مدارس کے خلاف سازش کا حصہ مت بنئے
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
مدارس کے خلاف ہنگامہ آرائ
چار پانچ دن قبل دہلی کے ایک مدرسہ میں ایک طالب علم کی موت واقع ہو گئی، موت کا سبب جسمانی تشدد ہے؛ یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اس میں شریک افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے اور سخت سے سخت دینی چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے سامانِ عبرت ہو؛ مدارس میں طلبہ کی مار پٹائی کی بالکل اجازت نہیں ہوتی ہے اور اس پر ذمہ داران وقتاً فوقتاً اساتذہ کو متنبہ کرتے رہتے ہیں؛ پھر بھی کبھی کوئی واقعہ اس قسم کا پیش آ جائے تو کسی بھی قیمت پر اس کی نہ حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے بلکہ تادیبی و قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ۔
جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے، علماء برادری کے بعض ناعاقبت اندیش نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس کو بند کر دیا جائے اور واٹس اپ کے بعض گروپ پر اس سلسلے میں ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے؛ افسوس ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل ہی مدارس کے بند کرنے کی وکالت کر رہے ہیں اور جانے انجانے مدارس کے خلاف دشمن کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں؛ حالانکہ سمجھنا چاہیے کہ یہی چھوٹے مدارس بڑے مدارس کے لئے افراد سازی کا کام کرتے ہیں اور اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں؛ پس اگر ملک کے طول و عرض میں پھیلے یہ چھوٹے مدارس بند ہوتے ہیں تو بڑے مدارس کا وجود خود ہی ختم ہو جائے گا ۔
مدارس کے خلاف متعصبانہ رویہ
اس وقت جس پارٹی کی حکومت مرکز اور مختلف صوبوں میں ہے، اس کا نظریہ مدارس کے تعلق سے ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے اور وہ انہیں بند کرانے کے مختلف بہانے تلاشتی رہی ہے؛ چنانچہ اس جماعت کی جن جن صوبوں میں حکومت ہے، وہاں مدارس پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں؛ آسام و اتراکھنڈ میں مدارس اسکول میں بدل دییے گئے ، یوپی اور مدھیہ پردیش میں اس کی کوشش جاری ہے اور پتہ نہیں آگے کن کن صوبوں میں یہ سب دیکھنا پڑے؟ پھر بھی اس قسم کا مطالبہ اپنوں ہی کی طرف سے ماورائے عقل ہے اور مبنی بر حماقت ہے بلکہ ” آ بیل، مجھے مار” کے مترادف ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرور ایام کے ساتھ مدارس میں بہت سی خرابی در آئی ہیں، ضرورت ہے کہ اس خرابی کو دور کیا جائے اور بڑے پیمانے پر اصلاح کی کوشش کی جائے؛ بڑے مدارس اور تنظیمیں سر جوڑ کر بیٹھیں، کمیوں و کوتاہیوں کی نشاندہی کریں اور اصلاح کے لئے متفقہ گائیڈ لائن تیار کرکے تمام مدارس کو بالجبر اس پر عمل کا پابند بنائیں؛ بصورت دیگر اس کو تصدیق نامہ دینا بند کر دیں اور چندہ دہندگان سے ایسے مدارس کو چندہ نہ دینے کی اپیل کریں لیکن یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ایک دو کی غلطی کی وجہ سے مدارس کو ہی بند کرنے کی بات کی جائے؛ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی عضو میں زخم ہو جائے تو علاج کے بجائے، اس عضو کو ہی کاٹ دینے کی بات کی جائے۔
مدارس اسلام کے قلعے
آج اس ملک میں اسلام کی جو رمق باقی ہے، وہ اسی مدارس کی دین ہے؛ ملک پر سامراجی تسلط کے دور میں اسلام کو مٹانے کی تیز و تند آندھیوں کے درمیان ہمارے بزرگوں نے ان مدارس کی داغ بیل ڈال کر ایمان و اسلام کی حفاظت کا سامان نہ کیا ہوتا تو آج اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ملتا اور نہ جا بجا اسلامی ثقافت کی شاندار جھلکیاں نظر آتیں؛ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ (١٩١٤ء – ١٩٩٩ء )نے اسلام کے تحفظ و بقاء کے سلسلے میں مدارس کی خدمات و کردار اور اس کی ہر زمان و مکان میں اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے بہت بلیغ بات فرمائ، آپ بھی پڑھئیے اور مدارس کے حوالے سے دل و دماغ صاف کیجئے، فرمایا
اگر دین اور اس کے شرعی نظام کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کو محض ایک قوم بن کر نہیں بلکہ ایک صاحب شریعت و کتاب قوم بن کر رہنا ہے تو مذہب کے محافظین و حاملین اور شریعت کے ترجمان و شارحین کی ضرورت ہے اور اگر ان کی ضرورت ہے تو لا محالہ ان مرکزوں اور اداروں کی ضرورت ہے جو ایسے اشخاص پیدا کر سکتے ہیں اور یہ ضرورت مسلمانوں کی ہر قومی ضرورت سے اہم ہے؛خلافت راشدہ کے طرز کی اسلامی سلطنت میں بھی دینی مدارس اور تربیت گاہوں کی ضرورت ہے تاکہ امت کے اسلامی جسم میں ہر دم تازہ خون پہونچتا رہے، اہل نظر جانتے ہیں کہ جس نظام کی پشت پر ایسا ادارہ یا تربیت گاہ نہ ہو، جو اس قسم کے اشخاص پیدا کرتا رہے، جو اس نظام کو چلا سکیں، اگلوں کی جگہ لے سکیں اور اس مشین میں فٹ ہو سکیں تو اس نظام کی جڑیں ہمیشہ کھو کھلی اور اس کی عمر ہمیشہ کم ہوتی ہے ۔اگر برائے نام اسلامی سلطنت بھی ہے تو بھی ایسے اداروں کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کو اپنے ذمہ دارانہ عہدوں کے لئے دیندار، امین اور مسلمانوں کی ضرورت سمجھنے والے کا رکن مل سکیں؛ لیکن اگر کسی ملک میں بد قسمتی سے اسلامی حکومت نہ ہو تو وہاں ایسے اداروں کی ضرورت شدید تر ہو جاتی ہے؛ اگر کوئی جماعت کسی صحیح اسلامی حکومت کی کچھ نہ کچھ قائم مقامی کر سکتی ہے اور حفاظت دین کا فرض انجام دے سکتی ہے تو وہ صرف جماعت علماء ہے ۔چنانچہ اسی نکتہ کی وجہ سے اسلامی سلطنت کے زوال کے وقت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (١٧٠٣ء – ١٧٦٢ء )اور ان کے خاندان نے اسلامی تعلیم اور دینی درس و تدریس کا نظام قائم کیا، جس نے بڑی حد تک ایک اچھی اسلامی ریاست کی دینی ضرورتیں پوری کیں؛ اہل بصیرت جانتے ہیں کہ عملی حیثیت سے اسلام ہندوستان میں ان ممالک سے بہتر حالت میں ہے، جہاں برائے نام اسلامی سلطنت موجود ہے مگر دینی آزاد مدارس کا کوئی نظام یا خاندان ولی اللہی کی شان کے علماء نہیں پیدا ہوئے؛ جب ہندوستان میں حکومت مغلیہ کا چراغ گل ہو گیا اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب فراست علماء نے جا بجا اسلام کی شریعت و تہذیب کے قلعے تعمیر کر دیے ، انھیں قلعوں کا نام عربی مدارس ہے اور آج اسلامی شریعیت و تہذیب انھیں قلعوں میں پناہ گزیں ہے، اور اس کی ساری قوت و استحکام انہیں قلعوں پر موقوف ہے؛ (اسلام کے قلعے مدارس دینیہ عربیہ، صفحہ ١٦-١٧)۔
حکیم الامت کا قول
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (١٨٦٣ء – ١٩٤٣ء) نے مدارس کی خدمات اور شریعت کی حفاظت میں اس کے رول کے بارے میں فرمایا :”اس سے بڑھ کر دین کی کیا خدمت ہو گی کہ خادمین ِدین کو پیدا کیا جائے اور شریعت مقدسہ کی حفاظت کی جائے؛ سو اس کومدارس عربیہ بحمد اللہ عربی کی تعلیم دے کر اچھی طرح انجام دے رہے ہیں، شریعت عربی میں ہے اور بدون عربی کے شریعت کا تحفظ مشکل ہے” (اصلاح المسلمين ،صفحہ نمبر ٢٤٣)۔
غور کیجئے کہ شریعت کی حفاظت کے یہ قلعے اگر ملک سے ختم ہو جائیں تو ہماری نسلوں کا کیا حال ہوگا؟ اور کیا اسلامی آثار کے جا بجا نشانات باقی رہ پائیں گے؟ یقیناً نہیں! اس لئے اگر آپ مدارس میں کمی پاتے ہیں تو اس میں اصلاح کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ اس پر غور کریں اور عملی قدم اٹھائیں، ہم سب آپ کے ساتھ ہوں گے مگر کوئی ایسی لچر اور کمزور بات نہ کریں جس سے مدارس دشمنوں کے نشانہ پر آئے ؛ آج ہمدردان قوم و ملت کے سامنے مدارس کے تحفظ کا بڑا چیلنج ہے اور ہمارے اکابر اس کے لئے فکرمندی کے ساتھ کوشاں ہیں، خدارا! ایسے وقت میں مدارس کے بقاء کی بات کیجئے، اس کی حمایت کے لئے آواز بلند کیجئے، نہ کہ اس کے خلاف بات کیجئے ۔
[…] پچھلا Previous post: مدارس کے خلاف سازش کا حصہ مت بنئے […]