کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

کٹھن ہے راہ گزر ،تھوڑی دور ساتھ چلو۔۔۔

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی

:ہماری قیادت

گزشہ جمعرات کو گیانواپی مسجد اور دیگر مسلم مسائل کے سلسلے میں ہمارے صفِ اول کے قائدین نے میٹنگ کی، میٹنگ جمعیت علماء ہند کے مرکزی دفتر مسجد عبد النبی آئ ٹی او دہلی میں ہوئ، میٹنگ کو پورے طور پر خفیہ رکھا گیا، کیا باتیں ہوئیں؟ کیا لائحہ عمل طے کیا گیا؟ اور مستقبل میں کس طرح کے اقدامات کئے جائیں گے؟ سب خفیہ رکھا گیا؛ دوسرے روز جمعیت ہی میں پریس کانفرنس رکھا گیا، پریس کانفرنس میں ہماری قیادت نے اپنے ایجنڈے نہیں رکھے بلکہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا، عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلہ کو نہ ماننے کا اعلان کیا، اشاروں اشاروں میں وارننگ بھی دی اور مسلمانوں کے صبر و تحمل کے لبریز ہونے کی صورت میں پلٹ وار کا عندیہ بھی دیا؛ یہ گزشتہ چند سالوں میں یہ پہلا موقع تھا جب ہمارے قائدین نے اس قدر سخت تیور دکھائے اور بہت کچھ کرجانے کا حوصلہ دکھایا،جس سے مسلمانوں کے ٹوٹے دلوں کو سہارا ملا اور ناامیدی میں امید کی کرن نظر آئ۔

:قیادت پر تنقید

اب جبکہ ہماری قیادت نے کروٹ لی تو ہم عوام و خواص کا فریضہ ہے کہ قیادت کے پیچھے مضبوط چٹان بن کر کھڑے ہوں،ان کی حمایت و نصرت کا عہد لیں، ان کی ایک آواز پر لبیک کہنے کو تیار رہیں، جس وقت جس چیز کی قربانی مانگی جائے، بلاتردد قربان کرنے کو تیار رہیں؛ لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بجائے تائید کے تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں، کوئی “کھلے خط” کے نام سے للکار رہا ہے تو کوئی “جمہوریت میں غصہ کا اظہار کرکے کچھ نہیں ہوتا ہے” لکھ کر اس کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی “مستقبل کا لائحہ عمل” پوچھ رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ” اب کھل کر بات کرنے اور عملاً احتجاج و مظاہرہ کرنے کا وقت ہے “اور نہ جانے کیا کیا سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؛ میرا ماننا ہے کہ یقیناً قیادت سے سوال ہونا چاہیے اور مفید و مثبت تجزیے و تبصرے ہوتے رہنا چاہیے، اس سے قائدین میں جواب دہی اور ذمہ داری کے تئیں حساسیت باقی رہتی ہے مگر ہر بات پر اور ہر موقع پر ایک ہی سُر اپنانا صحیح نہیں ہے اور خواہ مخواہ کے سوال کھڑے کرکے قیادت پر بداعتمادی نہیں پھیلانی چاہیئے، یہ وقت جتنا ہمارے لئے تشویشناک ہے، اس سے کہیں زیادہ ہمارے قائدین کے لئے ہے اور اس صورت حال سے باہر نکلنے کے لئے بڑی حکمت و دانائی کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے, بقول ناز مظفرآبادی۔۔۔ع

