گئے اور وہ بیچارے مستقل ذہنی تناؤ کے شکار ہیں ؛ انہیں اس بات کا ڈر کھائے جا رہا ہے کہ چارج شیٹ میں کہیں واقعی پولیس والے نے دہشت گردی کا کیس ڈال دیا تو وہ کیا کریں گے؟ غریب آدمی ہیں،بال بچے دار ہیں، موبائل ٹھیک کرکے گھر چلاتے ہیں؛ مستقبل کے اندیشے نے انہیں زندہ نعش بناکر رکھ دیا ہے۔
ہندوتوا
جب سے مرکز میں مخصوص نظریہ کی سرکار ہے تب سے عدلیہ سے لے کر مقننہ تک اور میڈیا سے لے کر منتظمہ تک سب ہندوتوا رنگ میں رنگا ہوا ہے؛اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی مذہبی تعصب میں اس قدر باؤلا بنے ہوئے ہیں کہ انسانیت نام کی چیز بھی باقی نہیں رہی؛ قانون کی بالادستی اور جمہوری اقدار بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں؛ آئے دن مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کارروائی اور زیادتی کی خبریں آتی رہتی ہیں اور دل بےچین ہوتا رہتا ہے؛ دوسری طرف ہماری بےحسی بھی کم نہیں ہے، ان مشکل حالات میں بھی ہم اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں ہیں؛ سب کچھ دیکھنے، سمجھنے، محسوس کرنے کے باوجود پتہ نہیں کس امید پر سابقہ روش پر ہی جئے جا رہے ہیں؟
میرا نظریہ ہے کہ اجتماعی ملی قیادت پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے قیادت پر اعتماد میں تزلزل پیدا ہو مگر اس وقت قیادت کو جس حساسیت و فکرمندی اور عملی اقدامات کا ثبوت دینا چاہیے، وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے؛ جس کا نتیجہ ہے کہ ان کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ اب ہماری اعلیٰ قیادت اور اعلیٰ اداروں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں اور ہم بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں؛ابھی بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے، بندھ باندھ کر روکا جا سکتا ہے؛ اس لئے کروٹ بدلی جائے، پانسہ پلٹا جائے، چال بدلی جائے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر آزمایا جائے؛تقریر و تحریر سے آگے بڑھ کر میدان عمل میں جسم و جاں کو کھپایا جائے اور صاف صاف کہہ دیا جائے کہ بہت ہو چکا ہے، اب بس کرو اور چھیڑو نہیں ورنہ اب چھوڑیں گے نہیں ۔
دیگر مضمون
https://alamir.in/zindagi-mobile-k-begair/
[…] https://alamir.in/hindutwa-police/ […]