نہ مصلحت سے خموش رہنے کے ناز تم کو اصول آئے

یہ کیا کہ ہر بات پر بگڑنا یہ کیا کہ اک اشتعال رکھنا

:قیادت سے مطالبہ

اس وقت لوک سبھا کا الیکشن سر پر ہے، حکمراں پارٹی کے پاس کام کے نام پر ووٹ مانگنے کے لئے کچھ نہیں ہے، اس لئے انہوں نے آناً فاناً ناقص رام مندر کا افتتاح کر دیا گیا اور اب گیانواپی مسجد کے مسئلہ کو بڑی تیزی سے اچھالا جا رہا ہے اور ان کا پورا زور اس پر ہے کہ کسی طرح الیکشن کا پورا ماحول ہندو-مسلم کر دیا جائے؛ ایسے وقت میں ہمیں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، ہمارا غیرمحتاط ایک قدم بھی دشمن کے لئے اپنے مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے؛ حکمراں پارٹی کو ہمارے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے، اور ہم سب چاہتے ہیں کہ فقہ کے اصول اہون البلیتین کے تحت سیکولر(نام کا ہی سہی) کو ہی جتایا جائے؛ ایسے میں اگر الیکشن کا رخ ہندو-مسلم کی طرف چلا گیا تو ایک تو سیکولر ووٹ کا بڑا حصہ ہندوتوا کے علمبردار پارٹی کی طرف چلا ہی گیا ہے، بچا کھچا سیکولر ووٹ بھی ہندوتوا کی نظر ہو جائے گا اور سیکولر کی جیت کی ایک موہوم سی امید بھی ختم ہو جائے گی؛ موجودہ دور میں سیاست کا جو انداز ہے، اس میں اگر آپ نے اپنی تدابیر پبلک ڈومین میں رکھ دیں تو آپ سیاسی میدان میں مات کھا جائیں گے؛ حکمراں پارٹی ہی کی مثال لے لیجئے، دنیا کو دکھانے کے لئے کتنا خوشنما سلوگن دے رکھا ہے، “سب کا ساتھ، سب کا وشواش، سب کا پریاس اور سب کا وکاس” مگر ان کا ہر فیصلہ خفیہ ایجنڈے کے مطابق ہوتا ہے ۔

:قیادت پر اعتماد

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جس طرح شرپسند عناصر مسلمانوں کے خلاف دو ٹوک انداز میں زہر اگلتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی صاف صاف اور کھلے الفاظ میں ردعمل ظاہر کرنا چاہیے؛ اس طرح کا مطالبہ بھی حکمت و مصلحت کے پرے ہے کیونکہ ابھی حکومت ان کی ہے، انتظامیہ سے لے کر عدلیہ تک اور مقننہ سے لے کر میڈیا تک سب اس کے پنجہ میں ہیں اور وہ جس طرح چاہتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں؛ ان کے لوگ کچھ بھی بک لیں، کچھ نہیں ہوتا ہے اور ہم آپ چوں بھی کرتے ہیں تو دس طرح کے قانونی شکنجہ میں کس لیے جاتے ہیں ، جس کی تازہ مثال مفتی سلمان ازہری صاحب ہیں کہ انہوں نے محض شعر پڑھا اور شعر میں “کتوں” کا لفظ استعمال کیا، گرفتار کر لئے گئے اور حاصل کیا ہوا؟کچھ نہیں؛ کہا جاتا ہے کہ قربانی تو دینی پڑے گی، تبھی عزت کی زندگی جی پائیں گے؛ بات بالکل درست ہے اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن قربانی کے لیے مناسب وقت و حالت کا انتظار کرنا چاہیے، وقت آنے پر جتنا ہم قربانی دیں گے، ہمیں یقین ہے کہ ہمارے قائدین اس سے آگے رہیں گے؛ ہمارے اکابرین اسلاف کی روایات کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے ہم سے قبل میدانِ عمل میں ہوں گے اور بزرگوں کی دی ہوئی امانت کی بقاء کے لئے تن من دھن، سب کی بازی لگا دیں گے۔

ان وجوہات کے پس منظر میں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قائدین فی الحال جو قدم اٹھائے ہیں، ہمیں ان کی تائید کرنی چاہیے، عوام میں قیادت کے تئیں اعتماد میں پختگی باقی رکھنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے اور ہم اپنے طور پر قوم و ملت کی تعمیر کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں کرتے رہنا چاہیے؛ انشاء اللہ العزیز ہم سب کی مشترکہ و مخلصانہ جد و جہد سے تاریکی چھٹے گی، روشنی جگمگائے گا اور ایک بار محکومیت سے حاکمیت کے بلندی پر پہنچیں گے ،احمد فرازکی غزل کے چند اشعار پر دفتر سمیٹتا ہوں کہ ۔۔۔۔ع

کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو

بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو

ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے

ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو

طواف منزل جاناں ہمیں بھی کرنا ہے

فرازؔ تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »